امام محمد باقرؑ مؤسس انقلاب فرہنگی
تحریر: آیۃ اللہ محمدی اشتہاردی
ترجمہ: منہال رضا خیرآبادی جامعہ حیدریہ مدینۃ العلوم خیرآباد
• اشارہ:
خاندان نبوت کے بارہ ائمہ میں امام محمد باقر کو خاص امتیازات حاصل تھے آپ کی مادر گرامی فاطمہ سلسلہ امامت کی دوسری کڑی امام حسن کی بیٹی تھیں لہذا ماں باپ دونوں طرف سے آپ عظمت پیغمبر اکرم کے وارث سمجھے جاتے تھے ،اک معتبر حدیث میں جو حدیث لوح کے نام سے مشہور ہے پروردگار عالم نے آپ کی عظمت شان کو بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:وابنہ شبہ جدہ المحمود محمد،الباقر علمی والمعدن لحکمتی(۱)امام سجاد کے فرزند اپنے محبوب جد بزرگوار حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کی شبیہ یعنی امام باقر میرے علم کو شگافتہ کرنے اور میری حکمت کے معدن ہیں۔
امام جعفر صادق نے فرمایا:ان لابی مناقب لیست لاحد من آبائی(۲)میرے پدر بزرگوار امام باقر کےلئے ایسے فضائل ومناقب ہیں جو دیگر آبا واجداد کو حاصل نہیں ہیں۔
انھیں وجوہات کی بنا پر امام خمینیؒ نے اپنے سیاسی والہی وصیت نامہ میں امام محمد باقر کی مخصوص عظمت کو یاد کرتے ہوئے تحریر فرمایا:ہمیں فخر ہے کہ ترایخ کی عظیم ترین شخصیت جس کے مقام ومرتبہ کو خدا ورسول اور ائمہ اطہار کے علاوہ کسی کو پتہ نہیں ہے وہ باقر العلوم ہمارے پاس ہے(۳)
اب ہم ان کلمات کے اسرار ورموز کی توضیح وتشریح اس امید کے ساتھ بیان کریں گے کہ کچھ امام باقر کی سیرت کے زندگی ساز اسباق سیکھ سکیں۔
• عصر امام باقر ؑ :
معاویہ اور اس کے بعد فضائل کو محو کرنے والے ظالم وجابر حکمرانوں کے دور حکومت میں حقیقی اسلام مکمل متروک ہورہاتھا،زندگی کا ہر شعبہ تاریک،جہل ،عصبیت،فریب،زروجواہر،طاقت وقوت،اور مختلف النوع کجروی وپلیدی میں عالم اسلام غوطہ زن تھا بنی امیہ نے فکروں کو مسموم اور فرہنگی حملوں سے عقل وشعور کا اغوا کرلیا تھا یزید اور شرک ونفاق کے رسیا نے جگر گوشہ رسول امام حسین اور انکے باوفا اصحاب کو نہایت ناگفتہ بہ حالات میں قتل کردیا اسلامی اقدار تارتارہوگئے غیر آئینی حکومت چلتی رہی،شراب وشباب،رقص وسرور کی محفلیں سجائے رہے،اسلام کے نام پر تعلیمات محمدی وعلوی کا اپنے ناپاک عزائم کی بھینٹ چڑھاتے رہے،حالات اتنے دگر گوں ہوگئے تھے کہ امام حسین کا نام لینے پر قدغن لگا دی گئی،خاندان رسالت ونبوت کے بابرکت آثار مٹانے کی ہر ممکن کوششیں ہوتی رہیں۔
کربلا کے خونچکاں واقعہ کے بعد امام سجاد کی مظلومیت کا عالم یہ تھا کہ مدینہ میں چار افراد آپ کے پاس آتے تھے جبکہ ہوناتو یہ چاہئے تھا کہ آپ کے درس میں لوگوں کا اژدحام ہوتااور آپ کے فیوض سے مستفیض ہوتے امام جعفر صادق نے ان حالات کی منظر کشی کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:ارتد الناس بعد الحسین الا اربعۃ ابو خالد الکابلی ویحیی بن ام الطویل وجبیر بن مطعم وجابر بن عبد اللہ انصاری ثم ان الناس لحقوا وکثروا(۴)شہادت امام حسین کے بعد سارے افراد جادہ حسینی سے منحرف ہوگئے سوائے چار افراد کے:ابو خالد کابلی،یحیی بن ام طویل،جبیر بن مطعم وجابر بن عبد اللہ انصاری،پھر دھیرے دھیرے لوگ ان سے ملحق ہوتے گئے اور تعداد بڑھتی گئی۔
شہادت حسینی کے بعد اموی سلاطین کی ڈکٹیٹر شپ کے نتیجہ میں پیدا ہونے والے خوف وہراس،جہل ودنیا پرستی،ودیگر وجوہات کی بنیاد پر خاندان رسالت سے دوریہ بنا لی گئی،کچھ تو دشمنان آل کی صف میں جاکھڑے ہوئے اور کچھ کا رویہ غیر منصفانہ تھا بعض حیرانی واضطراب کے دریا میں ہچکولے لے رہے تھے کچھ وہ بھی تھے جنھوں نے زبان اعتراض کھولدیا کہ کیوں قیام کیا؟اس کا کیافائدہ ہوا؟انکی جہالت اور تیرگی قلب ودماغ اس مقام پر تھی کہ وہ مچھر کے خون کی نجاست وطہارت کو جاننا چاہتے لیکن شہدائے کربلا کا خون بے دریغ کیوں بہایا گیا ،کس نے بہایا؟اس کو جاننے کی مطلق فکر نہ تھی ۔مروی ہے کوفہ کے ایک شخص نے اس دور کے دانشمند ابن عمرو سے مچھر کے خون کا فقہی حکم جانا چاہا تو اس نے حاضرین کو خطاب کرتے ہوئے کہا اس کوفی کو دیکھو مجھ سے مچھر کے خون کے بارے میں دریافت کررہاہے لیکن فرزندرسول حضرت امام حسین کو قتل کیاگیا اس سلسلہ میں نہیں پوچھتاہے(۵)
ان روایات سے یہ بات بہر حال واضح ہوجاتی ہے کہ اکثریت دین وخاندان رسالت سے دور ہوچکی تھی صرف چار ہی افراد امام سجاد کی بارگاہ میں باقی رہ گئے تھے ایسے حالات میں سب سے پہلے ایک وسیع وعمیق فرہنگی انقلاب کی ضرورت محسوس ہورہی تھی تاکہ لوگوں کو محمدی وعلوی اسلام اور بنی امیہ کے جابر وظالم حکام کے خود ساختہ اسلام کا باہمی فرق معلوم ہوجائے اور حقیقی اسلام کو تاریکیوں سے نکالکر شاہراہ روشن پر لے آیا جائے نور ولایت ائمہ معصومین سے دنیا روشن ومنور ہوجائے یہ عظیم کام اسی وقت ممکن تھا جب ایک جامع ووسیع فرہنگی انقلاب برپا ہو۔
• انقلاب فرہنگی کی راہیں ہموار کرنا:
امام سجاد نے موقع سے فائدہ اتھاتے ہوئے خون شہدائے کربلا کے عہد آفرین پیغام کے زیر سایہ ایک فرہنگی انقلاب کی راہیں ہموار کیا لیکن اس زمینہ سازی کے عمل میں خاندان نبوت کی ایک عظیم ہستی کی قیادت وسرپرستی ضروری تھی تاکہ انکی حمایت وتائید سے ایک یونیورسٹی کی تاسیس کی راہ آسان اور تربیت افراد کا کام سہل ہوجائے پردے چاک ہوں حقیقی اسلام کے علوم ومعارف آشکار ہوجائیں دنیا کی نگاہیں دیکھ لیں وہ عظیم ہستی جس کو اللہ نے اس وسیع انقلاب کیلئے ذخیرہ کیا تھا امام محمد باقر کی ذات والا صفات تھی ،چار برس کی عمر میں کربلا میں موجودگی اور واقعہ کربلا کے چشم دید گواہ ،مخدرات عصمت وطہارت کے ہمراہ اسیر ہوکر کوفہ وشام کا سفر کیا اپنے پدر بزرگوار امام سجاد،پھوپھی جناب زینب وام کلثوم کے خطبات سنے اور اس بات کا بخوبی اندازہ کرلیا تھا کہ تاریخ اسلام ماضی کی تاریکی کی طرف لوٹ گئی ہے اب شہدائے کربلا کی نصرت کیلئے اٹھنا چاہئے اور انکے بلند وبالا مقصد ’اسلام کی بالادستی‘کو عملی جامہ پہنانا ضروری ہے۔
پیغمبر اکرم نے بارہا آپ کو باقر العلوم (علوم کو شگافتہ کرنے والے)کے لقب سے یاد فرمایا ،مشہور ومعروف صحابی جابر بن عبد اللہ انصاری نے متعدد بار پیغمبر اسلام کی حدیث لوگوں سے بیان کیاتاکہ ذہنی طور پر بیدارہوجائیں اور پروانہ وار شمع علوم ومعارف امام باقر کے گرد جمع ہوکر حقیقی چشمہ سے آب زلال اسلام گھونٹ گھونٹ پی سکیں،نبی اکرم نے جابر سے فرمایاتھا:انک ستدرک رجلا منی اسمہ اسمی وشمائلہ شمائلی یبقر العلم بقرا(۶)میرے خاندان کی اس فرد سے ملاقات کروگے جو میرا ہم نام وہم شکل ہوگا وہ علوم کو شگافتہ کرے گا ،علم ودانش کی توضیح وتشریح کرے گا۔
اللہ نے جناب جابر کو طولانی عمر عطا فرمایا امام باقر کی ولادت ہوئی عالم طفلی تھا کہ جناب جابر امام سجاد کی خدمت میں حاضر ہوئے آپ کو دیکھکر فرمایا:بابی انت وامی ابوک رسول اللہ یقرئک السلام ویقول ذلک۔۔۔۔۔(۷)میرے ماں باپ آپ پر قربان آپ کے جد بزرگوار رسول خدا نے آپ کو سلام بھیجا ہے اور اسطرح فرمایاہے۔۔۔۔
صحابی رسول جابر نے کئی بار امام باقر سے ملاقات کیا اور نبی کی حدیث اور سلام کہلانے کی بات دھراتے رہے ’باقر العلوم‘کی تکرار کرتے رہے تاکہ زبان زد ہوجائے،لوگوں کے دل انکی باتوں کو قبول کرنے اور فرہنگی انقلاب کےلئے آمادہ وتیار رہیں۔
ایک روز امام باقر کے پاس آئے اور عرض کیا: یا باقر اشھد باللہ انک قد اوتیت الحکم صبیا اے علوم کو واضح کرنے والے میں اللہ کو گواہ بناتاہوں کہ آپ کو خرد سالی میں حکمت ودانش سے سرفراز کیا گیاہے۔
دوبارہ امام محمد باقر کی خدمت میں حاضر ہوئے تو عرض کیا:یا باقر انت الباقر حقاان ت الذی تبقر العلم بقرا(۸)اے باقر آپ واقعا علوم کو شگافتہ کرنے والے ہیں،علم کی گہرائی میں عمیق شگاف پیداکرنے والے،علم کے پوشیدہ اسرار ورموز کو واضح کرنے والے ہیں۔
ان تمام باتوں کا تعلق زمانہ آئندہ سے تھا جس کے ذریعہ دلوں کو آمادہ اور توجہات کو مبذول کرانا مقصود تھا تاکہ اسلامی سماج میں بسنے والے افراد آپ کی ملکوتی،علمی شخصیت وجلالت کو پہچان لیں اور جس فرہنگی انقلاب کی کرن پھوٹنے والی ہے اس کےلئے تیار رہیں۔
• اور کرن پھوٹ گئی:
امام محمد باقر نے بنی امیہ اور بنی عباس کی باہمی رقابت ،حصول حکومت کی تگ ودو سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ایک یونیورسٹی کی تاسیس اور تربیت افراد کا عمل شروع کردیا جو بعد میں ایک وسیع وعمیق فرہنگی انقلاب کی بنیاد قرار پایا،عصر امام صادق میں اس یونیورسٹی کے طلبہ کی تعداد چار ہزار سے متجاوزہوگئی(۹)
امام محمد باقر نے محمد بن مسلم،زرارہ،ابو بصیر،جابر بن یزید جعفی،ابان بن تغلب،حمران بن اعین،سدیر صیرفی،ابو صباح کنانی،عبداللہ بن ابی یعفور،و۔۔۔۔۔جیسے عظیم المرتبت شاگردوں کی ایک فوج تیار کیا جسمیں جلیل القدر فقیہ،ماہر محدث،دل آگاہ عرفا نظر آتے ہیں جنھوں نے حقیقی اسلام وفرہنگ تشیع کی نشر واشاعت میں اہم کردار اداکیا۔جابر جعفی کا بیان ہے : اٹھارہ سال سردار انسانیت حضرت امام باقر کی خدمت پر فیض میں رہ کر آپ کے خرمن فیض سے خوشہ چینی کرتا رہا جب مدینہ سے کوفہ کی جانب لوٹنے کے ارداہ سے خدا حافظی کا وقت آیا تو امام کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کیا مولا کچھ فیض عطا کردیں امام نے فرمایا اٹھارہ برس کافی نہیں؟میں نے عرض کیا مولا آپ تو ایسا بحر ذخار ہیں جسکا پانی کم نہیں ہوتا جسکی گہرائی وگیرائی تک رسائی محال ہے امام نے فرمایا:بلغ شیعتی عنی السلام واعلمھم انہ لاقرابۃ بیننا وبین اللہ ولایتقرب الیہ الا بالطاعۃ لہ یا جابر من اطاع اللہ واحبنا فھو ولینا ومن عصیٰ اللہ لم ینفعہ حبنا۔میرے شیعوں کو میرا سلام کہنا اور انھیں بتادینا ہمارے اور خدا کے درمیان کسی قسم کی قرابتداری ورشتہ داری نہیں ،اللہ سے نزدیک صرف اطاعت وعمل کے ذریعہ ہوسکتے ہیں اے جابر جو اللہ کا مطیع اور ہمارا محب ہوگا وہی ہمارا دوست ہوگا جو اللہ کی نافرمانی کرے گا اسکو ہماری محبت ودوستی فائدہ نہیں پہونچائے گی۔
بیان کیا جاتاہے کہ جابر نے ستر ہزار(۷۰۰۰۰)احادیث امام محمد باقر سے یاد کیا تھا(۱۰)
ابان ابن تغلب امام محمد باقر کے جلیل القدر صحابی جن سے امام نے فرمایا تھا: اجلس فی المسجدالمدینۃ وافت الناس فانی احب ان یریٰ فی شیعتی مثلک(۱۱)مسجد مدینہ میں بیٹھکر لوگوں سے فتویٰ بیان کرو کہ میں اپنے شیعوں میں تم جیسے افراد دیکھنا پسند کرتا ہوں۔
مدینہ میں امام محمد باقر کی علمی نشست،فکری تحریک اور جلسات درس وبحث اس بلندی پر تھے کہ اس دور کے اعاظم علما ودانشور ہیچ اور بونے نظر آتے تھے انمیں سے حکم ابن عتیبہ ایک تھا ،عطانامی دانشمند بیان کرتا ہے:رایت الحکم عندہ کانہ عصفور مغلوب(۱۲)حکم ابن عتیبہ کو بارگاہ امام باقر میں ہزیمت خوردہ چریئے کے مثل دیکھا۔
عصر امام باقر کے عظیم سنی عالم دین عبد اللہ ابن عطا مکی کا بیان ملاحظہ کریں:حکم ابن عتیبہ کو اپنی تمامتر علمی جلالت وسطوت جو اپنی قوم میں رکھتا تھا امام کے حضور ایک بچہ کی مانند زانوئے ادب تہ کئے زمین پر بیٹھا پاتاہوں جو امام کی شخصیت سے مرعوب اور کلام کا شیفتہ وشیدائی ہو(۱۳)
امام باقر کی بنا کردہ یونیورسٹی کے علمی،اخلاقی،سیاسی،سماجی اثرات واضح وعمیق تھے جس کے معترف سارے افراد نظر آتے ہیں کہ رسول خدا نے صحیح فرمایاتھا کہ امام باقر علم ودانش کے شگافتہ کرنے والے ہیں۔
امام نے حق بیانی،مسائل کی وضاحت کے حوالہ سے صریح وقاطعانہ انداز اختیار فرمایا،اصولی موضوعات پر کسی بھی قسم کے ابہام ومسامحہ سے کام نہیں لیتے اسی قاطعانہ رویہ کے باعث ہمعصر حکام جور وجفا کے ہاتھوں ایدا رسانی،غم وغصہ کو برداشت کرتے رہے اور آخر کار دسویں اموی خلیفہ ہشام بن عبد الملک کے حکم سے زہر دغا دیا گیا اور درجہ شہادت کو زینت بخشاامام بالصراحت فرماتے تھے:نحن خزنۃ علم اللہ وولاۃ امر اللہ وبنا فتح الاسلام وبنا یختمہ(۱۴)ہم خزانہ دار علم الہی،ولی امر ربانی ہیں اسلام کا آغاز واختتام ہمارے وسیلہ سے ہے۔
حوالہ جات:
۱۔اصول کافی،ج۱،ص۵۴۸
۲۔بحار الانوار ،ج۴۶،ص۲۲۸
۳۔وصیتنامہ الہی وسیاسی امام خمینی ،ص ۳
۴۔بہجۃ الآمال ،ج۲،ص۴۸۴۔معجم رجال الحدیث خوئی،ج۲،ص۹۹۔سفینۃ البحار،ج۱،ص۳۶۸
۵۔ بحار الانوار ،ج۴۳،ص۲۶۲
۶۔اصول کافی،ج۱،ص۴۶۹
۷۔حوالہ سابق
۸۔علل الشرایع ،ج۲،ص۲۳۳۔ بحار الانوار ،ج۴۶،ص۲۲۵
۹۔رجال کشی،ص۱۲۵
۱۰۔سفینۃ البحار،ج۱،ص۱۴۲
۱۱۔حوالہ سابق،ص۷
۱۲۔اعیان الشیعہ،ج۱،ص۶۵۱
۱۳۔اعلام الوریٰ،ص۲۶۳
۱۴۔حوالہ سابق ،ص ۲۶۲
#شیعه_اثنا_عشری
#امامت_باقر_محمد
#قرآن_کریم
#shia
#quran
#islam
#imam_baqir
No comments:
Post a Comment