امام حسنؑ عسكري اور انحرافي افكار سے مقابلہ
رہبران دین اسلام کا مقصد حیات ہدایت و رشادت، دینی افکار و عقائد کی پاسبانی ہے اس راہ میں رہبران الہی نے ہر ممکن کوشش کیا ہے. بلا واسطہ یا بالواسطہ دینی رہبروں نے باطل عقائد کی بیخ کنی اور عقائد حقہ کی ترویج کا عمل انجام دیا ہے، ضرورت پڑنے پر ہادیان الہی نے عملی اقدام سے بھی گریز نہیں کیا. عقائد باطلہ کی حقیقت کو واضح کرتے ہوئے ذہن سازی کا عمل بھی انجام دیتے رہے. معاشرہ و سماج میں پھیلی ہوئی غیر اسلامی و قرآنی افکار سے مقابلہ کیلئے افراد بھی تربیت کرتے رہے اور انہیں دور دراز کے علاقوں میں بحیثیت مبلغ دین و شریعت بھیجتے تھے.
ایک طرف جہاں مذہبی راہنماؤں نے تبلیغ و ترویج کے قرآنی اصول: حکمت و موعظہ اور جدال احسن کو اپنایا وہیں دوسری طرف دنیا طلب حکمرانوں نے اپنی حکومت کو مستحکم کرنے کیلئے انحرافی افکار کو پھلنے پھولنے کے تمامتر مواقع فراہم کئے تا کہ ان کی حکمرانی کو خطرہ لاحق نہ ہو. کشتزار عقائد باطل کی آبیاری کرتے رہے تا کہ داعیان حق و حقانیت کی گرفت کمزور ہو جائے اس راہ میں ظلم و استبداد، مال و زر، طاقت و قوت وجاہ بھر پور استعمال کیا لیکن ائمہ معصومین کے ہوشمندانہ طرز عمل اور پاکیزہ حکمت عملی کے سامنے سلاطین کی تمامتر نیرنگیاں بے سود ثابت ہوتی رہیں اور گمراہ کن افکار، باطل عقائد سے مقابلہ کی مختلف حکمت عملی ترتیب دے کر سلاطین بنی امیہ و بنی عباس کی سازشوں کو ناکام بناتے رہے. ائمہ معصومین کے ذریعہ تیار شدہ حکمت عملی کی جامعیت اور ہمہ گیری کو سمجھنے سے پہلے ضروری ہے کہ ہادیان دین حقہ نے کس تعمق فکری کے ذریعہ مقابلہ کی حکمت عملی تیار کیا تھا.اس بات پر حالات کے تناظر میں ایک نظر ڈال لی جائے.
★ امام حسنؑ عسکری کے سیاسی و سماجی حالات:
یوں تو ہر دور اور ہر زمانہ میں پیروان حق کیلئے ظلم و ستم روا رکھا گیا، قید و بند، فقر و فلاکت میں اسیر کیا گیا، رہبران دینی پر قدغن لگائی گئی، قید خانوں میں رکھا گیا، مگر ضلالت و گمراہی کے شب تار میں چراغ ایمانی کہ لو مدھم نہ ہوئی. دار و رسن پائے ثبات میں لغزش پیدا نہ کر سکے. دین و آئین کی آہنی دیوار میں سیندھ نہیں مار سکے. شیعوں کو قتل و خون سے ہراساں نہیں کیا جا سکا. یکے بعد دیگرے ائمہ معصومینؑ جام شہادت نوش فرماتے رہے مگر تبلیغ و ترویج مقاصد کا سلسلہ رکنے نہ پایا. گزرتے ہوئے زمانہ کے ساتھ سازشوں کی نوعیت و کیفیت بھی تبدیل ہوتی رہی مگر حریم عصمت و طہارت کے محافظین نے قدم پیچھے نہ ہٹایا.
امام حسنؑ عسکری کے دور کا مطالعہ اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ آپ کے دور میں سیاسی و اقتصادی حالات نہایت ابتر تھے، شیعوں پر سیاسی طور پر شکنجہ کستا جا تہا تھا، آپ نے طولانی قید و بند کا زمانہ دیکھا مگر جس قید خانہ میں رہے اپنے اخلاق و کردار، تہجد و عبادت سے داروغہ زندان کو متاثر کرتے رہے جس کے سبب آپ کو یکے بعد دیگرے متعدد قید خانوں میں منتقل کیا جاتا رہا. تاریخی شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ جب آپ علی بن نازش کے قید خانہ میں تھے جو نہایت ہی متعصب انسان تھا مگر آپ کی چھوٹی سی ملاقات نے اس کے اندر انقلاب برپا کر دیا. ایک داروغہ زندان کی بے رحم و سنگدل زوجہ آپ سے اتنی متاثر ہوئی کہ آپ کی حمایت میں اپنے شوہر کے سامنے قد علم کر دیا جس سے جھلا کر امام کو درندوں کے درمیان رکھا مگر جو منظر اس نے دیکھا اس سے اس کی آنکھیں پھٹی رہ گئیں کہ ان درندوں کے درمیان بھی باکمال اطمینان و سکون امام مشغول راز و نیاز ہیں.
امام حسنؑ عسکری جب قید خانہ سے باہر ہوتے تب بھی شیعوں سے علنی ملاقات پر خطرات لاحق رہتے تھے لہذا پوشیدہ طور پر شیعوں سے ملاقات کرتے اور ان کے دینی مشکلات حل فرماتے تھے. ایسے پرآشوب دور میں دین و مذہب کی پاسبانی و حفاظت کیلئے نہایت دقیق و جامع حکمت عملی کی ضرورت تھی جو صاحبان عصمت اور حاملان طہارت کے علاوہ کسی اور فرد بشر سے ممکن نہ تھی.
عباسی خلفاء اپنی نا اہلی کو چھپانے کی خاطر اسلامی آئین، قرآنی اصولوں کو بے دریغ پامال کرتے رہتے، رعایا کے منافع کا مطلق پاس و لحاظ نہیِ کرتے تھے اپنے عیش و عشرت کی خاطر کسی بھی طرح کے اقدامات سے گریز نہیں کرتے تھے.
مورخین کے بیانات کی روشنی میں یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ مملکت اسلامیہ کے ذرائع آمدنی سے حاصل شدہ کروڑوں درہم عوام کی فلاح و بہبود کے بجائے عالیشان محل تعمیر کرانے، کنیزوں کی خرید و فروخت، عیش و طرب پر خرچ کرتے تھے. (تاریخ تمدن اسلامی ج ۵، ص ۷۹ مولفہ جرجی زیدان)
مالیات کی جمع آوری پر مامور افراد خراج وصول کرنے میں کسی بھی قسم کی زور زبردستی سے پرہیز نہ کرتے. تشدد آمیز رویہ اختیار کرتے اگر کسی نے خراج دینے سے انکار کر دیا تو زندان میں ڈال دیتے یا درندوں کے حوالہ کر دیتے. یہ طریقہ کار قرآنی آئین، انسان ساز تعلیمات اہلبیت، مکتب اسلام کے بالکل بر عکس تھا. (الکامل فی التاریخ، ج ۶، ص ۲۶۸، مولفہ ابن اثیر)
عباسی حکمران بیت المال سے عیش و عشرت، شراب و شباب کی محفلیں سجاتے، اقربا پروری، درباریوں کو نوازتے، مکار و شاطر شعراء کی پذیرائی میں صرف کرتے تھے. جب متوکل نے اپنے تین بیٹوں (منتصر، معتز و مؤید) کیلئے بیعت لیا تو صولی نامی شاعر نے مدح و ثناء میں کچھ اشعار پڑھے تو متوکل اور اس کے بیٹوں نے ایک سو درہم انعام سے نوازا. (الاغانی ج ۱۴، ص ۱۹۳، مولفہ ابو الفرج اصفہانی)
زرق برق محلات کی تعمیر، ان میں مختلف النوع آرائش عباسی خلفاء کا وہ غلط طریقہ کار تھا جس کے شواہد تاریخ کے صفحات پر مرقوم ہیں «برج» نامی محل جس کو متوکل نے زر و جواہر سے آراستہ کرایا، حیوانات کے مجسمے نصب کرائے، قیمتی پتھروں اور جواہرات سے مزین کرایاان سیکڑوں نمونوں میں سے ایک نمونہ ہے. (حیات الامام العسکری، مولفہ باقر قرشی، ص ۱۹۳)
اس زمانہ میں فقر و فاقہ عام تھا کیونکہ حکومتی بجٹ عوام کی رفاہیات کے بجائے اقرباء، متعلقین پر خرچ ہوتا تھا. مسلمان نان شبینہ کے محتاج تھے فقر و فلاکت کے عفریتی پنجوں کی گرفت، روز بروز مضبوط سے مضبوط تر ہوتی جا رہی تھی. ہر قسم کی مالی محرومیت عوام کاـمقدر بن چکی تھی لیکن سلاطین و حکام کے کانوں پر جوں نہیں رینگتی تھی.
امام حسنؑ عسکری نے اپنی الہی ذمہ داری، فریضہ رہبری کو محسوس کرتے ہوئے امت کی صحیح ہدایت، حقیقی اسلام کی تبلیغ، بر حق اسلامی حکومت کے قیام، اجتماعی، سیاسی و اقتصادی عدالت کے نفاذ کی خاطر پیہم کوششیں کیا ان کی سیاسی حکمت عملی کے خلاف آواز بلند کرتے رہے. عملی و زبانی طور پر اپنی ناراضگی کا اعلان فرماتے رہے. جس دور میں معاشرہ فقر و فاقہ سے جوجھ رہا تھا، غلط مدیریت کا رنج و الم جھیل رہا تھا اور حکام و سلاطین اپنے درباریوں کے ساتھ مجلل محلات میں لہو لعب میں مصروف تھے کیا تصور کیا جا سکتا ہے کہ حجت خدا و امام وقت خاموش تماشائی بنا رہے؟ امام نے غاصب حکومت، ظالم حکمران کی انسانیت سوز سیاست سے مقابلہ کو اپنا فریضہ منصبی سمجھا اور مقابلہ کیلئے عملی اقدام فرمایا. ال علی کی تمام انقلابی تحریکوں کی ذمہ داری قبول کیا تا کہ مخالفت و مقابلہ کا دائرہ وسیع سے وسیع تر ہو سکے اور امت اسلامیہ حکام جور کے پیدا کردہ ہرج و مرج سے نجات حاصل کر لے اسی وجہ سے تینوں معاصر عباسی خلفاء نے امام کے مقابل صف آرائی کیا اور سیاسی محدودیت، قید و بند کے ذریعہ حضرت پر دباؤ بنانا شروع کر دیا. (الکامل، ج ۵، ص ۳۱۴)
شیعوں نے بالعموم اور علویوں نے خاص طور پر عباسی جابرانہ نظام حکومت سے آزادی پانے، عدالت اجتماعی کے استقرار سنت نبوی کے احیاء کی خاطر جابر سلاطین عباسی کے خلاف قیام کیا اور بغاوت کا اعلان کر دیا. سب سے پہلے کوفہ سے یحیی بن عمر طالبی نے حکومت کے خلاف قد علم کیا چونکہ یحیی بلند ہمت صفات کے حامل تھے، ان کا نعرہ اسلامی و انسانی تھا لہذا ستم رسیدہ و محروم شیعیان آل محمد آپ کے گرد جمع ہوتے چلے گئے، کوفہ پر فتح و کامیابی کا پرچم لہرا کر بے گناہوں کو قید سے آزاد کرایا لیکن دشمن کو جب یہ محسوس ہوا کہ حکومت چھن جائے گی تو پوری طاقت اس انقلاب کو کچلنے کیلئے جھونک دیا جس کے نتجہ میں یحیی درجہ شہادت پر فائز ہوگئے. شہادت یحیی پر شعراء نے ان کی شہامت و پاکیزگی کا قصیدہ پڑھا، لوگوں نے ایک زمانہ تک ان کا غم منایا اور ماتم کیا. (حوالہ سابق)
بصرہ سے خاندان زنگی سے تعلق رکھنے والے ایرانی النسل علی بن محمد نے بھی حکومت عباسی کے خلاف احتجاجی قیام کیا اور ایک معتد بہ علاقہ پر کامیابی کا پرچم بھی لہرا دیا ان کے انقلاب کا محور ظلم و ستم کے علاوہ، عدالت اجتماعی کا فقدان، ترکوں کا حکومت پر تسلط، جس کے سبب حکومت میں سیاسی و اداری فتنہ و فساد بڑھتاہی جا رہا تھا کیونکہ مسلمانوں کی تقدیر ناسمجھ ترک لکھ رہے تھے خلفاء تو صرف نام کیلئے تھے. (مروج الذہب، ج ۴، ص ۶۱)
امام حسنؑ عسکری نے علی بن محمد کے بعض دعووں اور زیادتیوں پر اعتراض فرمایا اور اپنی لا تعلقی کا اعلان فرمایا: مثلا «صاحب الزنج لیس منا أهل البیت.» (المناقب ابن شہر آشوب، ج ۴، ص ۴۲۸؛ سفینة البحار، ج ۱، ص ۵۵۹) خاندان زنگی کا چشم و چراغ ہم اہلبیت میں سے نہیں ہے.
★ فکری و عملی انحراف کا سدباب:
عصر امام حسنؑ عسکری میں شعبدہ بازوں نے اسلامی عقائد جو کمزور کرنے اور مسلمانوں کو راہ مستقیم سے منحرف کرنے کیلئے سعی مسلسل کیا، عباسی حکومت کی بھرپور حمایت کے سہارے دسیسہ کاروں نے ہر ممکن کوشش کیا مگر عصمتی حکمت عملی کے مقابل سارے مکر و فریب بے کار ہو گئے.
عراق کے بزعم خود عظیم فلسفی اسحاق کندی کے ذریعہ تضاد قرآن نامی فتنہ ہو یا گمراہ کن پروپگنڈے، خواہشات کے سیلاب میں ڈوبتی ہوئی اقدار اسلامی کا تحفظ، بقاء و احیاء کا عمل ہو یا ارباب اقتدار کے اشاروں پر سجنے والی بزم عیش و عشرت ہر ایک کیلئے متقن و مدلل راہ عمل ترتیب دے کر عملی جامہ پہنایا معارف الہی کی تشریح و توضیح، امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا دینی فریضہ بحسن و خوبی انجام دیتے رہے، دشمن کے سارے منصوبے نقش بر آب بن کر رہ گئے اور مختصر ہی سہی مگر ایک دیندار، متقی، علم دوست، خدا ترس افراد کا گروہ تیار ہوا جس کے کردار و عمل سے فضا و عالم منور و معطر ہوگئی.
اہلبیت نے زمانہ کے تقاضوں کے پیش نظرانداز ہدایت ضرور بدلا ہے لیکن تبلیغ و ارشاد سے دامن تہی نہیں کیا ہے. دعا، راز و نیاز، مناجات کے ذریعہ معارف الہی، تعلیمات ربانی کو لوگوں تک پہونچایا ہے امام حسنؑ عسکری سے منقول ادعیہ نہایت ہی پر مغز مطالب پر مشتمل ہیں جس میں عبادتی پہلو کے علاوہ عرفانی، سیاسی و معاشرتی پہلوؤں پر بھی گفتگو فرمایا ہے.
امام بارگاہ الہی میں دست بدعا ہیں: "پروردگارا! میں نے پورے وجود کے ساتھ تیری بارگاہ کا رخ کیا ہے، قلب خاشع سے راز و نیاز کیا ہے کہ تجھ کو بہترین شفیع پایا، پروردگارا! میری دعا کو مستجاب فرما، بار الہا! فتنوں نے مجھے گھیر رکھا ہے، حیرت کے حجابات نے مجھ پر احاطہ کر لیا ہے، ذلت و رسوائیاں میرے دروازے کو کھٹکھٹا رہی ہیں، خائن ہم پر حاکم ہیں، کینہ و نفرت مقدر بن چکے ہیں تیرے بندوں کے خاتمہ اور شہروں کی تباہی پر کمر بستہ ہیں … بیواؤں اور یتیموں کے اموال سے آلات لہو و لعب خریدے جار ہے ہیں، مومنین پر اہل ذمہ، ہر قبیلہ کے فاسق افراد امور قبائل کو ہاتھوں میں لئے ہوئے ہیں." (مہج الدعوات و منہج العبادات، ص ۶۳)
امام کے جملات پر غور کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ آپ نے الفاظ دعا میں سماجی و معاشرتی حالات کا شکوہ پروردگار کی بارگاہ میں کیا ہے، وحشتناک فتنوں کے پھیلنے، مسلمانوں کی ذلت و رسوائی، غیر آئینی حکمرانی، ظالم و جابر سلاطین عصر، گناہوں کی طرف بڑھتے رجحانات، عیش و عشرت کے بڑھتے رواج جیسے عظیم خطرات کا شکوہ زبان معصوم پر تھا.
اعتقادی، ثقافتی اور سیاسی محاذ پر عباسی حکومت سے امام مسلسل برسر پیکار رہے اور وقتا فوقتا لوگوں کے اذہان تک اجتماعی حقائق، مروجہ طرز حکمرانی کی تباہ کارہوں کو پہونچاتے رہے، اپنے اصحاب و خاص متعمدین کو سماج میں پھیلتی جا رہی برائیوں اور جڑ پکڑتے فتنوں سے با خبر کرتے رہے، محدثین کی تعلیم و تربیت، دور دراز علاقوں میں بسنے والے شیعوں کی خطوط کے ذریعہ راہنمائی، آیات قرآنیہ کی تفسیر، اعتقادی، معاشرتی و سیاسی مسائل پر قران و سنت کی روشنی میں سیر حاصل گفتگو وہ اہمترین اقدامات تھے جو امام نے دین و قانون مذہب کے تحفظ کی خاطر انجام دیئے.
عصر امام حسنؑ عسکری میں صوفیت کا رواج ہواجو خرقہ درویشان زیب تن کئے اسلامی نظام کی اپنی رائے کے مطابق تشریح و توضیح کرتے تھے، احمد بن ہلال نے لباس صوفیت میں گمراہ کرنے کا ٹھیکہ لے رکھا تھا دین کی غلط توضیح و تبیین کے ذریعہ راہ حق سے منحرف کرنے میں ایک لمحہ کوتاہی نہ کرتا تھا، امام نے ان جیسے تمام افراد کو راہزن سرگرداں کے نام سے یاد کیا جو دین کو چرا کر الحاد کی آبیاری کر رہے تھے.
گروہ واقفیہ جو عقیدہ رکھتا ہے کہ امام موسی کاظم کے بعد کسی امام کو امام نہیں مانتے تھے امام حسنؑ عسکری نے اس فتنہ سے شیعوں کو بچانے کیلئے فرمایا: "ان سے دوستی نہ کرو ان کی عیادت کیلئے نہ جاؤ." چونکہ یہ گروہ بھی دائرہ دین سے خارج تھا لہذا امام نے سختی سے اس فتنہ کا مقابلہ فرمایا.
قحط کے دور میں جب مسلمان نماز استسقاء (بارش کیلئے نماز) پڑھ رہے تھے اور دور دور تک بارش کا پتہ نہیں چلتا تھا توـاس وقت ایک عیسائی عالم نے موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے یہ مشورہ دیا کہ میں بارش کرا دوں گا اس نے صحراء میں جا کر دعا کی بارش ہو گئی فرزندان توحید کے ذہن و دماغ میں شکوک و شبہات جنم لینے لگے امام کو اطلاع ملی آپ نے اس کے مکر و فریب سے پردہ اٹھایا اور فرمایا: "اس کے پاس ایک صالح مرد کی ہڈی ہے اگر اس ہڈی کو اس کے یاتھ سے ہٹا دو کوئی دعا قبول نہ ہو گی چنانچہ وہی ہوا جو زبان عصمت ہر جارہی یوا تھا.
ایسے دور اور ایسے ماحول میں جہاں ہر روز نئے نئے فتنے سر اٹھا رہے ہوں کبھی علمی تو کبھی سیاسی، کبھی فکری تو کبھی اعتقادی فتنے پیروان مذہب حقہ کے فکر و خیال کو مشوش کرنے کی کوشش کر رہے ہوں ایسے میں امام نے مختلف النوع طریقے سے ان فتنوں کو ختم کرنے اور برباد کرنے کی سعی بلیغ فرمایا.
امام حسنؑ عسکری کے خدمات میں ایک اہم پہلو یہ بھی نظر آتا ہے کہ آپ نے اپنے دور میں ہی غیبت امام زمانہ کیلئے راہ ہموار کرنا شروع کر دیا، ذہنی طور پر لوگوں کو انتظار، غیبت، نواب اربعہ جیسے مسائل سے کنایتاً و اشارتاً آمادہ فرمایاـ دوران غیبت مسلمانوں کی ذمہ داری، علماء سے روابط کی نوعیت و کیفیت کو اپنے اصحاب خاص سے بیان فرمایا. سیکڑوں شاگردوں کی تربیت فرمایا تا کہ وہ شیعوں کو غیبت کیلئے آمادہ کر سکیں، انہیں مختلف علاقوں میں ترویج دین و تبلیغ مذہب کیلئے روانہ فرماتے رہے تا کہ یہ ذہن سازی کا عمل کسی مخصوص علاقہ سے مختص ہو کر نہ رہ جائے بلکہ دنیا کے گوشہ و کنار میں معارف اسلامی کی کرنیں پھیل کر صبح ظہور کے طلوع ہونے کا انتظار کریں.
No comments:
Post a Comment