مصحف جناب فاطمہ ائمہ اطہار علیہم السلام کی نظر میں
وفات رسالتمآب حضرت محمد مصطفی کے بعد اہل مدینہ نے پیغمبر اکرم کی اکلوتی بیٹی جناب فاطمہ زہرا سے منھ پھیر لیا،سقیفہ کی لگائی ہوئی آگ کے شراروں میں جذبات واحساسات جل کر راکھ ہوگئے،آدمیت وانسانیت سقیفائی آگ کی لپٹوں سے اپنا دامن بچاکر مدینہ سے کوچ کر گئی[علاوہ چند افرادکے]اسلامی سماج کے اندر افتراق واختلاف کی خلیج گہری ہوتی چلی گئی،ایک طرف بنی ہاشم تجہیز وتکفین کے مقدمات فراہم کررہے تھے تو دوسری طرف شرارتی طبیعتوں کے مالک مسند خلافت کو للچائی نظروں سے دیکھ کر منصوبہ بند سازشوں کے تانے بانے بننے میں مصروف ہوگئے۔
ایک طرف باپ کی جدائی کا غم تودوسری طرف اہل مدینہ کی بے رخی کا الم جو فراق پدر کے غم کو مزید کربناک بنا رہاتھا ،طرفہ تماشا مدینہ کے کچھ باشندے تعزیت کے بجائے اعتراضات،تسلیت کی جگہ تکلیف،تشفی کے عوض بیعت کا مطالبہ کرنے در بیت الشرف بنت رسول پر آگئے،تاریخی شواہد سے یہ بات طے ہوجاتی ہے کہ آنے والوں نے بیعت لینے کے لئے ہر وہ اقدام کئے جو عام سیاسی لیڈران اپنی کرسی اقتدار کے تحفظ وبقا کی خاطر کرتے رہتے ہیں،عصبیت،غصب ونہب،اقرباپروری،تعلقات کاغلط استعمال یہ وہ امور تھے جنکا چلن روز بروز عام سے عام تر ہوتاجارہاتھا،ایسے پرہول حالات اور ہمت شکن ماحول نے بنت رسول کے مصائب وآلام کو دوچند کردیا جس کے سبب حزن وملال،غم والم نے زندگی کے ہر قدم پر بسیرا کرلیا،خلاق نور زہرا جناب فاطمہ زہرا کے غم کو غلط کرنے کے لئے ایک فرشتہ کو بھیجتا جو آپ کی خدمت بابرکت میں حاضر ہوکر تسلی وتشفی دیتااور مستقبل میں رونما ہونے والے واقعات وحادثات کو بیان کرتا جسکو شہزادی دوعالم بغور سنتیں اور پھر شوہر نامدار حضرت علی ابن ابی طالب سے بیان فرماتیں،آنحضرت ان تمام باتوں کو تحریری جامہ عطا کرتے تھے یہ مجموعہ بعد میں مصحف فاطمہ کے نام سے مشہور ہوا۔
حقیقت مصحف فاطمہ بزبان ائمہ علیہم السلام:
مصحف فاطمہ کیا ہے؟کس نے ترتیب دیا؟کون کون سے مطالب درج ہیں؟بقول وہابیت مصحف فاطمہ شیعوں کا دوسرا قرآن ہے؟یہ صحیفہ ومصحف اب بھی ہے یا مرور ایام کی نظر ہوگیا؟یہ وہ سوالات ہیں جو بار بار صفحہ ذہن پر ابھرتے رہتے ہیں اور معاندین اہل بیت کی طرف سے اٹھائے جاتے رہے ہیں جبکہ شواہد وقرائن میں غور وفکر کرنے والا ان سوالات کے تشفی بخش جوابات بھی پالیتاہےشرط ہے چشم بینا وگوش شنوا رکھتا ہو۔
مصحف فاطمہ الہام الہی کا مجموعہ،اسرار علوم ربانی کا خزانہ،معارف نورانی کاذخیرہ ہے جو ذات اقدس حضرت زہرا پر فرشتے کے ذریعہ الہامی شکل میں نازل ہوا اور دست عصمت وامامت حضرت علی ابن ابی طالب سے رشتہ تحریر میں آیا جسمیں رسول خدا کے مقام بہشتی،مستقبل میں پیش آنے والے واقعات وحالات کا تذکرہ ہے،یہ مصحف عام لوگوں کی دسترس سے دور ائمہ طاہرین کے پاس یکے بعد دیگرے منتقل ہوتا رہا اور آج بھی فرزند زہرا حضرت حجت کے پاس موجود ہے جسکی تائید متعدد روایات سے ہوتی ہے:
سمعت اباعبد اللہ یقول تظھر الزنادقۃ فی سنۃ ثمان وعشرین ومائۃ وذلک انی نظرت فی مصحف فاطمۃ قال قلت وما مصحف فاطمۃقال ان اللہ تعالی لما قبض نبیہ دخل علی فاطمۃ من وفاتہ من الحزن مالایعلمہ الااللہ عزوجل فارسل الیھا ملکا یسلی غمھا ویحدثھا فشکت ذلک الی امیر المومنین فقال اذا احسست بذلک وسمعت الصوت قولی لی فاعلمتہ بذلک فجعل امیر المومنین یکتب کل ماسمع حتی اثبت من ذلک مصحفا قال ثم قال اما انہ لیس فیہ شی من الحلال والحرام ولکن فیہ علم مایکون[الکافی،ج۱،ص۲۴۰]
راوی بیان کرتاہے کہ میں نے امام جعفر صادق سے سنا سنہ ۱۲۸ ھ میں مخالفین وباطل کے داعی سر اٹحائیں گے یہ بات مصحف فاطمہ میں دیکھاہے،راوی نے دریافت کیا مصحف فاطمہ کیا ہے؟ امام نے فرمایا وفات رسول خدا کے بعد غم وآلام نے دختر رسول کو گھیر لیا جس کا اندازہ ذات باری کے علاوہ کسی کے پاس نہیں تھا اس لئے اللہ نے ایک ملک بی بی زہرا کی خدمت میں بھیجا تاکہ وہ آپ سے گفتگو کرے اور غم والم کا ہلکا کرے اس بات سے جناب زہرا نے حضرت علی کو باخبر کیا حضرت علی نے فرمایا جب آئے اور اس کی آواز سنو تو مجھے بتانا شہزادی فرشتے کی آمد سے حضرت علی کو باخبر کرتیں اور آنحضرت کو کچھ سنتے اسکو قلم بند کرلیتے آخر کار ایک کتابی شکل اختیار کرگیا۔پھر امام صادق نے فرمایااسمیں حلال وحرام میں سے کچھ بھی نہیں ہے بلکہ مستقبل کے حادثات وواقعات کی خبریں ہیں۔
ایک دوسری حدیث میں صادق آل محمد نے ان واقعات کے حوالہ سے اس بات کی وضاحت بھی فرمایا ہےکہ آپ ذریت طیبہ کے ساتھ پیش آنے والے واقعات بھی اس میں بیان ہوئے ہیں ارشاد ہوتاہے:
عن ابی عبیدہ قال سال اباعبد اللہ بعض اصحابنا عن الجفر………….قال فسکت طویلا ثم قال انکم تبحثون عما تریدون وعما لاتریدون ان فاطمۃ مکثت بعد رسول اللہ خمسۃ وسبعین یوما وکان دخلھا حزن شدید علی ابیھاوکان جبرئیل یاتیھا فیحسن عزائھا علی ابیھا ویطیب نفسھا ویخبرھا عن ابیھا مکانہ ویخبرھا بمایکون بعدھا فی ذریتھا وکان علی یکتب ذلک فھذا مصحف فاطمۃ[الکافی،ج۱،ص۲۴۱]
بعض شیعوں نے امام جعفرصادق سے کچھ سوالات کئے انمیں سے ایک یہ تھا :مصحف فاطمہ کیاہے؟آنحضرت نے کچھ دیر سکوت کے بعدفرمایا تم ان چیزوں کے بارے میں گفتگو کررہے ہو جو چاہتے بھی ہو اور نہیں بھی چاہتے ہو{یعنی کچھ سوالات سمجھنے کے لئے نہیں ہیں یا تمہارے کام آنے والے نہیں ہیں}جناب فاطمہ نبی اکرم کی وفات کے بعد پچہتر دن نہایت غم واندوہ کے عالم میں زندہ رہیں جبرئیل آتے اور انھیں تسلیت وتعزیت پیش کرتے ،خوشحال کرنے کی کوشش کرتے ،آپ کے والد بزرگوار کے مقام وحالات کو بیان کرتے آپ کے بعد آپ کی ذریت پر جو کچھ گزرنے والاتھا اسکو بیان کرتے اسکوحضرت علی تحریرکرتے جو مصحف فاطمہ کے نام سے جاناجاتاہے۔
متذکرہ بالا دونوں روایات سے یہ بات بالکل واضح ہوجاتی ہے کہ مصحف فاطمہ کا الہام حضرت رسول خدا کی وفات کے بعد شہادت جناب فاطمہ سے قبل کے درمیانی وقفہ میں جبرئیل امین کے ذریعہ ہوا جس کو حضرت علی کے عصمتی ہاتھوں نے صفحہ قرطاس کی زینت بنایا ،اس میں اجمالی طور پر ان حالات کا خاکہ بیان کیا گیا ہے جو ذریت فاطمہ زہرا کے ساتھ پیش آنے والے تھے ،نہ اس میں حلال شرعی کا بیان ہے اور نہ ہی حرام کو درج کیا گیا ہے۔
صادق آل محمد نے مروی ایک روایت میں صاف لفظوں میں یہ بیان ہواہے کہ قرآن مجید اور مصحف فاطمہ دو الگ الگ تحریری مجموعہ ہے اور شیعہ عقیدہ کے مطابق مصحف فاطمہ دوسرا قرآن نہیں ہے جس کا تذکرہ سواد اعظم کے بے سواد علماء بار بار کرتے رہے ہیں کہ شیعوں کے پاس ایک اور قرآن ہے جو قرآن کریم کے علاوہ ہے ۔اگر ان مفاد پرست علماء نے ان حقائق پر غور کیا ہوتا تو انھیں یقین کامل ہوجاتا کہ مذہب شیعہ ایسے بے ہودہ عقائد سے پاک ومبرا ہے۔ارشاد ہوتا ہے:
ان عندنا لمصحف فاطمۃ ومایدریھم مامصحف فاطمۃقا ل فیہ مثل قرآنکم ھذا ثلاث مرات واللہ مافیہ من قرآنکم حرف واحد انما ھوشی املاہ اللہ علیھا واوحی الیھا [بحار الانوار ،ج۲۶،ص۳۹]
ہمارے پاس مصحف فاطمہ ہےاور تم لوگ کیا جانتے ہو کہ مصحف فاطمہ کیا ہے؟یہ مروجہ قرآن کے تین برابر ہے بخدا اسمیں قرآن کا ایک حرف بھی نہیں ہےیہ اللہ نے املاء کیا ہے اور وحی کیا ہے جناب فاطمہ زہرا پر۔
مضامین مصحف بزبان عصمت:
کتب روائی شیعہ کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ ائمہ معصومین کے پاس تین عظیم ترین اور گرانقدر کتب تھیں جو بعنوان میراث یکے بعد دیگرے اماموں کے پاس منتقل ہوتی رہیں ایک کا نام الجامعہ تھا جسمیں احکام حلال وحرام درج تھے دوسری الجفر تھی جس میں ان ادوار کے واقعات وحوادث بیان ہوئےتھے تیسری کتاب مصحف فاطمہ جسمیں مستقبل کے حالات کی خبریں تھیں۔
مصحف فاطمہ سے متعلق جو فرامین ائمہ معصومین اور ارشادات ہادیان دین ہم تک پہونچے ہیں انکا بنظر غائر مطالعہ مصحف میں درج شدہ مطالب کی نشاندہی کرتے ہیں ،حاصل مطالعہ نکات اجمالا درج کئے جارہے ہیں:
۱۔مستقبل میں رونماہونے والے حوادث اور حکمراں کے نام:امام صادق کی حدیث میں ذکر ہواہے:واما مصحف فاطمۃ ففیہ مایکون حادث واسماء من یملک الی ان تقوم الساعۃ[بحارالانوار ج۲۹،ص۱۸۔الاحتجاج،ج۲،ص۳۷۲]
صبح قیامت تک رونما ہونے والے حادثات اور منصب سلطانی پر فائز ہونے والے حکمراں کے نام اس مصحف میں درج ہیں
۲۔انبیاء واوصیاء کے اسماء: مامن نبی ولا وصی ولاملک الا وھو فی کتاب عندی یعنی مصحف فاطمۃ[بحار الانوار،ج۷۴،ص۴۷]
ہر نبی ،وصی اور حاکم کا نام اس کتاب میں جو ہمارے پاس ہے یعنی مصحف فاطمہ میں مرقوم ہیں
۳۔مدت حکومت:قال لی ابو عبد اللہ یا ولید انی نظرت فی مصحف فاطمۃ قبیل فلم اجد لبنی فلان فیھا الا الغبار النعل[بحار الانوار،ج۴۸،ص ۱۵۶]
امام صادق نے ولید سے فرمایا اے ولید کچھ دیر قبل میں مصحف فاطمہ دیکھ رہا تھا لیکن بنی فلاں کی حکومت کو اس غبار سے زیادہ نہ پایاجو گھوڑے کی نعل سے اڑتا ہے
۴۔وصیت جناب زہرا:قال ابو عبداللہ…….مصحف فاطمۃ فان فیہ وصیۃ فاطمۃ ومعہ سلاح رسول اللہ[حوالہ سابق]
مصحف فاطمہ میں جناب زہرا کی وصیت اور اس کے ہمراہ رسول خدا کا اسلحہ ہے
۵۔تفسیر وتاویل قرآن: ائمہ معصومین نے مصحف فاطمہ کی روشنی میں قرآنی آیات کی تاویل وتفسیر بیان فرمایا ہے چنانچہ سورہ معارج کی آیہ کریمہ سال سائل بعذاب واقع کی تفسیر کے ضمن میں فرمایا کہ ولایت علی ابن ابی طالب کا منکر عذاب کا مستحق قرار پایا ہے اور اسکو مصحف فاطمہ سے ثابت کیا ہے راوی روایت ابو بصیر جیسا جلیل القدر صحابی ہے[تفسیر کنزالدقائق ،ج۱۳،ص۴۳۰]
۶۔قرآن کے احکام نہیں ہیں:امام موسی کاظم کے بیان سے واضح ہوجاتا ہے کہ مصحف آپ کے پاس تھا اور اس میں قرآنی احکام میں سے کچھ بھی درج نہیں ہے آپ نےفرمایا: میرے پاس مصحف فاطمہ ہے لیکن اس میں قرآنی احکام میں سے کچھ بھی نہیں ہے[بصائر الدرجات،ص۱۵۴]
۷۔ مروجہ علوم ودانش سے کچھ بھی نہیں ہےبلکہ مستقبل کے واقعات وحادثات کا مجموعہ ہے جس کا علم صرف ائمہ معصومین کے پاس ہے ،مصحف منبع علم وآگہی،سرچشمہ دانش وبینش ہے جس سے ائمہ نے ہمیشہ استفادہ کیا یہ مصحف میراث کے عنوان سے ایک کے بعد دوسرے امام کے پاس محفوظ رہا ،امام محمد باقر نے ارشادفرمایا:یااباعبیدۃ من کان عندہ سیف رسول اللہ ودرعہ ورایتہ المغلبۃ ومصحف فاطمۃ قرت عینہ[بصائر الدرجات،ص۱۸۶]
اے ابو عبیدہ اس امام کی آنکھیں روشن ہوں جس کے پاس پیغمبر اکرم کی شمشیر،زرہ،پیروزمند پرچم اور مصحف فاطمہ ہو
ابو بصیر نے روایت کیا ہے:سمعت ابو عبداللہ یقول مامات ابو جعفر حتی قبض ابو عبداللہ مصحف فاطمۃ[بصائر الدرجات،ص ۱۵۸]
میں نے امام جعفرصادق سے سنا ہے کہ امام محمد باقر کی رحلت نہیں ہوئی مگر یہ کہ مصحف فاطمہ کو امام صادق نے اپنے قبضہ میں لے لیا۔
جابر ابن عبد اللہ انصاری وہ عظیم المرتبت وجلیل القدر صحابی تھے جنھیں پانچ اماموں سے ملاقات کا شرف حاصل رہا ،فریقین کے علماء آپ کی جلالت وعظمت کے معترف ہیں آپ سے امام محمد باقر نے مصحف فاطمہ کے حوالہ سے ایک گفتگو کیا تھا جسمیں جابر نے نہایت ہی واضح لفظوں میں مصحف کے کوائف وحالات بیان کئے ہیں،امام باقر نے جابرسے دریافت کیا کہ وہ لوح جو ہماری مادر گرامی کے دست مبارک میں دیکھا تھا کیسی تھی ؟اس کے بارے میں کیا سنا ہے؟جابر نے قسم کھاکر بیان کیا :ولادت امام حسین کی تبریک وتہنیت کےلئے حاضر ہوا تو سبز رنگ کی لوح دیکھا جو زمرد کی مانند چمک رہی تھی،تحریر سفید رنگ تھی جو نور آفتاب کی طرح نگاہوں کو جذب کررہی تھی میں نے عرض کیا میرے مان باپ آپ پر فدا ہوں اے بنت رسول یہ لوح کیا ہے اس پر کیا لکھا ہواہے ؟شہزادی نے فرمایا یہ لوح اللہ کی جانب سے پیغمبر کےذریعہ مجھے ہدیہ دی گئی ہے اس میں رسول خدا،میرے شوہر امیر المومنین اور میرے دونوں بیٹوں کے اسماء درج ہیں میں نے اس کی نسخہ برداری کیاتھا نام پیغمبر اور حضرت علی سے لیکر حضرت حجت تک کے اسماء کو والد اور والدہ کے نام کے ساتھ لکھاتھا نقل کیا۔امام باقر نے فرمایا اے جابر مجھے پڑھکر سناو جابر نے وہ نسخہ امام کے سامنے رکھدیاامام نے بغیر اس لوح کو دیکھے تمام باتوں کو سنایا جابر کہتے ہیں کہ میں نے دونوں مطالب کا موازنہ کیا تو حرف بحرف دونوں ایک تھے کسی طرح کا کوئی اختلاف نہیں تھا[فرائد السمطین،ج۲،ص۱۳۶]
متذکرہ بالا مطالب سے علماء سواد اعظم کیطرف سے مصحف فاطمہ کے حوالہ سے جو شکوک وشبہات پیدا کرنے کی ناکام کوششیں ہوتی رہی ہیں وہ سب بے بنیاد اور تحقیق کے راہنما اصولوں سے بے توجہی کا نتیجہ ہیں ۔تعجب ہوتاہےصاحب مواقف ایجی اور جرجانی جیسے اکابرین نے بھی چشم پوشی کیا اور حقائق سے کوسوں دور چلےگئے،مصحف فاطمہ کو شیعوں کا قرآن بتا نے سے بھی گریز نہیں کیا،عداوت کے صحرا میں سرگرداں پھرتے رہے،عصبیت کی عینک نے حقیقی نگاہوں کو اتنا کمزوروناتواں بنادیا کہ لطیف اشیاء نظر نہ آئیں،فرامین وارشادات معصومین، کتب احادیث میں بکھرےہوئے عصمتی گوہرہای آبدار بھی نگاہوں سے پوشیدہ رہ گئے ،میدان تحقیق اور اقلیم تصانیف کے خود ساختہ شہسوار چمنستان حق وحقیقت کے گل بوٹوں سے محروم اپنی حرماں نصیبی پر پردہ ہی ڈال سکتے تھے اور کچھ نہیں کرسکتے تھے جس کا نتیجہ اتہامات وافتراء کی شکل میں صفحات قرطاس پر آج بھی موجود ہے۔
از منھال رضا خیرآبادی
#مصحف#فاطمہ#زہرا#رسول#شیعہ#جمادی الآخر#ایام#عزاء#فاطمیہ#اسلام
#shia#mushaf#islam#rasool#fatima#zahra#ayyam#azae#fatmiya#
No comments:
Post a Comment