Tuesday, 29 November 2022
صحیفہ شناسی ۲
Sunday, 27 November 2022
صحیفہ شناسی ١
Friday, 11 November 2022
اقبال دربارگاہ حضرت فاطمہ ع پر
Thursday, 10 November 2022
امام حسن عسکری ع اور انحرافی افکار
امام حسنؑ عسكري اور انحرافي افكار سے مقابلہ
رہبران دین اسلام کا مقصد حیات ہدایت و رشادت، دینی افکار و عقائد کی پاسبانی ہے اس راہ میں رہبران الہی نے ہر ممکن کوشش کیا ہے. بلا واسطہ یا بالواسطہ دینی رہبروں نے باطل عقائد کی بیخ کنی اور عقائد حقہ کی ترویج کا عمل انجام دیا ہے، ضرورت پڑنے پر ہادیان الہی نے عملی اقدام سے بھی گریز نہیں کیا. عقائد باطلہ کی حقیقت کو واضح کرتے ہوئے ذہن سازی کا عمل بھی انجام دیتے رہے. معاشرہ و سماج میں پھیلی ہوئی غیر اسلامی و قرآنی افکار سے مقابلہ کیلئے افراد بھی تربیت کرتے رہے اور انہیں دور دراز کے علاقوں میں بحیثیت مبلغ دین و شریعت بھیجتے تھے.
ایک طرف جہاں مذہبی راہنماؤں نے تبلیغ و ترویج کے قرآنی اصول: حکمت و موعظہ اور جدال احسن کو اپنایا وہیں دوسری طرف دنیا طلب حکمرانوں نے اپنی حکومت کو مستحکم کرنے کیلئے انحرافی افکار کو پھلنے پھولنے کے تمامتر مواقع فراہم کئے تا کہ ان کی حکمرانی کو خطرہ لاحق نہ ہو. کشتزار عقائد باطل کی آبیاری کرتے رہے تا کہ داعیان حق و حقانیت کی گرفت کمزور ہو جائے اس راہ میں ظلم و استبداد، مال و زر، طاقت و قوت وجاہ بھر پور استعمال کیا لیکن ائمہ معصومین کے ہوشمندانہ طرز عمل اور پاکیزہ حکمت عملی کے سامنے سلاطین کی تمامتر نیرنگیاں بے سود ثابت ہوتی رہیں اور گمراہ کن افکار، باطل عقائد سے مقابلہ کی مختلف حکمت عملی ترتیب دے کر سلاطین بنی امیہ و بنی عباس کی سازشوں کو ناکام بناتے رہے. ائمہ معصومین کے ذریعہ تیار شدہ حکمت عملی کی جامعیت اور ہمہ گیری کو سمجھنے سے پہلے ضروری ہے کہ ہادیان دین حقہ نے کس تعمق فکری کے ذریعہ مقابلہ کی حکمت عملی تیار کیا تھا.اس بات پر حالات کے تناظر میں ایک نظر ڈال لی جائے.
★ امام حسنؑ عسکری کے سیاسی و سماجی حالات:
یوں تو ہر دور اور ہر زمانہ میں پیروان حق کیلئے ظلم و ستم روا رکھا گیا، قید و بند، فقر و فلاکت میں اسیر کیا گیا، رہبران دینی پر قدغن لگائی گئی، قید خانوں میں رکھا گیا، مگر ضلالت و گمراہی کے شب تار میں چراغ ایمانی کہ لو مدھم نہ ہوئی. دار و رسن پائے ثبات میں لغزش پیدا نہ کر سکے. دین و آئین کی آہنی دیوار میں سیندھ نہیں مار سکے. شیعوں کو قتل و خون سے ہراساں نہیں کیا جا سکا. یکے بعد دیگرے ائمہ معصومینؑ جام شہادت نوش فرماتے رہے مگر تبلیغ و ترویج مقاصد کا سلسلہ رکنے نہ پایا. گزرتے ہوئے زمانہ کے ساتھ سازشوں کی نوعیت و کیفیت بھی تبدیل ہوتی رہی مگر حریم عصمت و طہارت کے محافظین نے قدم پیچھے نہ ہٹایا.
امام حسنؑ عسکری کے دور کا مطالعہ اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ آپ کے دور میں سیاسی و اقتصادی حالات نہایت ابتر تھے، شیعوں پر سیاسی طور پر شکنجہ کستا جا تہا تھا، آپ نے طولانی قید و بند کا زمانہ دیکھا مگر جس قید خانہ میں رہے اپنے اخلاق و کردار، تہجد و عبادت سے داروغہ زندان کو متاثر کرتے رہے جس کے سبب آپ کو یکے بعد دیگرے متعدد قید خانوں میں منتقل کیا جاتا رہا. تاریخی شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ جب آپ علی بن نازش کے قید خانہ میں تھے جو نہایت ہی متعصب انسان تھا مگر آپ کی چھوٹی سی ملاقات نے اس کے اندر انقلاب برپا کر دیا. ایک داروغہ زندان کی بے رحم و سنگدل زوجہ آپ سے اتنی متاثر ہوئی کہ آپ کی حمایت میں اپنے شوہر کے سامنے قد علم کر دیا جس سے جھلا کر امام کو درندوں کے درمیان رکھا مگر جو منظر اس نے دیکھا اس سے اس کی آنکھیں پھٹی رہ گئیں کہ ان درندوں کے درمیان بھی باکمال اطمینان و سکون امام مشغول راز و نیاز ہیں.
امام حسنؑ عسکری جب قید خانہ سے باہر ہوتے تب بھی شیعوں سے علنی ملاقات پر خطرات لاحق رہتے تھے لہذا پوشیدہ طور پر شیعوں سے ملاقات کرتے اور ان کے دینی مشکلات حل فرماتے تھے. ایسے پرآشوب دور میں دین و مذہب کی پاسبانی و حفاظت کیلئے نہایت دقیق و جامع حکمت عملی کی ضرورت تھی جو صاحبان عصمت اور حاملان طہارت کے علاوہ کسی اور فرد بشر سے ممکن نہ تھی.
عباسی خلفاء اپنی نا اہلی کو چھپانے کی خاطر اسلامی آئین، قرآنی اصولوں کو بے دریغ پامال کرتے رہتے، رعایا کے منافع کا مطلق پاس و لحاظ نہیِ کرتے تھے اپنے عیش و عشرت کی خاطر کسی بھی طرح کے اقدامات سے گریز نہیں کرتے تھے.
مورخین کے بیانات کی روشنی میں یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ مملکت اسلامیہ کے ذرائع آمدنی سے حاصل شدہ کروڑوں درہم عوام کی فلاح و بہبود کے بجائے عالیشان محل تعمیر کرانے، کنیزوں کی خرید و فروخت، عیش و طرب پر خرچ کرتے تھے. (تاریخ تمدن اسلامی ج ۵، ص ۷۹ مولفہ جرجی زیدان)
مالیات کی جمع آوری پر مامور افراد خراج وصول کرنے میں کسی بھی قسم کی زور زبردستی سے پرہیز نہ کرتے. تشدد آمیز رویہ اختیار کرتے اگر کسی نے خراج دینے سے انکار کر دیا تو زندان میں ڈال دیتے یا درندوں کے حوالہ کر دیتے. یہ طریقہ کار قرآنی آئین، انسان ساز تعلیمات اہلبیت، مکتب اسلام کے بالکل بر عکس تھا. (الکامل فی التاریخ، ج ۶، ص ۲۶۸، مولفہ ابن اثیر)
عباسی حکمران بیت المال سے عیش و عشرت، شراب و شباب کی محفلیں سجاتے، اقربا پروری، درباریوں کو نوازتے، مکار و شاطر شعراء کی پذیرائی میں صرف کرتے تھے. جب متوکل نے اپنے تین بیٹوں (منتصر، معتز و مؤید) کیلئے بیعت لیا تو صولی نامی شاعر نے مدح و ثناء میں کچھ اشعار پڑھے تو متوکل اور اس کے بیٹوں نے ایک سو درہم انعام سے نوازا. (الاغانی ج ۱۴، ص ۱۹۳، مولفہ ابو الفرج اصفہانی)
زرق برق محلات کی تعمیر، ان میں مختلف النوع آرائش عباسی خلفاء کا وہ غلط طریقہ کار تھا جس کے شواہد تاریخ کے صفحات پر مرقوم ہیں «برج» نامی محل جس کو متوکل نے زر و جواہر سے آراستہ کرایا، حیوانات کے مجسمے نصب کرائے، قیمتی پتھروں اور جواہرات سے مزین کرایاان سیکڑوں نمونوں میں سے ایک نمونہ ہے. (حیات الامام العسکری، مولفہ باقر قرشی، ص ۱۹۳)
اس زمانہ میں فقر و فاقہ عام تھا کیونکہ حکومتی بجٹ عوام کی رفاہیات کے بجائے اقرباء، متعلقین پر خرچ ہوتا تھا. مسلمان نان شبینہ کے محتاج تھے فقر و فلاکت کے عفریتی پنجوں کی گرفت، روز بروز مضبوط سے مضبوط تر ہوتی جا رہی تھی. ہر قسم کی مالی محرومیت عوام کاـمقدر بن چکی تھی لیکن سلاطین و حکام کے کانوں پر جوں نہیں رینگتی تھی.
امام حسنؑ عسکری نے اپنی الہی ذمہ داری، فریضہ رہبری کو محسوس کرتے ہوئے امت کی صحیح ہدایت، حقیقی اسلام کی تبلیغ، بر حق اسلامی حکومت کے قیام، اجتماعی، سیاسی و اقتصادی عدالت کے نفاذ کی خاطر پیہم کوششیں کیا ان کی سیاسی حکمت عملی کے خلاف آواز بلند کرتے رہے. عملی و زبانی طور پر اپنی ناراضگی کا اعلان فرماتے رہے. جس دور میں معاشرہ فقر و فاقہ سے جوجھ رہا تھا، غلط مدیریت کا رنج و الم جھیل رہا تھا اور حکام و سلاطین اپنے درباریوں کے ساتھ مجلل محلات میں لہو لعب میں مصروف تھے کیا تصور کیا جا سکتا ہے کہ حجت خدا و امام وقت خاموش تماشائی بنا رہے؟ امام نے غاصب حکومت، ظالم حکمران کی انسانیت سوز سیاست سے مقابلہ کو اپنا فریضہ منصبی سمجھا اور مقابلہ کیلئے عملی اقدام فرمایا. ال علی کی تمام انقلابی تحریکوں کی ذمہ داری قبول کیا تا کہ مخالفت و مقابلہ کا دائرہ وسیع سے وسیع تر ہو سکے اور امت اسلامیہ حکام جور کے پیدا کردہ ہرج و مرج سے نجات حاصل کر لے اسی وجہ سے تینوں معاصر عباسی خلفاء نے امام کے مقابل صف آرائی کیا اور سیاسی محدودیت، قید و بند کے ذریعہ حضرت پر دباؤ بنانا شروع کر دیا. (الکامل، ج ۵، ص ۳۱۴)
شیعوں نے بالعموم اور علویوں نے خاص طور پر عباسی جابرانہ نظام حکومت سے آزادی پانے، عدالت اجتماعی کے استقرار سنت نبوی کے احیاء کی خاطر جابر سلاطین عباسی کے خلاف قیام کیا اور بغاوت کا اعلان کر دیا. سب سے پہلے کوفہ سے یحیی بن عمر طالبی نے حکومت کے خلاف قد علم کیا چونکہ یحیی بلند ہمت صفات کے حامل تھے، ان کا نعرہ اسلامی و انسانی تھا لہذا ستم رسیدہ و محروم شیعیان آل محمد آپ کے گرد جمع ہوتے چلے گئے، کوفہ پر فتح و کامیابی کا پرچم لہرا کر بے گناہوں کو قید سے آزاد کرایا لیکن دشمن کو جب یہ محسوس ہوا کہ حکومت چھن جائے گی تو پوری طاقت اس انقلاب کو کچلنے کیلئے جھونک دیا جس کے نتجہ میں یحیی درجہ شہادت پر فائز ہوگئے. شہادت یحیی پر شعراء نے ان کی شہامت و پاکیزگی کا قصیدہ پڑھا، لوگوں نے ایک زمانہ تک ان کا غم منایا اور ماتم کیا. (حوالہ سابق)
بصرہ سے خاندان زنگی سے تعلق رکھنے والے ایرانی النسل علی بن محمد نے بھی حکومت عباسی کے خلاف احتجاجی قیام کیا اور ایک معتد بہ علاقہ پر کامیابی کا پرچم بھی لہرا دیا ان کے انقلاب کا محور ظلم و ستم کے علاوہ، عدالت اجتماعی کا فقدان، ترکوں کا حکومت پر تسلط، جس کے سبب حکومت میں سیاسی و اداری فتنہ و فساد بڑھتاہی جا رہا تھا کیونکہ مسلمانوں کی تقدیر ناسمجھ ترک لکھ رہے تھے خلفاء تو صرف نام کیلئے تھے. (مروج الذہب، ج ۴، ص ۶۱)
امام حسنؑ عسکری نے علی بن محمد کے بعض دعووں اور زیادتیوں پر اعتراض فرمایا اور اپنی لا تعلقی کا اعلان فرمایا: مثلا «صاحب الزنج لیس منا أهل البیت.» (المناقب ابن شہر آشوب، ج ۴، ص ۴۲۸؛ سفینة البحار، ج ۱، ص ۵۵۹) خاندان زنگی کا چشم و چراغ ہم اہلبیت میں سے نہیں ہے.
★ فکری و عملی انحراف کا سدباب:
عصر امام حسنؑ عسکری میں شعبدہ بازوں نے اسلامی عقائد جو کمزور کرنے اور مسلمانوں کو راہ مستقیم سے منحرف کرنے کیلئے سعی مسلسل کیا، عباسی حکومت کی بھرپور حمایت کے سہارے دسیسہ کاروں نے ہر ممکن کوشش کیا مگر عصمتی حکمت عملی کے مقابل سارے مکر و فریب بے کار ہو گئے.
عراق کے بزعم خود عظیم فلسفی اسحاق کندی کے ذریعہ تضاد قرآن نامی فتنہ ہو یا گمراہ کن پروپگنڈے، خواہشات کے سیلاب میں ڈوبتی ہوئی اقدار اسلامی کا تحفظ، بقاء و احیاء کا عمل ہو یا ارباب اقتدار کے اشاروں پر سجنے والی بزم عیش و عشرت ہر ایک کیلئے متقن و مدلل راہ عمل ترتیب دے کر عملی جامہ پہنایا معارف الہی کی تشریح و توضیح، امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا دینی فریضہ بحسن و خوبی انجام دیتے رہے، دشمن کے سارے منصوبے نقش بر آب بن کر رہ گئے اور مختصر ہی سہی مگر ایک دیندار، متقی، علم دوست، خدا ترس افراد کا گروہ تیار ہوا جس کے کردار و عمل سے فضا و عالم منور و معطر ہوگئی.
اہلبیت نے زمانہ کے تقاضوں کے پیش نظرانداز ہدایت ضرور بدلا ہے لیکن تبلیغ و ارشاد سے دامن تہی نہیں کیا ہے. دعا، راز و نیاز، مناجات کے ذریعہ معارف الہی، تعلیمات ربانی کو لوگوں تک پہونچایا ہے امام حسنؑ عسکری سے منقول ادعیہ نہایت ہی پر مغز مطالب پر مشتمل ہیں جس میں عبادتی پہلو کے علاوہ عرفانی، سیاسی و معاشرتی پہلوؤں پر بھی گفتگو فرمایا ہے.
امام بارگاہ الہی میں دست بدعا ہیں: "پروردگارا! میں نے پورے وجود کے ساتھ تیری بارگاہ کا رخ کیا ہے، قلب خاشع سے راز و نیاز کیا ہے کہ تجھ کو بہترین شفیع پایا، پروردگارا! میری دعا کو مستجاب فرما، بار الہا! فتنوں نے مجھے گھیر رکھا ہے، حیرت کے حجابات نے مجھ پر احاطہ کر لیا ہے، ذلت و رسوائیاں میرے دروازے کو کھٹکھٹا رہی ہیں، خائن ہم پر حاکم ہیں، کینہ و نفرت مقدر بن چکے ہیں تیرے بندوں کے خاتمہ اور شہروں کی تباہی پر کمر بستہ ہیں … بیواؤں اور یتیموں کے اموال سے آلات لہو و لعب خریدے جار ہے ہیں، مومنین پر اہل ذمہ، ہر قبیلہ کے فاسق افراد امور قبائل کو ہاتھوں میں لئے ہوئے ہیں." (مہج الدعوات و منہج العبادات، ص ۶۳)
امام کے جملات پر غور کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ آپ نے الفاظ دعا میں سماجی و معاشرتی حالات کا شکوہ پروردگار کی بارگاہ میں کیا ہے، وحشتناک فتنوں کے پھیلنے، مسلمانوں کی ذلت و رسوائی، غیر آئینی حکمرانی، ظالم و جابر سلاطین عصر، گناہوں کی طرف بڑھتے رجحانات، عیش و عشرت کے بڑھتے رواج جیسے عظیم خطرات کا شکوہ زبان معصوم پر تھا.
اعتقادی، ثقافتی اور سیاسی محاذ پر عباسی حکومت سے امام مسلسل برسر پیکار رہے اور وقتا فوقتا لوگوں کے اذہان تک اجتماعی حقائق، مروجہ طرز حکمرانی کی تباہ کارہوں کو پہونچاتے رہے، اپنے اصحاب و خاص متعمدین کو سماج میں پھیلتی جا رہی برائیوں اور جڑ پکڑتے فتنوں سے با خبر کرتے رہے، محدثین کی تعلیم و تربیت، دور دراز علاقوں میں بسنے والے شیعوں کی خطوط کے ذریعہ راہنمائی، آیات قرآنیہ کی تفسیر، اعتقادی، معاشرتی و سیاسی مسائل پر قران و سنت کی روشنی میں سیر حاصل گفتگو وہ اہمترین اقدامات تھے جو امام نے دین و قانون مذہب کے تحفظ کی خاطر انجام دیئے.
عصر امام حسنؑ عسکری میں صوفیت کا رواج ہواجو خرقہ درویشان زیب تن کئے اسلامی نظام کی اپنی رائے کے مطابق تشریح و توضیح کرتے تھے، احمد بن ہلال نے لباس صوفیت میں گمراہ کرنے کا ٹھیکہ لے رکھا تھا دین کی غلط توضیح و تبیین کے ذریعہ راہ حق سے منحرف کرنے میں ایک لمحہ کوتاہی نہ کرتا تھا، امام نے ان جیسے تمام افراد کو راہزن سرگرداں کے نام سے یاد کیا جو دین کو چرا کر الحاد کی آبیاری کر رہے تھے.
گروہ واقفیہ جو عقیدہ رکھتا ہے کہ امام موسی کاظم کے بعد کسی امام کو امام نہیں مانتے تھے امام حسنؑ عسکری نے اس فتنہ سے شیعوں کو بچانے کیلئے فرمایا: "ان سے دوستی نہ کرو ان کی عیادت کیلئے نہ جاؤ." چونکہ یہ گروہ بھی دائرہ دین سے خارج تھا لہذا امام نے سختی سے اس فتنہ کا مقابلہ فرمایا.
قحط کے دور میں جب مسلمان نماز استسقاء (بارش کیلئے نماز) پڑھ رہے تھے اور دور دور تک بارش کا پتہ نہیں چلتا تھا توـاس وقت ایک عیسائی عالم نے موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے یہ مشورہ دیا کہ میں بارش کرا دوں گا اس نے صحراء میں جا کر دعا کی بارش ہو گئی فرزندان توحید کے ذہن و دماغ میں شکوک و شبہات جنم لینے لگے امام کو اطلاع ملی آپ نے اس کے مکر و فریب سے پردہ اٹھایا اور فرمایا: "اس کے پاس ایک صالح مرد کی ہڈی ہے اگر اس ہڈی کو اس کے یاتھ سے ہٹا دو کوئی دعا قبول نہ ہو گی چنانچہ وہی ہوا جو زبان عصمت ہر جارہی یوا تھا.
ایسے دور اور ایسے ماحول میں جہاں ہر روز نئے نئے فتنے سر اٹھا رہے ہوں کبھی علمی تو کبھی سیاسی، کبھی فکری تو کبھی اعتقادی فتنے پیروان مذہب حقہ کے فکر و خیال کو مشوش کرنے کی کوشش کر رہے ہوں ایسے میں امام نے مختلف النوع طریقے سے ان فتنوں کو ختم کرنے اور برباد کرنے کی سعی بلیغ فرمایا.
امام حسنؑ عسکری کے خدمات میں ایک اہم پہلو یہ بھی نظر آتا ہے کہ آپ نے اپنے دور میں ہی غیبت امام زمانہ کیلئے راہ ہموار کرنا شروع کر دیا، ذہنی طور پر لوگوں کو انتظار، غیبت، نواب اربعہ جیسے مسائل سے کنایتاً و اشارتاً آمادہ فرمایاـ دوران غیبت مسلمانوں کی ذمہ داری، علماء سے روابط کی نوعیت و کیفیت کو اپنے اصحاب خاص سے بیان فرمایا. سیکڑوں شاگردوں کی تربیت فرمایا تا کہ وہ شیعوں کو غیبت کیلئے آمادہ کر سکیں، انہیں مختلف علاقوں میں ترویج دین و تبلیغ مذہب کیلئے روانہ فرماتے رہے تا کہ یہ ذہن سازی کا عمل کسی مخصوص علاقہ سے مختص ہو کر نہ رہ جائے بلکہ دنیا کے گوشہ و کنار میں معارف اسلامی کی کرنیں پھیل کر صبح ظہور کے طلوع ہونے کا انتظار کریں.
Saturday, 5 November 2022
امام عسکری ع کا شیعوں سے مطالبہ
امام حسن عسکرى (علیه السلام) ہم سے کیا چاہتے ہیں؟
فلک عصمت کا تیرہواں ستارہ.سلسلہ امامت کی گیارہویں کڑی. حضرت امام عسکری ع نےمدینہ منورہ میں ماہ ربیع الثانی سنہ 232ھ (1-2)کو عرصہ شہود پر قدم رکھا. کائنات آپ کے نور سے منورہوگئی. والد گرامی امام علی نقی اور مادر گرامی ایک باتقوی وبافضیلت خاتون تھیں جنکو حدیثہ. سلیل اور سوسن کے نام سے یاد کیا گیا ہے.ایک اسلامی سماج میں ماں نے تربیت پائی تھی اس لئے اسلامی افکار کی حامل تھیں آپ کی فضیلت کیلئے یہی کافی ہے کہ شہادت امام عسکری کے بعد کے پر آشوب دوراوربحرانی زمانہ میں شیعوں کا ملجا وماویٰ قرارپائی.(3)
امام حسن عسکرى(علیه السلام) کا چھ سالہ دور امامت تین عباسی خلفاء جو اعلیٰ درجہ کے ظالم وجابرتھے کےدورحکومت کے معاصرتھا
المعتز باللّه - المهتدى باللّه - و المعتمد باللّه
آپ کادور امامت سنہ 254 سےشروع ہوکر سنہ 260 میں اختتام پر پہونچتاہے.10ربیع الثانی روز ولادت کی مناسبت سے ہم ان نکات کی طرف اشارہ کرنے کی کوشش کریں گے جن کا مطالبہ امام نے ہم سے کیا ہے
وہ صفات پسندیدہ جو امام ایک شیعہ میں دیکھنا چاہتے ہیں وہ کیا ہیں. لوگوں کی ساتھ ہمیں کیسا برتاؤکرناچاہئے. احکام الہی. فرامین قرآن واحادیث پر عمل کرنے کے سلسلے میں ہماری کیا ذمہ داریاں ہیں.امام عسکری نے شیعہ کی تعریف کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:
«شیعة عَلِّىٍ هُمُ الّذین یؤثِرُونَ اِخوانَهم عَلى اَنفُسِهِم وَ لَو کانَ بِهِم خصاصَةٌ وَ هُمُ الَّذینَ لایَراهُمُ اللّه حَیثُ نَهاهُم وَ لا یَفقَدُهُم حَیثُ اَمرَهُم، وَ شیعَةُ عَلِىٍّ هم الَّذینَ یَقتَدُون بِعَلىٍ فى اکرامِ اِخوانِهُم المُؤمِنین(4)؛علی ع کا شیعہ وہ ہوتاہےجو اپنے ایمانی بھائی کو اپنے پر مقدم رکھے خواہ خود ضرورتمند ہو. شیعہ وہ ہوتاہےجو اللہ کی طرف سے ممنوع چیزوں سے پرہیزاور اسکے احکامات کو بجا لاتاہے. برادر مومن کی تکریم واحترام میں حضرت علی ع کی اقتدا کرتاہے.
ایک دوسری حدیث میں شیعوں کی نشانیوں وعلامات کو بیان کرتے ہوئے فرمایا:
«علامات المؤمنین خمسٌ صلاة الاحدى و الخمسین و زیارة الاربعین و التختم فى الیمین و تعفیر الجبین و الجهر ببسم اللّه الرحمن الرحیم(5)،
مومن کی پانچ نشانیاں ہیں. اکیاون رکعت نماز پڑھنا(17رکعت واجب. 34رکعت نافلہ)زیارت اربعین پڑھنا. داہنے ہاتھ میں انگوٹھی پہننا. خاک پر پیشانی رگڑنا. بلند آواز سے بسم اللہ پڑھنا.
امام عسکری ع ظاہری طور پر سماج کی ہدایت کرنے والے آخری امام تھے کیونکہ انکی شہادت کے بعد امام غائب کی امامت کا آغاز ہوا جسکے نتیجہ میں ایک طویل زمانہ سے شیعوں کا ظاہری طور پر امام سے رابطہ نہیں رہا ہاں باطنی اور غائبانہ طور پر ہر آن ہم امام کی نگرانی وراہنمائی میں ہیں. مگر چونکہ ہم حضور امام کے شرف سے محروم ہیں لہذا یہ دور بہت ہی عظیم امتحان کادور ہےجسکے پیش نظر امام نے شیعوں کی راہنمائی اور انکی دلجوئی. فرائض وذمہ داریوں کو احادیث کے قالب میں بیان فرمایا تاکہ دور غم ہجراں. عصر غربت میں عالم تشیع کی دلگرمی کا سبب قرار پائے.امام کے مطالبات شیعوں سے کیا ہیں.زندگی گزارنے کی نوعیت کیسی ہونی چاہئے اسکی شاہ سرخیاں درج قرطاس کررہے ہیں امید ہے دانش وبینش کے شناور گوہرہای آبدار سے جہان تشیع کو مالامال کرتے رہیں گے.
1- اندیشه و افکار:
طول تاریخ میں بشریت اس بات کی معترف رہی ہے کہ مادی ومعنوی ترقیوں کی بنیاد ایک طرف اندیشہ وافکار ہیں تو دوسری طرف سعی مسلسل وپیہم کوشش.آج اکیسویں صدی میں صنعتی. ٹیکنالوجی کےشعبہ میں معتد بہ ترقی بشریت کو حاصل ہوئی ہے تو افکار وکوشش کی بناپرہوئی ہے جیسے سماج کی معنوی ترقی قوت عقل وفکر.سعی وکوشش کی مرہون منت ہے. انبیاء. ائمہ معصومین ع اولیاء الہی. بندگان نیک وصالح ہر ایک صاحبان عقل وفکر تھے جناب ابوذر کے سلسلے میں امام جعفر صادق ع نے ارشاد فرمایا:اللہ ابوذر پر رحمت نازل کرے انکی اکثر عبادت اندیشہ و عبرت اندوزی تھی(6)
آسمانی والہی دستور حیات قرآن مجید نے افکار واندیشہ کو بہت ہی اہم بتایاہےاور اسکی افادیت کو واضح کیا ہے. دانش وعلم. تعقل وتفکر. غور وخوض کے حوالہ سے نہایت ہی سلیس ودلنشین انداز میں گفتگو کیاہے. قرآن میں ایک ہزار سے زائد مرتبہ کلمہ علم یا اسکے مشتقات استعمال میں آئے ہیں جو اسکی اہمیت وافادیت کو اجاگر کرتے ہیں. سترہ مقامات پر واضح طور پر انسانوں کو دعوت فکر دیا ہے
دس سے زائد مرتبہ لفظ انظروا(دقت کرو غور کرو)سے گفتگو کا آغاز کیا ہے پچاس سے زائد مرتبہ عقل اور اسکے مشتقات کو استعمال کیاہےاور چار آیتوں میں تدبر وغور وفکر کاقاطعانہ حکم دیاہے.(7)
لفظ فقہ وتفقہ یا اس جیسے الفاظ سے بھی قرآن نے استفادہ کیاہے.(8)
غور وفکر کی اہمیت وافادیت کے پیش نظر امام عسکری نے اپنے شیعوں سے مطالبہ کیاہے کہ اہل تفکر وتدبر بنکر زندگی بسر کریں ارشاد ہوتاہے:
«عَلیکُم بِالفِکرِ فَاِنَّهُ حَیاة قَلب البَصیر وَ مَفاتیحُ اَبوابِ الحِکمَةِ ؛ فکر کرنا تم پر لازم ہے کیونکہ فکر مایہ حیات وزندگی ہے. درحکمت کی کلید ہے.(9)
وہ افراد جو فکر نہیں کرتے. چشم دل حقائق دیکھنے کے لئے استعمال نہیں کرتے روز محشرنابینا محشور ہوں گے.ایک خط میں امام نے اس حقیقت کو بیان کرنے کیلئے قرآنی آیت سے استفادہ کرتے ہوئے اسحاق ابن اسماعیل نیشاپوری کو تحریر فرمایا:
«اے اسحاق! اللہ نےتم پراور تم جیسوں پر جو رحمت الہی کے زیر سایہ ہیں اور تمہاری طرح بصیرت کے حامل ہیں اپنی نعمتیں تمام کردیاہے......پس یقینی طورپر جان لواے اسحاق جو دنیا سے نابینا اٹھتاہے وہ آخرت میں بھی نابیناوگمراہ ہوگا.اےاسحاق آنکھیں نابینا نہیں ہوتی ہیں بلکہ دل جو سینوں میں ہیں نابینا ہوتے ہیں (فکر نہ کرنے کی وجہ سے)یہی بات خدا نے اپنی متقن کتاب میں ستم پیشہ افراد کی زبان حال سے نقل کیا ہے(10):
«پروردگاراکیوں ہمیں نابینا محشور کیا باوجودیکہ ہم آنکھ رکھتے تھے ؟خداوندعالم نے فرمایا کہ تمہارے پاس میری آیتیں آتیں تم انکو فراموش کردیتے تھے آج تمکو فراموش کردیا جائے گا(11)»
امام عسکری نے سماج میں پھیلی ہوئی غلط فہمی کہ صرف نماز وروزہ عبادت ہے پر خط بطلان کھینچتے ہوئے واضح فرمایا کہ صرف چند امور کو انجام دینا ہی عبادت نہیں ہے بلکہ نظام عالم میں غوروفکر افضل ترین عبادت ہے ارشادہوا:
«لَیست العِبادَةُ کَثرَةَ الصِّیامِ وَ الصَّلوةِ وَ اِنّما العِبادَةُ کَثرَةُ التفکُّرِ فى اَمرِ اللّه(12)؛ کثرت نماز وروزہ عبادت نہیں ہے بلکہ امور الہی میں زیادہ سے زیادہ فکر کرناعبادت ہے».
2- خداپرایمان وبندگان خدا کوفائدہ پہونچانا :
غور وفکر. تدبر وتفکر اس وقت حقیقت کا جامہ پہنتاہے جب ایمان وعمل کے ساتھ ہوورنہ بے سود قرارپاتاہے اسی لئے امام نےاپنے شیعوں کو دو خصلتوں کی تاکیدفرمایاہے «خِصلَتانِ لَیس فَوقَهُما شَىءٌ الایمانُ بِاللّه، وَ نَفعُ الاِخوان(13)دو خصلتیں ایسی ہیں جن سے برتر کچھ نہیں. اللہ پر ایمان اور دینی بھائی کو فائدہ پہونچانا ».
3- خدا و قیامت کو یاد رکھنا:
وہ ایمان جو تفکر وتدبر کے ہمراہ ہوتاہے اسکالازمہ عمل ویادالہی ہے جو انسان کو مسلسل عبادت کے طرف لےجاتاہے امام عسکری نے شیعوں کو اس بات کی طرف متوجہ کیاہے کہ کسی بھی حال میں خداوروز قیامت کو فراموش نہیں کرنا چاہئے : «اَکثرُوا ذِکرُ اللّه و ذِکرَ المَوتِ وَ تِلاوَةَ القُرآن و الصَّلاةَ عَلى النَّبى(14)اللہ اور موت کو زیادہ سے زیادہ یاد کرو ہمیشہ تلاوت قرآن اور نبی اکرم ص پر صلوات پڑھتے رہا کرو.
باہوش اورزیرکترین شخص وہ ہے جوموت کے بعد کو یاد کرے اور اپنے وجدان کو اپنے اعمال کا قاضی قراردیتاہے.(15)
4- اعمال کا محاسبہ اور وجدان پر لبیک:
امام عسکری ع کا اپنے شیعوں سے ایک مطالبہ یہ ہے کہ اپنے اعمال کا محاسبہ کریں ہرشب وروز .اور اپنے ضمیرووجدان کی آواز پرلبیک کہیں. ہرروز اعمال نیک انجام دینےاور گناہوں سے بچنے کی شرط کرے اور شب وروز اس شرط پر قائم رہنے کی کوشش کرتارہےاور جب بسترپر جائے تو اپنے کئے ہوئے کا محاسبہ کرے.وہ افرادجو سماجی ذمہ داریوں کے حامل ہیں انھیں عوام کو جواب دیناہوگاصرف عوام نہیں اللہ ورسول کو بھی جواب دیناہوگا. اپنے ضمیر ووجدان کو بھی جواب دینا ہوگا.ممکن ہے کہ کچھ لوگ حساب وجوابدہی سے فرار کو ہوشیاری سے تعبیر کریں لیکن یہ بات یاد رکھنی ہوگی کہ کوئی باشعوراسکو ہوشیاری نہیں کہہ سکتاہےامام عسکری ع نے اس سلسلے میں ارشاد فرمایا:
«اَکیَسُ الکیِسین مَن حاسب نَفسَه وَ عَمِلَ لما بَعدِ المَوت(16)لوگوں میں سب سے زیادہ ہوشیاروہ شخص ہے جو اپنے نفس کا محاسبہ کرتاہےاورموت کےبعد کیلئے عمل کرتاہے».
5 - تقویٰ و امانتدارى:
اہم ترین مطالبہ اور بہترین صفت جو ایک شیعہ کے اندر پائی جانی چاہئے وہ تقوی وپرہیزگاری ہےجو انسان کو گناہوں سے محفوظ رکھتی ہےاور محرمات سےدوررہنے کی تلقین کرتی ہےاسی کے ساتھ ساتھ امانتداری وصداقت گفتار ایک سماج کو منظم رکھنے اور پر سکون بنانے میں کلیدی رول ادا کرتی ہیں ان صفات کی ترویج سے بہت سے سماجی مشکلات کاحل ممکن ہےنیز سعادت دارین کی آرزو کہ جاسکتی ہے امام نے ان صفات اور ان جیسی دیگر ضروری صفات کا تذکرہ کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:
«اُوصیکُم بِتَقوىَ اللّهِ وَ الوَرَعِ فى دِینِکم والاِجتهاد لِلّه و صِدقِ الحَدیثِ وَ اَداءِ الاَمانَةِ اِلى مَن اِئتَمَنَکُم مِن بِرِّ اَوفاجِرٍ وَ طُولِ السُّجُودِ وَ حُسنِ الجَوار فَبِهذا جاءَ مُحَمَّد (ص) صَلّوا فى عَشایِرِهِم وَ اَشهِدُوا جَنائِزَهُم وعُودُوا مرضاهُم، وَ اَدّوا حُقُوقَهُم، فَاِنَّ الرَّجُل مِنکم اِذا وَرِعَ فى دِینِهِ وَ صَدَقَ فى حَدیثِهِ وَ اَدّى الاَمانَةَ و حَسُنَ خُلقُه مَعَ النّاس قیلَ هذا شیعى فَیسرّنى ذلک؛(17)میں تمہیں تقوای الہی. دین میں ورع.راہ خدا میں کوشش کرنے. صداقت گفتار. امانتوں کے لوٹانے. طولانی سجدہ. پڑوسیوں سے اچھے برتاؤکی وصیت کرتاہوں کیونکہ حضرت محمد ص انھیں امور کیلئے مبعوث ہوئے تھے.
مخالفین کے جرگہ میں رہ کر نمازادا کرو. انکی تشییع جنازہ میں شرکت کرو. انکے بیماروں کی عیادت کرو. انکےحقوق کی رعایت کرو کیونکہ اگر کوئی شخص باورع ہو. سچ بولتاہو. امانتوں کو ادا کرتاہو. لوگوں سے خوش اخلاقی سے پیش آتا ہوتو اسکو شیعہ کہا جاسکتاہےاس سے میں خوش ہوتاہوں.»
ایک دوسری حدیث میں ارشاد ہوا:
«المُؤمِنُ بَرَکَةٌ عَلى المُؤمِنِ و حُجّةٌ عَلى الکافِر(18)؛
مومن مؤمن کیلئےبرکت اور کافر کیلئے اتمام حجت ہے.
6- بهترینفرد بنکر زندگی بسر کرو بدترین نہیں:
امام اپنے شیعوں سے اس بات کی امید کرتے ہیں کہ وہ سماج کے بہترین افراد بنکر زندگی بسر کریں.بہترین افراد کے صفات وخصوصیات کو بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:اورع النّاس من وقف عند الشّبهة، اعبد النّاس من اقام على الفرائض، ازهد النّاس من ترک الحرام، اشدّ النّاس اجتهاداً من ترک الذّنوب(19)؛ سب سےزیادہ پارسا وہ شخص ہے جو شبہات کے وقت رک جائے اور سب سے بڑا عبادتگزار وہ ہے جوواجبات کو انجام دے.حرام سے دوری اختیار کرنےوالا سب سے زیادہ زاہد ہوتاہے.گناہوں کو ترک کردینے والاسب سے زیادہ کوشش کرنےوالاہے»
اس کے بعد بدترین افراد کے صفات بیان کرتے ہوئے اس بات کی تاکید فرمایاہے کہ لاشعوری طور پر انمیں شامل نہ ہوجاناارشاد فرماتے ہیں:
«بِئسَ العَبدُ، عَبدٌ یَکون ذا وجهین وذالِسانین یَطرى اَخاهُ شاهِداً وَ یأکُلُهُ غائِباً، اِن اُعطِىَ حَسَدَهُ وَ اِن ابتَلى خانَهُ(20)اللہ کے بندوں میں بدترین افراد وہ ہیں جو دو چہروں اور دوزبان کے مالک ہوتے ہیں سامنے اپنے مومن بھائی کی تعریف کرتے ہیں اور اسکی غیر موجودگی میں اسکا گوشت کھاتے ہیں یعنی غیبت کرتے ہیں. اگر کچھ اس کے بھائی کو ملتاہے تو حسد کرتے ہیں اور اگر گرفتار مصیبت ہوتاہےتو خیانت کرتے ہیں.»
7- عزّت نفس کےساتھ ذلّت سے دور رہنا:
انسان کی اہم ترین وبنیادی ضرورتوں میں سے ایک عزت نفس اور اسکی شخصیت کا مورداحترام ہوناہے.بشر بھوک وپیاس.فقروتنگدستی کا غم برداشت کرسکتاہےلیکن توہین وتحقیر کادکھ سہہ نہیں سکتا. روح وروان آزردہ ہوں ناقابل تحمل رنج ہے. جسکے دیرپااثرات عمرکے ساتھ ساتھ رہتے ہیں.خداوند عزیز نے انسانوں کو عزتدار بنایاہے اور ایک دوسرے کو ذلیل ورسوا کرنے کی اجازت نہیں دیاہےامام صادق (علیه السلام) نے فرمایا:
«خداوندعالم نے بندوں کے تمام امور بندوں کے حوالہ کردیا ہےلیکن اسکو ذلت ورسوائی بھری زندگی گزارنے کی اجازت نہیں دیاہے. کیا اللہ کا فرمان نہیں سناہے کہ فرماتاہے:عزّت تو صرف خدا و رسول اورمؤمنین کیلئےہے لیکن منافقین نہیں جانتےہیں، پس مؤمن همیشه عزتدار ہوتاہےکبھی ذلیل نہیں ہوتاہے»(21)
زمانہ غیبت امام میں شیعوں سے ایک مطالبہ امام عسکری نے یہ فرمایاہے کہ تم باعزت زندگی گزارناکبھی ذلتوں کو قریب نہ آنے دیناارشاد فرمایا:
«ما اَقبَحُ بِالمُؤمِنِ اَن تکُونَ لَهُ رَغبَة تُذِلُّه؛(22)ایک مومن کیلئے کتنی بڑی برائی ہے کہ وہ ایسی چیزوں سے دل لگائے جو اسکو ذلیل وخوار کردے».
ایک دوسرے مقام پر نہایت دردمندانہ نصیحت فرماتے ہیں:
«لا تمار فیذهب بهاؤک و لا تمازح فیحقر علیک؛لڑائی جھگڑے سے پرہیز کرو کہ اس سے انسان کی شخصیت مجروح ہوتی ہے اور ذلت کا سبب قرار پاتی ہے. حد سے زیادہ ہنسی مذاق نہ کرو کہ لوگ جری ہوجائیں.»(23)
عزت دار زندگی بسر کرنے کے راہنما اصول کی طرف راہنمائی کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں:
«ما ترک الحقّ عزیزٌ الّا ذلّ و لا اخذ به ذلیلٌ الّا عزّ؛عزتدار حق چھوڑ کرذلیل ہوجاتاہے اور ذلیل حق پر عمل کرکے عزتدار بن جاتاہے»(24)
8 - ہمارے لئے باعث فخر بنوباعث ذلت نہیں:
امام عسکری اپنے شیعوں سے امید کرتے ہیں کہ وہ سماج میں اس طرح زندگی بسر کریں کہ انکے اخلاق وکردار سے قرآن وسنت کی خوشبو سماج ومعاشرہ میں پھیل جائے. مسلمانوں اور غیر اسلامی سماج میں کردار واخلاق حسنہ کا نمونہ قرار پائیں. لوگ کہیں آل محمد ع کا شیعہ ہے. کردار گواہی دے علی وفاطمہ والاہے.رفتار بتائے کہ مکتب اہلبیت کا پروردہ ہے امام ارشاد فرماتے ہیں :
«اِتَّقُوا اللّهَ وَ کُونُوا زَیناً وَلا تَکُونُو شَیناً، جَرّوا اِلَینا کُلَّ مَوَدَّةٍ، وَ ادفَعُوا عَنّا کُلَّ قَبِیحٍ، فَاِنَّهُ ما قیلَ فِینا مِن حَسَنٍ فَنَحنُ اَهلُهُ و ما قیل فینا مِن سوءٍ فَما نَحن کذلک...(25)اللہ سے ڈروہمارے لئے زینت کے سبب بنو ملامت کا سبب نہ بنو. ہر محبت کو ہماری طرف جذب کرو اور برائیوں کو دور کروکیونکہ جو اچھائیاں ہمارے بارے میں کہی جاسکتی ہیں ہم اسکے حقدار ہیں. اور ہر برائی کو ہمارے بارے میں بیان ہو سکتی ہے ہم اس سے پاک ہیں. کیونکہ اللہ نے ہمیں پاک کردیاہے ہمارے علاوہ کوئی دوسرا یہ دعوی نہیں کر سکتا اگر کرتا ہوتو جھوٹاہے.»
9 - ریاست طلب نہ بنو:
اقتدار کی خواہش. منصب کی تمنا سخت ترین گمراہی کا سبب بنتی ہے اور دیمک کی طرح روح انسانی کو برباد کردیتی ہے. اقتدار کی ہوس نے کیا کیا کرشمہ کئے ہیں اسکی شہادت تاریخ کے اوراق پر موجود ہے. اسلام کو سب سے زیادہ نقصان منصب کی ہوس نے پہونچایاہے. اسی نے خلافت جیسے الہی منصب کو دنیاداروں کا کھیل بنا دیااور اس منصب کو اصلی ڈگر سے ہٹادیا جس کے بعد بنت رسول کی آہ وفغاں نے غاصبین خلافت کی نیند حرام کردیا. شہزادی ع نے ارشاد فرمایا:افسوس اسکو مقدم کردیا جسکو اللہ نے پیچھے کردیاتھا. اور اسکو حاشیہ پر ڈالدیا جسکو اللہ نے مقدم کیاتھا یہاں تک کہ بعثت کی افادیت سے انکار ہونےلگابدعتیں رائج ہونے لگیں آن لوگوں نے ہواوہوس کا انتخاب کیا ایک شخص کی ذاتی رائے پر عمل کیا.ہلاکت ونابودی انکا مقدر ہو. کیا اللہ کا پیغام نہیں سناتھا کہ ارشادفرمایا:اللہ تو جوچاہتاہے خلق کرتاہے اور جس چیز کو چاہتاہے اختیار کرتاہے اور انکو تو اختیار ہی نہیں ہے...(26)
افسوس رؤساء سقیفہ نے اپنی ریاست طلبی کی تمنا کو دنیا میں پوراکرلیااور آئندہ سے غافل ہوگئے اللہ انکو نابودکرے وہ اپنے کاموں میں گمراہ ہیں...(27)
آج بھی ہمارے معاشرہ میں اقتدار کی تمنائیں کروٹ بدلتی رہتی ہیں. منصب کے حصول کے فراق میں سازشوں کے تانے بانے بنے جاتے ہیں. دولت وسرمایہ کو بے دریغ خرچ کیا جاتاہے. ہر وہ وسیلہ استعمال کیا جاتاہے جسکے ذریعہ سے کرسی اقتدارتک پہونچنے کی ذرہ برابر بھی امید ہوتی ہے. جائزوناجائز ہتھکنڈے استعمال میں آتے ہیں. قتل وخون. املاک کی غارتگری جیسے غیر انسانی امور سے بھی پرہیز نہیں کیا جاتاہے.جھوٹے وعدہ ووعید.طفل تسلیاں الغرض ہر حربہ استعمال کیاجاتاہے. امام عسکری نے ان خطرات کے پیش نظر اپنے چاہنےوالوں کو تاکید فر مایا تھا :
«اِیّاکَ وَ اَلاذاعَةَ وَ طَلَبَ الرِّیاسَة فَاِنَّهُما یَدعُوانِ اِلَى الهَلکَة؛»(28)
ہم اہلبیت کے راز فاش کرنے اور ریاست طلبی سے پرہیز کرو کہ یہ دونوں ہلاکت ونابودی کاسبب ہیں
10 -زمانہ غیبت امام میں دین وولایت پر ثابت قدم رہو:
زمانہ غیبت کبری میں شیعوں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ ثابت قدمی کا مظاہرہ کریں کیونکہ یہ دور بہت سخت ہے اسمیں صبر واستواری کا بہت سخت امتحان ہوگا. لہذا شیعوں کو صبر وتحمل کے ساتھ راہ دین وولایت پر ثبات قدم.واستقامت کا ثبوت دیں اور پیہم ظہور امام کی دعا کرتے رہیں. کیونکہ«وَ اللّهِ لَیَغیبَنَّ غَیبَةً لایَنجُوا فیها مِن الهَلَکَةِ اِلّا مَن ثَبّته اللّهُ عَزَّ وَ جَلَّ بِاِمامَتِهِ وَ وَفّقَهُ لِلدّعاء بتَعجیل فَرَجِه؛ بخدا حضرت مہدی کی غیبت طولانی ہوگی جسمیں وہ افراد ہی نجات یافتہ ہوں گے جنکو خداوند متعال پر اعتقادوعقیدہ امامت پر استوار ہوگابتوفیق الہی.فرج حضرت کی دعا کرتاہوبتوفیق الہی.(29)
حوالہ جات
1. مسعودى و على بن عیسى اربلى نے حضرت کی ولادت کا سال 231 ھ بتایاہے
2. اصول کافى، ج 1، ص 503.
3. شیخ عباس قمى، الانوار البهیة، ص 151.
4. محمدى رى شهرى، میزان الحکمه، ج 5، ص 231.
5. بحارالانوار، ج 95، ص 348 و مصباح المتهجد، ص 787، روضة الواعظین، ج 1، ص 195.
6. بحارالانوار، ج 22، ص 431.
7. سوره نحل، آیه 44؛سوره آل عمران، آیه 191 و سوره نحل، آیه 69.
8. کتاب «المعجم المفهرس» محمد فؤاد عبدالباقى (دارالحدیث القاهره) سے یہ تعداداقتباس ہیں.
9. محمد باقر مجلسى، بحارالانوار، ج 8، ص 115 و الحکم الزاهرة، ج 1، ص 19.
10. على بن شعبه حرّانى، تحف العقول، ص 513 و 514.
11. سوره طه، آیه 126.
12. بحارالانوار، ج 71، ص 322، وسائل الشیعه، ج 11، ص 153 ؛ اصول کافى، ج 2 ص 55 و تحف العقول، ص 518، حدیث 13.
13. تحف العقول، ص 518، حدیث 14.
14. همان، ص 487.
15. حر عاملى، وسائل الشیعه، ج 16، ص 98.
16. همان.
17. همان، ج 8، ص 389، حدیث 2 و تحف العقول، ص 518، حدیث 12 و میزان الحکمه، ج 10، ص 491.
18. تحف العقول، ص 519، حدیث 20 ومطبوعہ انتشارات آل على(ع) ص 892، روایت 20.
19. همان، ص 519 ح 18، و انوار البهیّة، شیخ عباس قمى، ص 318.
20. تحف العقول (همان) ص 518، ح 14 ومطبوعہ انتشارات آل على(ع)، ص 892 روایت 14.
21. میران الحکمه، ج 5، ص 1957.
22. تحف العقول، ص 520.
23. بحارلانوار، ج 75، ص 371، میزان الحکمه، ج 9، ص 135.
24. تحف العقول، ص 520 و در چاپ انتشارات آل على (ع)، ص 894، روایت 35.
25. همان، ص 518 و طبعہ آل على(ع)، ص 890، روایت 12.
26. سوره قصص، آیه 68.
27. محمد باقر مجلسى، بحارالانوار (بیروت، داراحیاء التراث)، ج 36، ص 353 و ر - ک احقاق الحق ج21، ص 26.
28. تحف العقول (انتشارات آل على (ع)) ص 888، روایت 4.
29. شیخ صدوق، کمال الدین، ج 2، ص 384
#shia
#islam
#imam
#hasan
#askari
#ghaibat
#mahdi
#ZAHOOR
#محمد #رسول #عید میلاد النبی #ربیع النور #اسلام_ناب #شیعہ #prophet #mohammad #eid #milad #islam #shia #karbalastatus#nadeemsarwar #nohastatus #imamraza#imamhussain #imamali #shia #yaali #yahussain #yaalimadad #labbaikyahussain #islam #najaf #imammahdi #iran #imam #yazainab #imamhassan #yaabbas #allah #imamezamana #ahlulbayt #azadar #azadari #imamaliquotes #imammehdi #muharram #shianeali #yazehra #hussaini #imamnaqi #shaam #labbaikyaabbas #imammusakazim #imamtaqi #mashad #madina #yahassan #yafatima #yazahra #shiamuslim #quran #imamhassanaskari #bibizainab #imamjaffar #ahlebait #imambaqar #hussain #life #prophetmohammed #sakina #iraq #quote #hazrathali #moharram #zainulabedeen #promoteazadari #bibifathima #ahylubaythmbibizainab #iraqkarbala #abbasalamdar #karbala #nohastatus #farsinoha #5tani #imamali #karbala #imamhussain #shia #yaali #najaf #yahussain #islam #imam #allah #yaalimadad #muharram #yaabbas #ali #azadari #labbaikyahussain #ahlulbayt #quran #hussain #azadar #iran #imamaliquotes #iraq #ahlebait #yazainab #imammahdi #hussaini #imammehdi #imamreza #muslim #hazratali #shianeali #imamhassan #e #prophetmuhammad #madina #shiatweets #muhammad #molaali #mashad #aliunwaliullah #islamicquotes #as #imamhasan #love #yazahra #arbaeen #abbasalamdar #imamalisayings #moharram #shiamuslim #yafatima #pakistan #khwaja #promoteazadari #maulaali #quotes #karbalaa #yazehra #fatima #imamali #quotes #islam #iran #muslim #pakistan #allah #quran #ramadan #iraq #islamicquotes #namaz #ali #muhammad #madina #karbala #shia #prophetmuhammad #yahussain #hussain #najaf alihaq #labbaikyaabbas #kufa #muharram #imamaliquotes #yahassan #yahussain #ahlebait #molaali #najaf #hussaini #manqabat #karbala #labbaikyahussain #alishanawar #nadeemsarwar #mesumabbas #farhanaliwaris #bainulharamain #imamali #imamhussain #kaneez #shrine #karbalawrites #najaf #shia #azadar #azadari #alimola #azadariworld #hussainimadia #mylifekarbala #mirhassanmir #yahussain #yazahra #shianeali #hussaini_azadar #arbaeen #imammehdi #shia_youth #yaali #yaalimadad #yazehra #yafatema #labbaik_ya_husain✋ #امام_علی #امام_حسین2⃣5⃣रमजान #متباركين #ابا_الفضل_العباس #الامام_الحسين_عليه_السلام #يازهراء #باب_الحوائج #الامام_الكاظم #كربلاء_المقدسة #كربلاء_الحسين #امام_حسين_عليه_السلام #وفاء_للحسين #بين_الحرمين #ابا_الفضل #حبيب_بن_مظاهر_الاسدي #العتبة_الحسينية_المقدسة #كربلا_معلى #حبيب_بن_مظاهر #الامام_المهدي #ya_ali_madad92never #art #ahlulbayt #yamahdi #iraq #muharram #zainab #karbala #zainimam #love #allah #shia #imamali #ahlulbayt #justiceforzainab #asifa #justiceforasifa #najaf #imamhussain #quran #yaabbas #yahussain #ali #muharram #islam #yaali #hussain #yaalimadad #muslim #labbaikyaabbas #imammahdi #official #azadar #sayedazainab #e #imamhasan #muharram1441 #yaabbas #yafatima #fatima #allah #karbala #ali #hussain #jesus #najaf #f #imam #e #catholic #tima #imamali #virgenmaria #portugal #o #quran #muhammad #imamhussain #maria #nossasenhoradefatima #a #pray #yaali #salamyahussain #mashad #khwaja #shia #madina #iraq #worldazaadari #welovekarbala #کربلا #امام_زمان #امام_حسین #حضرت_ابوالفضل #محرم #نجف #سامرا #امیرالمؤمنین #امام_حسن #فاطمہ_زهرا #حضرت_زینب #بقیع #the #🌷🌘🌸😍🍃 #به_وقت_ماه_رمضان #سلامعزیزخدا #خدا #بین_الحرمین #حرم #زیارت #عشق #مذهبی #مشهد #کربلاء #شهید #شهدا #کربلاء_المقدسة #شیعه #اربعین #چادری #حجاب #حجابات #رهبر #رهبری #syria #الشيعة #تهران #ويبقى_الحسين #لبيك_يا_حسين #ايران #اصفهان #عاشوراء #باسم_الكربلائي #العراق #طهران #الحشد_الشعبي #كربلا #ارباب #قم #الكاظمية_المقدسمادران معصومین ع ایک تعارف۔8۔
آپ امام موسی کاظمؑ کی والدہ تھیں ، تاریخ سے ان کی ولادت با سعادت کی اطلاع نہیں ملتی ہے۔ آپ کے والد کا نام صاعد بربر یا صالح تھا،...
-
مصحف جناب فاطمہ ائمہ اطہار علیہم السلام کی نظر میں وفات رسالتمآب حضرت محمد مصطفی کے بعد اہل مدینہ نے پیغمبر اکرم کی اکلوتی بیٹی...
-
آداب زیارت ۱۔با وضو اور غسل کر کے صلوات کے ذریعہ اپنے دہن کو معطر کریں۔۲۔پاک و پاکیزہ لباس، خوشبو لگا کر ، حرم میں داخل ہوں ۔۳۔حرم جاتے ...
-
جناب فاطمہؑ زہرا پیغمبر اکرؐم اور جناب خدؑیجہ کی بیٹی، امام علی بن ابیطالبؑ کی شریکۂ حیات اور امام حسنؑ و امام حسینؑ (جناب زینبؑ ام کلث...