صادق آل محمد کا فرہنگی انقلاب
پیغمبر اکرم حضرت محمد مصطفےٰ نے اپنی ترسٹھ سالہ حیات طیبہ میں علم وفرہنگ کی تخم ریزی عرب کے ریگزار میں حوصلہ شکن ومشکل ترین حالات کے باوجود کیا تھا تاکہ بشریت کو جادہ علم وعرفان،فرہنگ وتمدن سے آشنا کیا جاسکے ، اس پودے کو خون جگر سے سیراب کرکے حیوان صفت افراد کو انسان اور درندہ خو روسا ئ قبائل کے دلوں میں راٗفت وعطوفت کو جاگزین فرمایا تھا ،وصال پیغمبر اکرم کے فورا بعد جہالت وجاہلیت کے خوگروں کے ہاتھوں قتنہ وفساد کے باد سموم میں پودہ مرجھانے لگا تھا گرچہ عالم اسرار ربانی،عالم علم لدنی ،مظہر صفات وکمالات الہی،نفس رسالت خداوندی حضرت علی نے اپنی عصمتی تدابیر سے سوکھنے اور مرجھانے نہیں دیا وقتا فوقتا اسکی آبیاری کرتے رہے۔
تاریکیوں کے دلدادہ چند گنے چنے افراد نے علم وفرہنگ کے اختر تاباں پر خلافت وملوکیت کی گرد ڈالکر اسکی روشنی کو مدھم کرنے کی انتھک کوششیں کیا مگر خاطر خواہ نتائج حاصل نہیں ہوئے،علم ودانش ،فرہنگ وثقافت کی عطر آگین فضا کو متعفن کرنے کی کوششیں ہوتی رہیں مگر’ینحدر عنی السیل ولایرقی الی الطیر ‘(مجھ سے علم وعرفان کے چشمے پھوٹتے ہیں طائران فکر وخیال کی میرے ایوان عظمے کی اونچائی تک رسائی نہیں ہے)کا حامل اپنے علم وعرفان کی خوشبو سے فضائے عالم کے تعفن کو ختم کرتا رہا۔
فتنہ وفساد کے رسیا تانے بانے بنتے رہے مگر فرہنگ وثقافت اور علم ودانش کی اس آفاقی تحریک جسکی تشکیل وتاسیس دست رسالت کے ذریعہ عمل میں آئی تھی اس کے اثرات وبرکات کو محو نہ کرسکے ،ہاں وقتی طور پر اس کی گرفت کمزور ہوئی جس کے نتیجہ میں خوف وہراس،حقائق ومعارف سے دوری،انسانی کمالات وفضائل سے عاری ایک گروہ تیار ہوگیا جس کے آثار شوم آج بھی عالم اسلام میں گاہے بگاہے نظر آتے رہتے ہیں ۔اس دور میں بنی ہاشم اور چند مخلص ومتدین افراد کے علاوہ ہر ایک اس فتنہ سے متاثر ہوگیا کچھ اس فتنہ کاحصہ بن گئے کچھ کو خرید لیا گیا کچھ سادہ لوح افراد کو دھوکے کے ذریعہ اس فتنہ کی آگ کو شعلہ ور کرنے کیلئے اس کا حصہ بنا دیا گیا اور اس طرح بشریت کو دھیرے دھیرے زوال وانحطاط کے کھنڈر میں ڈھکیل دیا گیا۔
امیر کائنات حضرت علی ابن ابی طالب نے اس فتنہ کے وسیع ہونے کے اسباب وعلل کو بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: لَمْ يَسْتَضِيئُوا بِأَضْوَاءِ الْحِكْمَةِ - ولَمْ يَقْدَحُوا بِزِنَادِ الْعُلُومِ الثَّاقِبَةِ - فَهُمْ فِي ذَلِكَ كَالأَنْعَامِ السَّائِمَةِ - والصُّخُورِ الْقَاسِيَةِ قَدِ انْجَابَتِ السَّرَائِرُ لأَهْلِ الْبَصَائِرِ - ووَضَحَتْ مَحَجَّةُ الْحَقِّ لِخَابِطِهَا - وأَسْفَرَتِ السَّاعَةُ عَنْ وَجْهِهَا - وظَهَرَتِ الْعَلَامَةُ لِمُتَوَسِّمِهَا - مَا لِي أَرَاكُمْ أَشْبَاحاً بِلَا أَرْوَاحٍ - وأَرْوَاحاً بِلَا أَشْبَاحٍ - ونُسَّاكاً بِلَا صَلَاحٍ - وتُجَّاراً بِلَا أَرْبَاحٍ - وأَيْقَاظاً نُوَّماً - وشُهُوداً غُيَّباً - ونَاظِرَةً عَمْيَاءَ - وسَامِعَةً صَمَّاءَ - ونَاطِقَةً بَكْمَاءَ(نہج البلاغہ خطبہ نمبر ۱۰۸)
ان ظالموں نے حکمت کی روشنی سے نور حاصل نہیں کیا اور علوم کے چقماق کو رگڑ کرچنگاری نہیں پیدا کی۔اس مسئلہ میں ان کی مثال چرنے والے جانوروں اور سخت ترین پتھروں کی ہے۔بے شک اہل بصیرت کے لئے اسرار نمایاں ہیں اورحیران و سرگرداں لوگوں کے لئے حق کا راستہ روشن ہے۔آنے والی ساعت نے اپنے چہرہ سے نقاب کوالٹ دیا ہے اور تلاش کرنے والوں کے لئے علامتیں ظاہر ہوگئی ہیں آخر کیا ہوگیا ہے کہ میں تمہیں بالکل بے جان پیکر اور بلا پیکر روح کی شکل میں دیکھ رہا ہوں۔تم وہ عبادت گذار ہوجو اندر سے صالح نہ ہو اور وہ تاجر ہو جس کو کوئی فائدہ نہ ہو۔وہ بیدار ہو جو خواب غفلت میں ہو اوروہ حاض ہوجو بالکل غیر حاضر ہو۔اندھی آنکھ ' بہرے کان اور گونگی زبان'
سیاسی بازیگر اور صاحبان مسند نے فتنہ گروں کی ہمہ جہت حمایت وتائید کے ذریعہ اپنے لئے رائے عامہ ہموار کرنے کی ہر ممکن کوشش کیا،اجماع،شوری،استخلاف جیسے کھوکھلے قوانین کے سہارے علم وعرفان کے سیل رواں پر سد سکندری باندھنے کیلئے زبان وقلم ،فکر وخیال کی خرید وفروخت سے لیکر قید وبند،قتل وغارتگریجیسے گھنائونے اور انسانیت سوز جرائم کے ارتکاب سے بھی گریز نہیں کیا،دار ورسن ،تبعید ودربدر ،آزار واذیتمظلم وستم روا رکھا گیا۔علم وفرہنگ کا جہاں کہیںں ایک بھی چراغ سحری نظر آجاتا اسکو بجھانے کے ہزار جتن کئے جاتے تاکہ حقائق پر تاریکی کی چادر اتنی دبیز ہوجائے کہ جنھوں نے ابھی صحن اسلام میں آنکھیں کھولی ہیں انھیں حقیقت نظر نہ آئے اور کچھ باطل دھندھلکے سایہ ہی حقائق کا روپ دھار لیں بظاہر اس شاطرانہ چال میں انھیں کامیابی بھی ملی مگر یہ حقیقت بھی ہر چشم بینا کےلئے روشن ہے کہ معدودے چند ہی چراغ علم وعرفان سہی تھے ضرور۔جنکی روشنی ارباب بصیرت ،طالبان حق وحقیقت کی زندگیوں کو منور کرتی رہی۔
تاریخ کا ہر انصاف پسند طالبعلم اس حقیقت سے باخبر ہے کہ اندھیروں کے ان سوداگروں ،تاریکیوں کو پھیلانے والے اس گروہ میں بھی مرور ایام کے ساتھ دراڑیں پڑتی نظر آنے لگیں ،مدت مدید تک اندھیروں کا راج ضرور رہا مگر گھٹاٹوپ اندھیروں میں نور علم وفرہنگ کی کرن کہیں کہیں ضرور پردہ بصارت سے ٹکرا کر اپنے وجود کا پتہ دیتی رہی اور حق جووحقیقت طلب ذہنوں،فکروں اور شعور کو منور کرتی رہی۔
علم وجہل،نور وظلمت ،اندھیرے اجالے کی باہمی کشمکش کا جو سلسلہ وفات مرسل اعظمﷺ کے بعد شروع ہواتھا وہ روز بروز بڑھتا رہا مگر ہر عروج کو زوال اور ہر ترقی کا انحطاط بھی مسلمہ حقیقت ہے جو اس سلسلہ میں بھی نظر آتا ہے بنی امیہ کی سانسیں اکھڑ رہی تھیں اور بنی عباس تواناوتندرست ہورہے تھے دونوں گروہ میں سیاسی چپقلش ،جنگ وجدال کا رخ اپنا رہی تھی ایسے حالات میں امام محمد باقر وامام جعفر صادق علیہم السلام نے موقعہ وفرصت کو ہاتھ سے جانے نہ دیابلکہ علم وفرہنگ پر پڑی برسوں کی دبیز گرد کو اپنے تیشہ حکمت سے کھرچ کر صاف وشفاف بنانے کا مستحکم منصوبے کو عملی جامہ پہنایا اندھیروں کا راج ختم ہوتا گیا اجالے کی حکمرانی قائم ہوگئی جہالت کافور اور علم کا بول بالا ہوگیا۔
امام جعفر صادق نے حالات کی سیاسی ابتری سے خوب استفادہ کیا اور اساسی وبنیادی اقدامات انجام دیئے ،دین فروش علما اور نامرفاد وناکام حکام وسلاطین کے ذریعہ فرہنگ ناب اسلامی کی تحریف کا عمل جو برسوں سے چلا آرہا تھا اسکی اصلاح ،حقیقی فرہنگ کی تبیین وتشریح،تبلیغ وترویج کا عمل انجام دیا اور ایک ناقابل یقین فرہنگی انقلاب برپا کیا جسکا اعتراف ہر علم دوست،منصف مزاج کرتا ہو انظرآتاہے۔
مورخین وسیرت نگاروں کے بیانات سے پتہ چلتا ہے کہ امام کے ذریعہ لائے گئے گرہنگی انقلاب کی تقویت وہمہ گیری کا ایک سبب اور راز یہ تھا کہ دوسری اور تیسری صدی ہجری میں اسلامی فرہنگ کا غیر اسلامی فرہنگ سے صمیمانہ رابطہ قائم ہوا جس کے بعد بیت الحکمت(یہ ایک علمی مرکز تھا جو مامون عباسی کے ذریعہ بغداد میں قائم ہوا،ایک عظیم کتابخانہ کی تاسیس عمل میں آئی جسمیں مترجمین کے ایک گروہ کی مدد سے کتابوں کا ترجمے کا کام انجام پاتا۔تفصیلات کیلئے لغتنامہ دھخدا کا مطالعہ کریں)کی تاسیس عمل میں آئی عربی زبان میں کتابوں کے ترجمے ہوئے،جدید نسل جو ابھی ابھی دائرہ اسلام میں آئی تھی وہ مختلف اقوام وملل سے رابطہ مین تھی جس کے نتیجہ میں انکے فکری وعلمی مواد عالم اسلام میں وارد ہورہے تھے گرچہ اس فکری وفرہنگی تبدیلی کے مثبت اثرات بھی تھے لیکن منفی اثرات زیادہ تھے مسلمانوں میں اغیار کے افکار کا نفوذ جس کے سبب مختلف مکاتب فکر نے جنم لینا شروع کردیا جو عالم اسلام کیلئے بہت عظیم خطرہ بنتا جارہاتھا۔ایک طویل عرصہ تک مسلمانوں کی نئی نسل فضائے عالم پر چھائی ہوئی خوف وہراس کی دبیز چادر کے باعث،اسلامی معاشرہ میں غیر معقول سیاسی حکمرانی اور حقائق کی تبیین وتشریح کی مسدود راہوں نے حقیقی اسلام کے مبادیات کو بھی ذہنوں سے دور کردیا تھا حالات اتنے ابتر تھے کہ پہلے خلیفہ عباسی کے تخت حکومت پر بیٹھنے کے بعد شام کا ایک گروہ مبارکباد کیلئے دربار میں حاضر ہوا تو قسم کھاکر کہتا ہے ہمیں نہیں پتہ تھا کہ بنی امیہ کے علاوہ بھی نبی اکرمﷺکا کوئی قرابتدار ورشتہ دار ہے لیکن جب آپ نے قیام کیا تو ہمیں معلوم ہوا(مروج الذھب ج۳،ص۳۳)
اسلامی معاشرہ پر چوطرفہ فرہنگی حملہ ہورہا تھا ،علمی مباحثات،مناظرہ کلامی کا بازار گرم تھا،ہر صبح ایک نئے مکتبہ فکر کے ساتھ طلوع ہورہی تھی،ہر مکتبہ فکر اپنے عقائد وافکار کی ترویج کیلئے علمی مسندیں سجائے ہوئے تھا،مجادلہ کا اسلوب عام ہوگیا تھا امام نے محسوس کیا علم کی مستحکلم وجامع تحریک چلانا لازم وضروری ہے کیونکہ عصر امام صادق میں سر اٹھانے والافتنہ ماضی کے فتنہ سے زیادہ خطر ناک تھا یہ زمانہ افکار وعقائد کی جنگ کا زمانہ تھا ،فرق ومذاہب کے ٹکراو کا دور تھا ،قرآنی مباحثات پر دور گروہ باہم دست وگریباں تھے،تفسیر وتاویل پر مختلف نظریات متصادم ،نام نہاد علما کرسی فقاہت پر براجمان تھے جو خود ساختہ وجعلی روایات کے سہارے فقہی مسائل بیان کررہے تھے ،قیاس واستحسان کو دلیل شرعی سمجھاجانے لگاتھا ،شہروں اور کوچوں میں ایسے فقہا کی بھیڑ نظر آتی
تھی،حنفی،مالکی،شافعی،حنبلی فقہ کے علاوہ حسن بصری،سفیان ثوری جیسے افراد رہبران مذہب کے نام سے پہچانے جاتے تھے جن کے چشم وابرو کے اشارے پر مرید گردش پرکار بنے ہوئے تھے،علم کلام کے مسائل پر ہیجان انگیز بحث ومباحثے عام تھے جسکا اثر معتزلہ،اشاعرہ،مرجئہ ودیگر ٹکڑوں کی صورت میں اسلامی سماج میں پنپ رہاتھا،زندیق کے مردہ پیکر میں تازہ روح پھونکنے کی سعی ناکام ہورہی تھی(سیری در سیرہ ائمہ اطہار مولفہ شہید مطہری،ص۱۴۶)ان ناگفتہ بہ حالات میں امام جعفر صادق نے جو اقدامات کئے انکا جائزہ ہمیں اس نتیجہ پر پہونچاتاہے کہ اگر امام کی عصمتی نگاہیں نہ ہوتیں تو شیرازہ اسلام ایسا بکھر جاتا کہ پھر اکٹھا کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف نہیں بلکہ اس سے بھی زیادہ مشکل ودشوارہوتا۔
امام جعفر صادق اور فرہنگی اقدامات:
صادق آل محمد نے دین اسلام کے دفاع اور اسکی تبلیغ وترویج کی خاطر مختلف النوع ذرائع کو اختیار فرمایا،مناظرہ،علمی مباحثات،مستحکم ومتقن دلائل وبراہین کے ذریعہ ریت پر قائم مذاہب ومکاتب کی بنیادوں کو تہس نہس کردیا اسلامی معاشرہ میں علمی وفکری انقلاب ایسا برپاکیا کہ تشنگان علوم ومعارف کا ایک جم غفیر اکٹھا ہوگیا اور چشمہ زلال معارف الہیہ سے گھونٹ گھونٹ پیکر سیراب ہونے لگا۔
امام نے مختلف علوم وفنون کے مردہ اجسام میں تازہ روح پھونک دیا علوم قرآن ،تفسیر وحدیث،فقہ وکلام،طب وفلسفہ،نجوم وریاضیات کے بنیادی اصولوں کو زندگی عطا کیا اور ایسی تبدیلی پیدا کیا کہ جس سماج ومعاشرہ میں علم ودانش کی باتیں عجوبہ سمجھی جاتی تھی اسی سماج وسوسائٹی میں فکری وعلمی سرمایہ داروں کی بھیڑ نظر آنے لگی،علم وعرفان کا بازار سج گیا اور متاع فکر وفرہنگ کے قدر داں کی رفت وآمد شروع ہوگئی برسوں سے ویران پڑی مسجد نبوی تشنگان علوم سے چھلک اٹھی شاگردوں کا ایک عظیم لشکر تیار کیا جو ہر محاذ علمی پر ایک ماہر فن بنکر مقابلہ کیلئے ڈٹ گیا تاریخ آدمیت میں علم وفن کا ایسا سنہرا دور نایاب نہیں تو کمیاب ضرور ہے۔
مکتب صادق کے تربیت یافتہ ہشام بن حکم،مومن طاق،محمد بن مسلم اور زرارہ بن اعین وہ روشن ستارے ہیں جنکی روشنی جہالت کی گہرائی وگیرائی نیز وسعتوں کو ناپنے کیلئے سنگ میل کی حیثیت رکھتے ہیں،علم وفرہنگ کا یہ سیلاب نہ جغرافیائی حد بندیوں میں قید کیا جاسکا نہ سازشی تانے بانے روک سکے دیکھتے دیکھتے پورے عالم انسانیت سے جہالت وجاہلیت کے خس وخاشاک کو وادی نسیاں کی زینت بنا گئے علم وفرہنگ کا چراغ آج بھی روشن وتابندہ ہے۔
خوف طوالت کے پیش نظر ہم اس مضمون میں امام کے چند اہم اقدامات کا فہرستوار تذکرہ ہدیہ ناظرین کرنے کی سعادت حاصل کررہے ہیں:
۱۔امامت کی عظمت رفتہ کی بازیابی:اسلامی سماج میں اموی وعباسی خلفا کی غلط پالیسیوں کے باعث مقام امامت متروک اور عظمت منصب خلافت پائمال ہورہی تھی درباری علما کو عوام میں متعارف کراکے عوام کو ائمہ معصومین سے دور کیا گیا مگر وہ عظمت رفتہ پھر عصر امام صادق میں اہلبیت کی لوٹی امام صادق نے مختلف مواقع پر مسئلہ امامت کی اہمیت وافادیت کو پیش کرکے ذہنوں میں راسخ کیا ،عمرو بن ابی مقدام بیان کرتا ہے نویں ذی الحجہ روز عرفہ میدان عرفات مین خلائق کا اژدحام ان خاص اعمال کو انجام دینے کےلئے دنیا کے گوشہ وکنار سے جمع ہواتھا امام نے موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے پیغام دیا: ایھاالناس ان رسول اللہ کان الامام ثم کان علی بن ابی طالب ثم الحسن ثم الحسین ثم علی بن الحسین ثم محمد بن علی ثم ۔۔۔۔۔۔۔(بحار الانوار ،ج۴۷،ص۵۸)اے لوگو! اللہ کی طرف سے امام نبی تھے پھر علی پھر حسن پھر حسین پھر علی ابن الحسین پھر محمد ابن علی علیہم السلام
امام نے بآواز بلند فرمایا آواز اتنی بلند تھی گویا ہر ایک کو اپنی طرف متوجہ ہونے پر مجبور کردیااور حجاج کے عالمی اجتماع کے ذریعہ اپنا پیغام دنیا کے گوشہ وکنار تک پہونچایا،روایت کی لفظوں سے پتہ چلتاہے کہ امام نے تین مرتبہ اس پیغام کی تکرار کیا اور ہر سمت رخ بدل بدل کر تین بار پیغام سنایا جو خود اپنے آپ میں پیغام کی اہمیت وعظمت کا پتہ دیتاہے
۲۔شاگردوں کی تعلیم وتربیت:سیاسی حالات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اور سماج کی ضرورتوں کے پیش نظر جس علمی وفرہنگی تحریک کی بنیاد امام محمد باقر نے رکھی تھی اس کے استحکام،توسیع،اور جامعیت وہمہ گیریت کے تمام مواقع سے بھر پور فائدہ اٹھایا چنانچہ اہل سنت کے چاروں فقہی مذاہب کے ائمہ بالواسطہ یا بلا واسطہ آپ کی شاگردی میں رہے ،لولا السنتان لھلک النعمان آج تک آپ کی علمی جلالت کا بزبان دشمن زندہ قصیدہ ہے۔اس کے علاوہ شاگردوں کی ایک طویل فہرست ہے جسمیں ہر ایک اپنے فن کا نابغہ نظر آتا ہے۔
۳۔معاشرتی اخلاق کی ترویج ومسالمت آمیز طرز معاشرت:ائمہ معصومین نے ہمیشہ سماجی اصولوں اور اجتماعی اخلاق کے دنیوی واخروی فوائد وبرکات کا تذکرہ اور تاکید فرمائی ہے اپنے چاہنے والوں سے ہمیشہ یہی مطالبہ کرتے کہ حتی المقدور برادرانہ انداز،صلح وصفا کے ساتھ زندگی بسر کریں امام صادق نے فرمایا تھا :اللہ مدارات کرنے والاہے اور مدارات کو دوست رکھتا ہے اور لوگوں کی مدارات کی راہ میں امداد کرتاہے(وسائل الشیعہ،ج۱۵،ص۲۷۱)
امام نے ہمیشہ شیعوں کو اس بات کی تاکید فرمایا کہ سماج میں بسنے والے دیگر مذاہب کے ماننے والوں کے ساتھ مسالمت آمیز رویہ اختیار کرو تاکہ شیعہ سماج اکثریت سے الگ تھلگ نہ ہونے پائے۔
۴۔تجلیل علم وتکریم علما:امام جعفر صادق نے اپنے شاگردوں کو تحصیل علم ومعرفت کا شوق دلایا ان سے فرماتے تھے میں جوانوں کو دو حالت میں سے ایک حالت میں دیکھنا چاہتاہوں یا عالم ہو یا طالبعلم ،ورنہ دونوں مقصر ہوں گے اور ہر تقصیر کرنے والا گمراہ اور ہر گمراہ گنہگار ہے(صفحاتی از زندگانی امام جعفر صادق ،محمد حسین مظفر،ص ۲۲۰)
کائنات امام جعفر صادق کی اس علمی تحریک کی مدیون ہے جس نے معارف الہیہ کے مرجھاتے ہوئے باغ کو سبزہ زار بنادیا،انوار علم وعرفان سے کائنات روشن ہوگئی ،اوہام وباطل عقائد کا گھروندا تہس نہس ہوگیا اس عظیم تحریک کی جامعیت ،افادیت ،فوائد وبرکات نیز اثرات دیکھکر دنیا دم بخود ہے جہالت کے پروردہ کف افسوس مل رہے ہیں وعدہ پروردگار تبسم ریزی کررہاہے دشمن اسلام وقرآن حسرت ویاس سے تک رہے ہیں۔
یہ چند سطریں مشتی نمونہ از خروارہ کے عنوان سے قلم بند کردیا ہے ورنہ اس عنوان کے چند صفحات ناکافی ہیں اور مجھ سے طالبعلم کی سطح علمی سے بہت بالاتر ۔خدایا ہمیں انھیں انوار کے طفیل اپنے معارف کی روشنی عطا کر۔
منہال رضا خیرآبادی
جامعہ حیدریہ مدینۃ العلوم خیرآباد ضلع مئو
#الشیعہ#قرآن#حدیث#امام_صادق#اسلامیات#فرھنگ#انقلاب
#shia
#quran#imam
#sadiq#islamic#culture
#iran#iraq#karbala
#qom#mashad
No comments:
Post a Comment