Saturday, 11 November 2023

عزاداری امام حسین ع اہل سنت کی نظر میں

عزاداری اہلسنت کی نگاہ میں
منہال رضا خیرآبادی 

عزاداری یعنی تسلی و تشفی کا سامان فراہم کرنا، صبر و تحمل کی تلقین کرنا، اسلامی سماج و معاشرہ میں عزاداری ایک وسیع مفہوم کا حامل ہے، ائمہ معصومینؑ، بزرگان دین، شہدائے راہ اسلام پر ڈھائے گئے مظالم کی یاد، ان کے اہداف کی بقاء اور احیاء کیلئے مراسم عزا کا انعقاد کرنا، گریہ و زاری، غم و الم کی کیفیت، مصیبت دیدہ افراد سے ہمدردی کا اظہار عزاداری کے اجزاء ہیں گرچہ مرور ایام کے ساتھ لفظ عزاداری ماہ محرم الحرام میں امام حسینؑ اور ان کے با وفا اصحاب کی عدیم المثال قربانی کی یاد سے مختص ہو گیا ہے جس کے اہداف و مقاصد پر غور و فکر سے اس یاد کی اہمیت، وسعت و جامعیت سے کسی با شعور کے انکار کی گنجائش باقی نہیں رہ جاتی ہے، رہبران دینی کی حقیقی معرفت، جذبہ مودت اہلبیتؑ میں استحکام، حقائق و معارف الہیہ سے باخبر ہونا، نہضت حسینی کی صحیح تفسیر و تشریح، خاندان رسالت سے ہمدردی و ہمدلی کو تقویت پہونچانا اہمترین مقاصد عزاداری میں سے ہیں۔ 
عزاداری نہ کسی قوم و ملت، مذہب و مسلک سے مختص ہے نہ کسی علاقہ سے، ہر دور اور ہر زمانہ میں عزاداری مختلف اقوام و قبائل میں اپنے اپنے طریقہ پر رائج رہی ہے، ابتدائے انسانیت سے عزاداری کا رواج تاریخی شواہد کی بنیاد پر ملتا ہے، قتل جناب ہابیل پر حضرت آدمؑ ابو البشر کی عزاداری کا تذکرہ صفحات قرطاس پر آج بھی ثبت نظر آتا ہے، اس بنیاد پر یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ عزاداری کی تاریخ اتنی ہی پرانی ہے جتنی تاریخ انسانیت ۔ظلم و استبداد سے نفرت رکھنے والے غیر مسلم برادران وطن بھی عزاداری کے پروگرام میں بڑے انہماک سے سرگرم عمل نظر آتے ہیں، وطن عزیز ہندوستان کے مختلف شہروں، دیہاتوں میں تعزیہ داری، ماتم، نوحہ و سینہ زنی کی صفوں میں برادران نہایت تزک و احتشام، عقیدت و محبت سے نہ صرف یہ کہ شامل ہوتے ہیں بلکہ اپنے لئے افتخار سمجھتے میں، سیاہ لباس میں ملبوس، گھروں میں شبیہیں سجائے، گھروں پر علم لگانے کی روایت بہت قدیمی ہے تعزیہ بنانے والے فنکار ہوں یا نوحہ خوان، کاندھوں پر ضریح اٹھانے والے عقیدتمند ہوں یا علم و گہوارے کے سامنے سر عقیدت جھکانے والے افراد ہر ایک صف میں صرف ہمارے مسلمان بھائی نہیں بلکہ غیر مسلم برادران وطن بھی نہایت ہی پر جوش انداز میں نظر آتے ہیں۔
واقعہ کربلا کی عظیم قربانی نے دنیا و انسانیت کے ہر حق پسند سماج اور منصف مزاج معاشرہ، دردمند ثقافت کو متاثر کیا ہے جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ صرف کلمہ گو نہیں بلکہ وہ افرادجو کفر و الحاد کے صحرا میں سرگرداں ہیں ان کی جبین عقیدت بھی در حسینؑ پر جھکی نظر آتی ہے، ہندوستان کی قدم سلطنتوں اور ریاستوں کی تاریخ یہ بتاتی ہے کہ کہ والیان ریاست نے نہ صرف اس تحریک حریت کی یاد منائی بلکہ اس یاد کو آئندہ نسل تک پہونچانے کیلئے اقتصادی، سیاسی و سماجی محکم لائحہ عمل تیار کیا تا کہ صدائے حریت کی بازگشت کمزور نہ ہونے پائے اور بشریت درس حریت سے فیض حاصل کرتی رہے۔ چنانچہ کشمیر سے کنیاکماری تک فلک پر ہلال محرم کے نمودار ہوتے ہی عزاداری، جلوس و مجالس عزا کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے جس میں ہندوستان کی گنگا جمنی تہذیب کے نمونہ دکھائی دیتـے ہیں۔ سچ کہا ہے عـ؎
در حسینؑ پر ملتے ہیں ہر خیال کے لوگ   یہ اتحاد کا مرکز ہے آدمی کیلئے
عزاداری روز عاشورا اس نقطہ پر کار کا نام ہے جس کے گرد واعظ و رند، ادیب و ملا، شاعر و خطیب، پنڈت و پادری، شاہ و گدا، بلا تفریق مذہب و مسلک پروانہ وار ایک رنگ میں رنگے ہوئے نظر آتے ہیں، تقسیم ہندوستان سے پہلے کے شواہد سے پتہ چلتا ہے ہندوستان میں مسلمانوں کے ساتھ ساتھ سکھ بھی عزاداری میں برادران اسلام کے شانہ بشانہ ہوتے تھے، سروجنی نائیڈو، دھرمندر ناتھ، ماتھر لکھنوی وغیرہ جیسے قدرآور علمی و ادبی شخصیات کے نذرانہ ہای عقیدت جیتی جاگتی تصویر ہے۔
ادھر کچھ عرصہ سے ایک یزید نواز گروہ نجدی حمایت سے ظاہر ہوا جو عالم اسلام میں مختلف مسائل اور متعدد مواقف کے حوالہ سے بے بنیاد وار یعنی گفتگو اور فتوؤں سے انتشار پھیلانے کی ناکام کوشش کر رہا ہے، بدعت کے تیر سے قلوب عزادار کو مجروح اور یزید کی ناپاک روح کو شاد کرنے کی پیہم کوشش کر رہا ہے چند شر پسند عناصر کے ایک گروہ کے ذریعہ اسلامی سماج کے امن و سکون کو غارت کر رہا ہے، خوارج کی پالیسی، اموی ناپاک عزائم کی تکمیل، آثار متبرکہ و مقدسہ کی تاراجی اس کا بنیادی مشن ہے اس راہ میں وہ کسی سمجھوتہ کیلئے تیار بھی نظر نہیں آتا ہے، اپنے مشن کو کامیاب بنانے کیلئے ہر قسم کا اقدام کرتا نظر آتا ہے۔ ادھر ہلال محرم فلک کائنات پر ظاہر ہوا دوسری طرف بنی امیہ کے نجس دسترخوان کے زلہ خوار، دین فروش ملا، وادی جہل و جہالت میں حیران و سرگردان پھرنے والے مفتیوں کی زبانیں کھل جاتی ہیں، بدعت، شرک، حرمت کے فتوے گلا پھاڑ پھاڑ کربیان کرنے لگتے ہیں، سال بھر ہاتھ میں لوٹا، بغل میں چٹائی لپیٹ کر، کولہو کے بیل کی مانند گھومنے والے خود ساختہ متدین، مصلح نما مفسدین مفتیوں کے جاہلانہ فتوؤں پر جھومتے نظر آتے ہیں، کون بتائے ان بے چاروں کو تم اپنے عمل سے اپنے اسلاف کے کردار و عمل کو نشانہ بنا رہے ہو، چند روزہ دنیوی، مقام و مرتبہ کی خاطر آخرت کو تباہ کر رہے ہو۔ کیوں اپنے جاہل آقاؤں کی لچھے دار باتوں سے اپنے ایمان کو خراب کر رہے ہو، کیا تمہیں معلوم نہیں ہے کہ دین و شریعت پہونچانے والے نبیؐ آخر الزمان نے عزاداری کیا ہے؟ اگر یہ عمل خلاف دین و شریعت تھا تو نبی مکرمؐ نے کیوں انجام دیا؟ یا تم کچھ زیادہ دین و شریعت کا علم رکھتے ہو اور نبی کو کم تھا؟ ہاں! تم کہہ سکتے ہو کیونکہ تمہاری تقویۃ الایمان نامی کفریہ عقائد پر مبنی کتاب کی رو سے نبی اور عام بشر میں کوئی امتیاز نہیں ہے، غلطی و اشتباہ، خطا و نسیان سب کچھ عارض ہو سکتے ہیں۔
جماعت اسلامی کے موسس سید ابو الاعلی مودودی نے امام حسینؑ کو صبح قیامت تک کیلئے نمونہ بتایا ہے وہ تحریر کرتے ہیں: جو لوگ اپنی آنکھوں سے خدا کے دین کو کفر سے مغلوب دیکھیں جن کے سامنے حدود الہی پائمال ہی نہیں بلکہ کالعدم کر دی جائیں، خدا کا عملا ہی نہیں باضابطہ منسوخ کر دیا جائے، خدا کی زمین پر خدا کا نہیں بلکہ باغیوں کا بول بالا ہو۔ ..... اور یہ سب کچھ دیکھ کر بھی ان کے دلوں میں نہ کوئی بے چینی ہو، نہ اس حالت کو بدلنے کیلئے کوئی جذبہ بھڑکے بلکہ اس کے بر عکس وہ اپنے نفس کو اور عام مسلمانوں کو غیر اسلامی نظام کے غلبہ پر اصولا و عملامطمئن کر دیں اس کا شمار محسنین میں کس طرح ہو سکتا ہے؟ ..... وہ چاشت، اشراق اور تہجد کے نوافل پڑھتے رہے جزئیات فقہ کی پابندی اور چھوٹی چھوٹی سنتوں کے اتباع کا سخت اہتمام کرتے رہے ..... مگر ایک نہ تھی وہ حقیقی دینداری جو "سر داد، نداد دست در دست یزید" کی کیفیت پیدا کرے اور بازی اگر چہ پا نہ سکا سر تو کھو سکا کے مقام وفاداری پر پہونچا دے۔ (اسلامی زندگی اور اس کے بنیادی تصورات، ص ۱۵۶ و ۱۵۷)
غور فرمائیں ناظرین محترم علامہ مودودی نے صاف لفظوں میں یہ بات واضح کر دیا کہ دور امام حسینؑ میں ایسے مسلمان ضرور تھے جو واجبات و نوافل کیلئے حد درجہ اہتمام کرتے تھے مگر الہی فرامین سے بغاوت کرنے والوں، احکام الہی کا مذاق بنانے والوں کے مقابل کھڑے ہونے کی ہمت مفقود تھی اور جو باغیوں اور سرکشوں کے مقابل ڈٹ جائے اس کو مودودی صاحب محسن مانتے ہیں اور محسنین کیلئے ارشاد الہی ہے اللہ "محسنین کو دوست رکھتا ہے" اور جو اللہ کا دوست ہو اس کی یاد منانا خلاف شرع کیسے ہو سکتا ہے!
ہم عصر فاضل نبیل علامہ طاہر القادری کا بیان ملاحظہ فرمائیں: یاد رکھ لیں کہ ان ہستیوں کو ہمیشہ یاد رکھنا ان کی شان، عظمت، عزم و استقامت، صبر و استقلال اور ان کے اس پورے اقدام کی غرض و غایت کو یاد رکھنا یہ ایمان میں استحکام کا باعث ہے، اس سے محبت میں مضبوطی نصیب ہوتی ہے۔ محبت کو جلا ملتی ہے ایمان کو زندگی اور تازگی نصیب ہوتی ہے لہذا طبیعتوں میں یہ رجحان پیدا کریں کہ جب ان کا ذکر سنیں ان سے محبت کریں ان کا پیغام سنیں تو جتنا ہو سکے ان کے پیغام کو زندگی میں نافذ کریں اس طرح محبت سے شروع ہونے والا سفر اتباع پر ختم ہوتا ہے یعنی محبت حسینؑ اور اتباع حسینؑ دونوں یکجا ہوں تو اس کا ذکر مقصود پورا ہوتا ہے۔ (ماہنامہ منہاج القرآن، اکتوبر ؁۲۰۱۵ء)
کہاں ہیں خارجیت و ناصبیت کے دلدادہ، مادیت اور بے دینی کے رسیا کیوں عقائد حقہ کی اصلی تصویر کو دھندلا کر کے امت اسلامیہ کے صاف و شفاف ذہنوں کو مکدر کر کے صفحہ ذہنی پر خارجیت و ناصیبت کے کانٹے اگانے کی ناپاک کو ششیں کی جارہی ہیں؟
ان دو اقتباس کے بعد اب ہم چند اقتباس علمائے اہلسنت کی کتابوں سے درج کرنے پر اکتفا کریں گے تا کہ دنیا کو پتہ چل جائے کہ ہر دور کے حق پسند، منصف مزاج افراد نے امام حسینؑ کی یاد نہ صرف منایا ہے بلکہ منانے کی عملی تاکید بھی فرمایا ہے۔
۱۔ عبد الرحمن جزائری، کتاب الفقہ علی المذاہب الاربعہ میں تحریر کرتے ہیں:
مالکی و حنفی نقطہ نظر سے بآواز بلند گریہ کرنا جبکہ فریاد و ضجہ کے ساتھ ہو حرام ہے لیکن شافعی و حنبلی مسلک میں مباح ہے آنسو بہانا، بغیر آواز کے گریہ کرنا جبکہ اس کے ہمراہ داد و فریاد نہ ہو تمام علمائے اہلسنت نے مباح قرار دیا ہے۔
اسی سے مشابہہ مضامین اہلسنت کی دیگر کتب من جملہ فتاوی الہندیۃ و فتاوی الغیاثیۃ میں بھی درج ہیں۔
۲۔ ابن عماد حنبلی عظیم عالم اہلسنت نے واقعہ کربلا کو نقل کرتے ہوئے تحریر کیا:
قاتل اللہ فاعل ذلک واخزاہ و من امر بہ او رضیہ ..... (شذرات الذہب، ج ۱، ص ۶۶)خدا قتل کرے اس کو جس نے امامؑ کو قتل کیا اور خاندان اہلبیتؑ کو اسیر کیا اور جو اس عمل پر راضی رہا۔
آلوسی متعصب ترین اہلسنت عالم جو دانستہ یا نادانستہ طور پر کبھی کبھی استعمار کی اولاد ناصبیت کی تائید و حمایت سے دریغ نہیں کرتا ہے لیکن جب یزید کے توبہ کرنے کے سلسلہ میں سوال کیا گیا تو جواب میں لکھا:
الظاہر انہ لم یتب واحتمال توبتہ اضعف من ایمانہ ویلحق بہ ابن زیاد و ابن سعد و جماعۃ فلعنۃ اللہ عز وجل علیہم اجمعین وعلی انصارہم واعوانہم وشیعتہم ومن مال الیہم الی یوم الدین ما دمعت عین علی ابی عبد الحسینؑ (روح المعانی، ج ۱۳، ص ۲۲۸)  بظاہر یزید نے توبہ نہیں کیا تھا توبہ کا امکان اس کے ایمان سے بھی زیادہ ضعیف ہے، ابین زیاد و ابن سعد اسی سے ملحق ہوں گے ان سب پر ان کے حامیوں اور چاہنے والوں پر اس وقت تک اللہ کی لعنت ہو جب تک آنکھیں امام حسینؑ پر آنسو بہاتی رہیں گی۔ 
۴۔ حضرت مولانا شاہ عبد العزیر دہلوی کا بیان ملاحظہ ہو:
پورے سال میں صرف دو مجلسیں منعقد ہوتی تھیں ایک وفات شریف کے ذکر کی (رسولخداؐ کی وفات) دوسری شہادت امام حسینؑ کے ذکر کی عاشورا کے دن یا اس سے ایک دو روز قبل چار سے پانچ سو افراد کبھی کبھی ایک ہزار تک تعداد پہونچ جاتی لوگ جمع ہو کر درود پڑھتے اور جب فقیر باہر آتا اور بیٹھتا تو امام حسینؑ کے فضائل و مناقب کے حوالہ سے مذکور احادیث بیان ہوتیں، ان بزرگوں کی شہادت اور ان کے قاتلوں کی بد انجامی سے متعلق اخبار و احادیث میں جو کچھ وارد ہوا ہے بیان ہوتے اور وہ مرثیے بھی پڑھے جاتے جنہیں حضرت ام سلمہ اور دیگر صحابہ کرام نے جنوں اور پریوں سے سنا ہے اس کے بعد ختم قرآن اور پنج سورہ پڑھا جاتا اور ماحضر پر فاتحہ دیا جاتا اس وقت اگر کوئی خوش الحان شخص سلام یا مرثیہ شروع کرتا تو اس کے سننے کا اتفاق ہوتا اور ظاہر ہے اس حالت میں اکثر حاضرین مجلس اور خود فقیر پر گریہ طاری ہو جاتا اگر چہ یہ چیزیں فقیر کے نزدیک اس طرح سے جائز نہ ہوتیں تو کبھی ان پر اقدام نہ ہوتا اور دوسرے جو غیر شرعی امور ہیں ان کے بیان کی حاجت نہیں۔ (اقتباس از فتاوی عزیزیہ، ج ۱، ص ۱۰۴، مطبوعہ مجتبائی پریس)
۵۔ مولانا عبد الواحد فرنگی محلی:
اس زمانہ کے علمائے صالح نے تعزیہ داری کو شعائر اسلام سمجھتے ہوئے اس کی ترویج و بقا کیلئے فتوے دیئے ہیں لہذا اس دور کے صالح علما نے تعزیہ داری کا جو فتوی دیا تھا بالکل درست تھا اور تعزیہ داری کی ترویج ثواب و اجر عظیم کا سبب ہے مولانا نظام الدین، مولانا عبد العلی، مولوی مجید الدین، مولوی انوار الحق، مولوی نور الحق اور دیگر عملمائے فرنگی محل اور اطراف ہند کے علما جب تعزیہ دیکھتے تو تعظیم کیلئے کھڑے ہو جاتے اور دونوں ہاتھ تعزیہ کی طرف دراز کر کے نہایت خضوع و خشوع اور عجز و انکساری کے ساتھ فاتحہ پڑھتے تھے۔ (تقریب نیوز بحوالہ رسالہ ازالۃ الاوہام)
۶۔ مولانا محمد نعیم اللہ قادری گورکھپوری:
ہزاروں عالم و افاضل گزرے کسی نے اس تعزیہ کو منع نہ کیا اور برابر اس کو اچھا سمجھتے رہے پس جب ہوا زمانہ وہابیوں کا اس کو ناجائز قرار دیدیا اس کو بت بتا دیا اور یہ ان سے بعید بھی نہیں ہے کیونکہ روضۂ رسولؐ کو بڑا بت خانہ کہا گیا، عبد الوہاب نے جس سے نکلا ہے مذہب وہابی۔ (ارشاد النعیم لدفع اللئیم، ص ۲۳، مطبوعہ لکھنؤ) 
متذکرہ بالا اقتباسات پر بغیر کسی تبصرہ کے ہم آخر کلام میں دو بہت ہی اہم تاریخی و ادبی دستاویز ہدیہ قارئین کرنے کی کوشش کریں گے، جس سے یہ اندازہ ہو جائے گا کہ بدعت کے فتوے استعماری اشارہ پر نجدی آغوش میں پروان چڑھے یہودیت کے لے پالک اور سیاسی اولاد نے صادر کئے اور اس کے ناعاقبت اندیش بہی خواہوں کی بھیڑ نے خوب پھیلایا تا کہ نہ تذکرۂ کربلا ہو گا نہ ان کے آقاؤں کے چہرہ سے نفاق کی چادر ہٹے گی اور جرائم سامنے آئیں گے۔
ابن جوزی نے اپنی کتاب التبصرہ میں روز عاشورا کے حوالہ سے مفصل مجلس کو نقل کیا ہے: المجلس الاول فی ذکر عاشورا والمحرم اخوانی باللہ علیکم ..... مستغیثا من ذلک ..... (التبصرہ، ج ۲، ص ۵ تا ۱۷)
برادران تمہیں خدا کی قسم دیتا ہوں کوئی یوسفؑ پر زبان اعتراض وا کر دیتا ہے کہ کیسے دیدار یعقوبؑ کیلئے جائیں؟ جب عباس روز بدر اسیر ہوئے اور پیغمبر اکرم نے ان کا نالہ و فغاں سنا تو نیند اڑ گئی کیا حال ہوتا اگر حسینؑ کی فریاد سن لیتے؟ جس وقت قاتل جناب حمزہؑ ایمان لایا پیغمبرؐ نے اس سے کہا کہ میرے سامنے نہ آنا اپنا چہرہ مجھ سے پوشیدہ رکھنا جبکہ اسلامی دستور کے مطابق اسلام لانے کے بعد ماضی کے جرائم سے پاک ہو جاتے ہیں۔ اگر رسولخداؐ امام حسینؑ کے قاتل کو دیکھ لیتے تو کیا کرتے؟ کتنا ظلم حسینؑ پر ڈھایا گیا ..... حسینؑ پشت فرس سے زمین پر آئے دشمنوں نے گھیر لیا تلواروں کے حملہ سے ٹکڑے ٹکڑے کر دیا ..... ایسے حالات میں پیغمبر اکرمؐ اگر اس کو دیکھتے تو نالہ و فریاد کرتے، استغاثہ بلند کرتے .....
اسماعیل بن عمر ابن کثیر نے البدایہ والنہایہ، ج ۱۳، ص ۲۲۷ پر لکھا ہے: 
بلغنی ان الشافعی  انشد تاوب ہمی والفواد کئیب ۔۔۔ وارق عینی الرقاد غریبو مما نفی نومی وشیب لمتی ۔۔۔ تصاریف  ایام لہن خطوبتزلزلت الدنیا لآل محمد ۔۔۔ وکادت لہم صم الجبال تذوبوغارت نجوم واقشعرت ذوائب  ۔۔۔ وہتک اسباب وشق جیوب فمن مبلغ عنی الحسین رسالۃ ۔۔۔ وان کرہتہا انفس وقلوب قتیل بلا جرم کان قمیصہ ۔۔۔ صبیغ بماء  الارجوان خضیب نصلی علی المختار من آل ہاشم ۔۔۔ وتعزی بنوہ ان ذا لعجیب لئن کان ذبنی حب آل محمد ۔۔۔ فذلک ذنب لست عنہ اتوب نعم ۔۔۔ شفعائی یوم حشری وموقفی ۔۔۔
مجھے معلوم ہوا کہ امام شافعی نے اس طرح نظم کیا ہے۔ دل رنجیدہ قلب دردمند ہے۔ آنکھیں اشک برسا رہی ہیں میں تنہا ہوں اور نیند آنکھوں سے غائب، پیری عارض ہے۔ ان گزرے ہوئے ایام کے واقعات سے جس نے دنیا کو آل محمدؐ کیلئے ہلا دیا ہے۔ قریب تھا پہاڑ جڑوں سے اکھڑ جائیں ستارے ہجوم کر دیں اور انکی پشت پر جوستارے ہیں وہ لرز جائیں،خیموں کی حرمت تارتار ہوگئی،گریبان چاک ہے،کیا کوئی میراخط امام حسین تک پہونچاسکتاہےاور اگرکچھ لوگ اس امر سے ناخوش ہوں تو ہوں لیکن جیسے بے جرم و خطا قتل کیا گیا اور ان کا لباس ارغوانی رنگ (مجنٹا کلر) میں رنگ گیا۔ پیغمبر اکرمؑ پر جو خاندان بنی ہاشم کے برگزیدہ ہیں درود بھیجتا ہوں۔ لیکن ان کی اولاد داغ دیدہ ہے یہ تعجب خیز امر ہے اگر میرا گناہ محبت آل محمدؐ ہے تو یہ ایسا گناہ ہے جس سے توبہ نہیں کروں گا، ہاں روز جزا و سزا کے شفاعت کرنے والے وہی آل محمدؐ ہیں۔ روز حساب ان کی محبت شفاعت کرے گی۔
ناظرین غور فرمائیں کتنا درد بھرا کلام ہے امام شافعی نے بغیر کسی رواداری اور جانبداری کے حقائق کو نظم کیا ہے جس سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ ائمہ اہلسنت نے بھی عزاداری امام حسینؑ کا اہتمام کیا تھا علما و اکابرین نے ائمہ فقہ کی پیروی کرتے ہوئے نہ صرف عزاداری کا انعقاد کیا بلکہ مختلف نوعیت سے اس غم میں غمزدہ رہ کر قلب نازنین حضرت زہراؑ کیلئے مرہم زنگار فراہم کرنے کی سعی ناچیز فرمایا ہے۔
تاریخی بیانات و شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ ہر دور اور ہر زمانہ میں برادران اہلسنت کے افاضل، ادبا، شعرا و علما نے تقریر و تحریر کے ذریعہ امام حسینؑ کو خراج عقیدت پیش کیا ہے اور کر رہے ہیں، موجودہ دور میں اگر ذرا سا انسان وقت نکال کر ایام عزا میں سوشل میڈیا سے جڑ جائے تو اس کو یہ سمجھنے میں ذرا سی بھی دقت نہ ہوگی کہ کائنات اگر ایک نقطۂ مرکزی پر بلا تفریق مذہب و ملت، نسل و قوم جمع ہو سکتی ہے تو اس مرکزی نقطہ کا نام ہے عزائے امام حسینؑ۔ 
انسان کو بیدار تو ہو لینے دو ہر قوم پکارے گی ہمارے ہیں حسینؑ
E-mail: yalateef786@gmail.com 
#عزاداری_اھل سنت#امام_حسین #کربلا#اربعین#شیعہ#جلوس#امام#شھادتazadari#
#shia#imam
#arbaeen#karbala
#mashi#sunni

No comments:

Post a Comment

مادران معصومین ع ایک تعارف۔8۔

  آپ امام موسی کاظمؑ کی والدہ تھیں ، تاریخ سے ان کی ولادت با سعادت کی اطلاع نہیں ملتی ہے۔ آپ کے والد کا نام صاعد بربر یا صالح تھا،...