Friday, 21 June 2024

غدیر شناسی۔قسط20۔حدیث غدیر معتبر ہے

 

منابع اہل سنت اور حدیث غدیر کا اعتبار:

اہل سنت کتابوں میں حدیث غدیر کے معتبر ہون کو تین مختلف الفاظ میں بیان کیا گیا ہے ، تو اتر،کثرت طرق ،اتفاق رائے  اس حدیث کا اصل حصہ متواتراور قبل وبعد کا حصہ صحیح ومستفیض ہے اس اعتبارسے اس حدیث کو  بہترین و اساسی ترین احادیث اورروایات کے زمرہ میں لکھا جاسکتاہے ۔ بہت ہی کم روایت ایسی ہیں جس کو۱۱۰ صحابہ۔۸۴ تابعین اور ۹۶  علما اہلسنت جودو سری صدی میں تھے نے نقل کیا ہو اسکا واضح سامطلب یہ ہے کہ امام المحدثین اہل سنت محمد بن اسماعیل بخاری سے پہلے۲۹۰ علما اہل سنت نے اس حدیث کو نقل کیا تھا۔ جو حقیقتاْ حیرت انگیز ہے اسکے علاوہ ۳۶۰ کتب احادیث اهل سنت میں مندرج ہے۔ متذ کرہ اعدادوشمار سے علامہ امینی کی تیس سالہ جانفشانی و عرق ریزی اورتحقیقی کو ششوں کا نتیجہ ہیں ۔ ہم یہاں پرپہلے تواتر حدیث کے سلسلے میں علما اہل سنت کی تصریحات کو بیان کریں گے پھر صحت حدیث پر گفتگو کریں گے۔

اعتراف تواتر و کثرت طرق :

علما اہل سنت میں سرمایہ افتخار و بے نظیر’’ ذهبی، ابن حجر، البانی " نے اس روایت کے تواتر کا اعتراف

کیا ہے ۔ ذیل میں کچھ علماء کے اسمار درج کرنے کے بعد انکے متن اعتراف پر گفتگو ہوگی ۔

1 ۔شمس الدین ذہبی (آٹھویں صدی)

۲۔شمس الدین جزری شافعی (نویں صدی)

۳۔ابن حجر عسقلانی (نویں صدی)

۴۔جلال الدین سیوطی (نویں و دسویں صدی)

۵۔ ابن حجر ھیثمی(دسویں صدی)

ؓ۶۔ محمد ناصر البانی (معاصر)

ان کے علاوه ابن کثیر دمشقی، آلوسی، ابراهیم بن محمد الحسین اور ملا علی قاری نے تواتر حدیث کو دوسر وں سے نقل کرنے پر اکتفا کیا ہے ۔ ذیل میں چند بزرگان کےاعتراف تواتر کو درج کیا جارہا ہے۔

 شمس الدین جزر ی شافعی (متوفی ۸۳۳ھج)

انھوں نے فضائل ا میرا لمومنین کے سلسلہ میں ایک کتاب تحریر کیا ہے اسمیں مقام رحبہ میں امیر المومنین نے حدیث غدیر سے استدلال فرمایا تھا اس تذکرہ کے بعد کہتے ہیں : ھذاحدیث حسن من ھذاالوجہ صحيح من وجوه كثيرة تواتر عن امير المومنين على وهو متواترایضا عن النبی۔صلعم۔ رواه الجم  الغفیر عن الجم الغفير ولاعبرۃ بمن حاول تضعيفہ من لا اطلاع لہ فى هذا العلم ( اسنى المطالب في مناقب سيدنا على ابن ابی طالب ،ص۴۸)( ایک اعتبارسے  حسن اور کئی اعتبار سے صحیح ۔تواتر حضرت رسول خداوحضرت علی سے ثابت ہے اور جم غفیر نے جم غفیر سے روایت کیا ہے اس حدیث کی تضعیف کرنے والے کا اعتبار نہیں کیا جائے گا )

حالات علامہ جزری:

۲۵رمضان ۷۵۱ ھج میں شہر دمشق میں آنکھیں کھولیں اسی شہر میں علم حاصل کیا اور حدیث و قرائت قرآن کے لئے بہت کوشش کیا اور کا میابی بھی ہوئی ،دارالقرآن نامی ایک مدرسہ تاسیس کیا اورعماد الدین کثیر کی  طرف سے منصب قضاوت پرفائز ہوئے  لیکن اختتام تک نہ پہونچا سکے ۔ قاہرہ کا کئی سفر کیا تھا،چہرہ حسین وجاذب نظر تھا۔ حجازی باشندوں کے ساتھ  اچھا سلوک وبرتاو کرتے ان سے قرائت و حدیث کا علم لیتے ، علم قرائت خواہ کسی ملک میں ہواس کا اختتام ان پر ہی ہو تا ہے - حصن حصین نامی کتاب دعا کے سلسلہ میں تحریر کیا، یمنیوں نے آپ سے خوب استفادہ کیا تھا قا ہرہ میں لوگوں کو مسنداحمد وشافعی سناتے تھے امام اعظم کے لقب سے سرفراز کئے گئے تھے ( انباء الغمر بابناء العمر في التاريخ ،ج۸،ص۲۴۵)

شمس الدين ذهبی (متوفی ۷۴۸ھج)

 مسلک اہلسنت کے مشہور دانشور، علم رجال کے رکن،جرح وتعدیل میں پیشوامانے جاتے تھے ، متعددمقامات

پر حدیث غدیرکے تو اترکا اعتراف کیا ہے کتاب ’’سیر اعلام النبلا‘‘ اہل سنت کی علم رجال میں معتبر ترین کتاب ہے

اسمیں محمد ابن جریر طبری مورخ و مفسر قرآن کے حالات میں تحریر کرتے ہیں: قلت جمع طرق حدیث غدیر فی اربعۃ اجزا رایت شطرہ فبھرنی سعۃ روایاتہ و جزمت بوقوع ذالک(سیر اعلام النبلا،ج۱۴،ص۲۷۷) محمد ابن جریر طبری نے روایت غدیر کے اسناد کو چار جلدوں میں جمع کیا ہے میں نے کچھ حصہ اس کا دیکھا وسعت روایات کو دیکھکر ششدر ومبہوت ہوگیا اوریہ یقین ہو گیا کہ یہ واقعہ رونما ہوا ہے

        تذکرۃ الحفاظ میں حالات محمد ابن جریر طبری کے ضمن میں تحریر کیاہے:قلت رایت مجلد أمن طرق الحديث لابن جریرفاندھشت لہ ولکثرۃ تلک الطرق (تذکرۃ الحفاظ ج ۲،ص۷۱۰- رقم ۷۲۸ - نا شر دارالکتب العلمیہ بیروت – طبعہ اولی)

میں نے ایک جلد اسناد حدیث غدیر کے سلسلے میں ابن جریر کی لکھی دیکھا اسناد کی کثرت سے مبہوت ہوگیا۔

ابن کثیر دمشقی سلفی(متوفی ۷۷۴ھج)ذہبی کے شاگردوں میں آپ کا شمار ہوتاہے اپنے استاد سے نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں:قال وصدر الحدیث متواتر تیقن ان رسول اللہ۔صلعم۔ قالہ واما’’اللھم وال من والاہ‘‘فزیادۃ قویۃ الاسناد(سیرۃ النبویہ،ج۴،ص۴۲۶۔البدایۃ والنہایۃ،ج۵،ص۲۱۴۔ناشر مکتب المعارف بیروت)ذہبی کا بیان ہے کہ یہ حدیث غدیر متواتر ہے مجھے یقین ہوگیا ہے کہ رسولخدا سے صادر ہوئی ہے اور اسی طرح جملہ’’اللھم وال من والاہ‘‘کی سند بھی قوی ہے۔

شہاب الدین آلوسی (متوفی ۱۲۷۰ھج)مولف تفسیر روح المعانی ۔اہلسنت اور وہابیوں کے نزدیک خاص مقام ومرتبہ کے حامل ہیں اپنی تفسیر میں تحریر کرتے ہیں:وعن الذھبی ان ’’من کنت مولاہ فعلی مولاہ‘‘ متواتر یتیقن ان رسول اللہ قالہ واما’’ واماــ’’اللھم وال من والاہ‘‘فزیادۃ قویۃ الاسناد(روح المعانی،ج۶،ص۱۹۵)ذہبی نے حدیث ’’من کنت مولاہ فعلی مولاہ‘‘کو متواتر جاناہے اور یقینی طور پر یہ رسول خدا کی حدیث ہے ۔اس کے بعد کا جملہ ’’اللھم وال من والاہــ‘‘اسکی سند بھی قوی ہے۔

حالات ذہبی:

نویں صدی کے عظیم دانشور ابن ناصرالدین(متوفی۸۴۲ھج)ذہبی کی شخصیت کے بارے میں تحریرکرتے ہیں:امام ،حافظ(وہ شخص جو ایک لاکھ سے زائد احادیث کوحفظ کئے ہو)مورخ ،اسلام شناس،ناقد علما حدیث،پیشوائ جرح وتعدیل،راویوں اور مولفین کے سلسلے میں جرح وتعدیل کرنے والوں کے راہبر،شمس الدین ذہبی(الرد الوافر۔ناشر المکتب الاسلامی بیروت۔۱۳۹۳ھج طبعہ اول۔تحقیق زہیر الشادیش)

اسی کتاب میں ایک دوسرے مقام پر لکھتے ہیں:رجال حدیث کی نقد میں یگانہ روزگار،راویان حدیث کی جرح وتعدیل میں استاد،اصول سے فروع کے حاصل کرنے میں دانشور،قرائت قرآن میں راہنما،نظریات کے اعتبارسے فقیہ،مذاہب اربعہ میں داخل ہونے کی راہ،تمام افکار کے پیشواتھے،سنت ومذہب سلفیہ کی نشر وتبلیغ میں اپنے دور میں اکیلے ومنفرد تھے (الرد الوافر،ج۱،ص۳۱)

ابن حجر عسقلانی (متوفی ۸۵۲ھج)درر کامنہ میں لکھتا ہے:ذہبی کے بارے میں بیان ہواہے :رواۃ کے حالات ،علم رجال نیز مولفین کے بارے میں بہت زیادہ معلومات رکھتے تھے ،ذہن وذکاوت قوی تھی،آپ لا شہرہ ہمیں مزید اوصاف بیان کرنے سے بے نیاز کردیتاہے(الدررالکامنہ فی اعیان المائۃ الثامنۃ،ج۵،ص۶۸)

جلال الدین سیوطی(متوفی ۹۱۱ھج)نے ذہبی کے بارے میں تحریر کیا ہے:امام،حافظ،اپنے دور کے احادیث بیان کرنے والے،حافظان حدیث کی آخری فرد،مورخ اسلام،یگانہ روزگار۔۔۔تھے(طبقات الحفاظ،ج۱،ص۵۲۱۔ناشر دارالمکتب العلمیہ بیروت طبعہ اول،۱۴۰۳ھج)

ابن حجر عسقلانی(متوفی ۸۵۲ھج)

ابن حجر معروف اہل سنت عالم ہیں،اہل سنت کے علم رجال کے دو بنیادی رکن ایک ذہبی دوسرے ابن حجر تھے۔صحیح بخاری کی شرح میں بہت سے اسناد حدیث غدیر کو صحیح وحسن بتایاہے:واما حدیث’’من کنت مولاہ فعلی مولاہ‘‘فقد اخرجہ الترمذی والنسائی وھو کثیر الطرق جداًوقد استوعبھا بن عقدۃ فی کتاب مفرد وکثیر من اسانیدھا صحاح وحسان(فتح الباری فی شرح صحیح بخاری ،ج۷،ص ۷۴)حدیث ’’من کنت مولاہ فعلی مولاہ‘‘ کو ترمذی ونسائی نے سند صحیح کے ساتھ نقل کیا ہے اس کے اسناد بہت ہیں تمام اسناد کو ابن عقدہ نے ایک مستقل کتاب میں جمع کیا ہے بہت سے اسناد صحیح وحسن ہیں۔

اہل سنت میں علم رجال کی معتبر کتاب التہذیب التہذیب میں بیان کیاہے کہ اس حدیث کو ستر سے زائد صحابیوں نے نقل کیا ہے:وقد جمعہ بن جریر الطبری فی مولف فیہ اضعاف من ذکر وصححہ واعتنی بجمع طرقہ ابو العباس بن عقدۃ فاخرج من حدیث سبعین صحابیا او اکثر(التہذیب التہذیب ،ج۷،ص۲۹۷)ابن جریر نے حدیث غدیر کو مختلف اسناد سے ایک مستقل کتاب میں ان کی تصحیح کے ساتھ جمع کیا ہے جس نے اس کے اسناد پر خصوصی توجہ کیا ہے وہ ابو العباس بن عقدہ ہیں اس نے اس حدیث کو ستر سے زائد صحابیوں نقل کیا ہے۔

حالات ابن حجر عسقلانی:

ہاشمی،مکی،نویں صدی کے مشاہیر میں سے ہیں ابن حجرکا ہمعصر ہے انی اسطرح توصیف بیان کیا ہے:ابن حجر عسقلانی مصری،شافعی مذہب ،دانشوروں کا پیشوا،حافظ،یگانہ عصر،افتخار دوراں،حافظان حدیث میں باقیماندہ،بزرگ پیشواوں کا سردار،عمدہ محقق،حافظان حدیث کا اختتام،مشہور قاضی(لحظ الالحاظ بذیل طبقات الحفاظ،ج۱،ص۳۲۶)

ابن حجر ھیثمی:

صواعق محرقہ میں۔جو شیعوں کی خلاف تحریر کیا تھا۔ابن حجر نے حدیث غدیر کے کثرت سند کا اعتراف کرتے ہوئے تحریر کیا ہے:حدیث غدیر کی صحت میں شک نہیں ہے کیونکہ ترمذی،نسائی اور احمد جیسے افراد نے سند کے ساتھ نقل کیا ہے۔اس کے اسناد بہت ہیں۔۱۶ صحابہ نے روایت کیا ہے۔امام احمد ابن حنبل نے نقل کیا ہے کہ دور خلافت حضرت علی میں جب حضرت علی نے اس حدیث کو رسول خدا سے سننے کی گواہی مانگا تھا تو تیس اصحاب نے گواہی دیا تھا کہ ہم نے رسول خدا سے سنا ہے۔اس کے اسناد صحیح وحسن ہیں۔اگر سند پر کوئی اعتراض کرتاہے تو اسکی بات سنی نہیں جائے گی(الصواعق المحرقۃ علیٰ اھل الرفض والضلال والزندقۃ،ج۱،ص۱۰۶۔۱۰۷۔تحقیق عبد الرحمن بن عبد اللہ ترکی وکامل محمد الخراط۔ناشر موسسۃ الرسالۃ لبنان،طبعہ اول۔۱۴۱۰ھج۔۱۹۹۹۷ع)

حالات ابن حجر ھیثمی:

عبد القادر عبد روس(متوفی ۱۰۳۷ھج)ابن حجر کے بارے میں لکھتا ہے:علم فقہ وتحقیق کا دریا،مدینہ ومکہ کا امام تھا،تمام پیشوا اسی کی اقتدا کرتے تھے،سرزمین حجاز پر آثار کے اعتبارسے بے مثل ونظیر تھا(تاریخ النورالسافرین عن اخبار القرن العاشر،ج۱،ص۲۵۸)

جلال الدین سیوطی(متوفی ۹۱۱ھج)

مشہور اہل سنت مفسر،ادیب ومحدث تھے جن بزرگوں نے حدیث غدیر کو متواتر تسلیم کیا ہے انمیں سے دو افراد نے اس بات کو ان سے نقل کیا ہے جو ہمارے لئے کافی ہے۔

حافظ عبد الروف مناوی نے شرح جامع الصغیر سیوطی میں تحریر کیا ہے:’’من کنت مولاہ‘‘ای ولیہ وناصرہ’’فعلی مولاہ‘‘۔۔۔۔ورجال احمد ثقات بل قال المولف حدیث متواتر(التیسیر بشرح الجامع الصغیر،ج۲،ص۴۴۲،متوفی:۱۰۳۱ھج)راویان حدیث غدیر جو مسند احمد میں ہیں موثق ہیں بلکہ مولف(سیوطی)نے کہا ہے کہ یہ حدیث متواتر ہے۔

فیض القدیر نامی شرح جامع الصغیر سیوطی میں تحریر ہے:قال الھیثمی رجال احمد ثقات وقال فی موضع آخر رجالہ رجال الصحیح وقال المصنف حدیث متواتر(فیض القدیر شرح الجامع الصغیر،ج۶،ص۲۱۸)ہیثمی نے کہا ہے کہ مسند احمد کے راوی موثق ہیں،دوسری جگہ پر کہا ہے اسکے راوی وہی ہیں جو صحیح بخاری کے راوی ہیں اور مصنف نے کہا ہے کہ حدیث غدیر متواتر ہے۔

(ابراھیم ابن محمد الحسینی (متوفی:۱۱۲۰ھج)بارہویں صدی کے اہل سنت عالم ہیں انھوں نے بھی اس کی تائید کیا :’’من کنت مولاہ فعلی مولاہ‘‘اخرجہ الامام احمد ومسلم عن البرا بن عازب واخرجہ احمد ایضاعن بریدہ بن الحصیب  واخرجہ الترمذی والنسائی والضیائ والمقدسیعن زید بن ارقم قال الھیثمی رجال احمد ثقات وقال فی موضع آخر رجالہ رجا ل الصحیح وقال السیوطی حدیث متواتر)

حالات سیوطی:

نجم الدین عزیز نے الکواکب السائرہ میں سیوطی کا تعارف اس طرح لکھا ہے:

استاد،علامہ،پیشوا،محقق،دقیق،حافظ،جامع کتب کے مولف،مفید کتب کے مصنف،وہ جس نے پانچ سو سے زائد قیمتی ومفید کتابیں تحریر کیا علم حدیث کا برترین عالم،استنباط احکام کی صلاحیت کے حامل،انھوں نے خود کہا ہے کہ مجھے دولاکھ حدیثین حفظ تھیں اگر اس سے زیادہ مجھے ملتیں تو اسکو بھی حفظ کرلیتا شاید اس سے زیادہ احادیث ہی موجود نہیں ہیں(الکواکب السائرہ باعیان المائۃ العاشرۃ،ج۱،ص۱۴۲۔متوفی:۱۰۶۱ھج)

محمد ناصر البانی(۱۳۳۲ھج ،۱۹۱۴ع۔۱۴۲۰ھج،۱۹۹۹ع)

معاصر وہابی محدث محمد ناصر البانی نے سو سے زائد کتابیں لکھی ہیں۔حدیث غدیر کے بارے میں تحریر کرتاہے:حدیث غدیر کیلئے بہت سے اسناد ذکر ہوئے ہیں ۔ھیثمی نے المجمع میں اور ان جیسے بہت سے افراد نے اس کے اسناد کو ذکر کیا ہے جو کچھ بیان کیاہے وہ کچھ حصہ ہے جس سے باخبر ہونے کے بعد انسان کو صحت کا یقین پیدا ہوجائے گا۔ابن عقدہ نے تمام اسناد کو ایک مستقل کتاب میں جمع کیا ہے ۔ابن حجر نے بعض اسناد کی بنیاد پر صحیح اور بعض اسناد کی بنیاد پر حسن بتایاہے۔خلاصہ یہ کہ حدیث کا دونوں حصہ ’’من کنت مولاہ فعلی مولاہ۔اللھم وال من والاہ‘‘صحیح ہے جبکہ پہلا حصہ تواتر کے ساتھ نبی اکرم سے منقول ہے(السلسلۃ الصحیحۃ،ج۴،ص۲۴۹۔المکتبۃ الشاملہ نامی سافٹویئر کے مطابق)

حالات البانی:

دور حاضر کے مشہور ترین مسلمان عالم علامہ ناصر الدین البانی،حدیث شناس،رجال کی جرح اور تعدیل راویان حدیث میں یکتا اور دوسروں کےلئے نمونہ تھے بعض دانشوروں نے ان کے بارے میں کہاہے: البانی نے ابن حجرعسقلانی اور ابن کثیر اور دیگر حدیث شناس وجرح وتعدیل کے علما کے دور کو زندہ کردیا ہے۔

حجاز کے سابق مفتی بن باز کہتے ہیں:علم حدیث میں دور حاضر میں شیخ ناصر البانی سے زیادہ علم والا زیر آسمان نظر نہیں آتاہے۔۔۔۔۔۔جب بن باز سے رسول خدا کی حدیث’’ہر سوسال پر دین کا احیا کرنے والا ایک شخص اللہ بھیجتاہے ‘‘کے بارے میں پوچھا گیا کہ اس دورمیں دین کا مجدد کون ہے ؟ تو اس نے کہا :میرے خیال میں اس دور میں سنتوں کا احیا کرنے والا اور دین کا مجدد البانی ہے۔

مقبل الوداعی سے نقل کرتے ہوئے تحریر کیا ہے:میرے نظریہ کے مطابق البانی مجدد دین ودین کا احیا کرنے والے ہیں اور حدیث رسول خدا کہ ہر سوسال پر ایک آدمی دنیا میں دین کو زندہ کرے گا کہ مصداق ہیں(www.alalbany.net/albany_serch.php )

متن حدیث غدیر پر اجماع کے قائلین:

بعض علما اہلسنت اس بات کے معترف ہیں کہ متن حدیث غدیر اجماعی واتفاقی ہے۔ابو حامد غزالی اور سبط ابن جوزی اسی گروہ  سے ہیں ،ہم اس مقام پر دونوں کے اعترافات کو نقل کررہے ہیں:

ابو حامد غزالی(متوفی:۵۰۵ھج)

پانچویں اور چھٹی صدی کا نامور ومشہور عالم غزالی نے جس کو ذہبی نے عجائب روزگاہ بتایاہے حدیث غدیر اور خلیفہ دوم نے جو عہد وپیمان اس روز کیا تھا اور چند دنوں بعد گئے ۔کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:واجمع الجماھیر علی متن الحدیث من خطبۃ فی یوم عید غدیر باتفاق الجمیع وھو یقول ’’من کنت مولاہ فعلی مولاہ‘‘فقال عمر بخ بخ یا ابالحسن لقد اصبحت مولای ومولای کل مولیٰ فھذا تسلیم تسلیم ورضی وتحکیم ثم بعد ھذا غلب الھویٰ تحب الریاسۃ وحمل عمود الخلافۃ وعقود النبوۃ وخفقان الھویٰ فی قعقعۃ الرایات واشتباک ازدحام الخیول وفتح الاعصاروسقاھم کاس الھویٰ فعادوا الی الی الخلاف الاول فنبذوہ وراظھورھم واشتروا بہ ثمنا قلیلا(سرالعالمین وکشف مافی الدارین ،ج۱،ص۱۸،  باب فی ترتیب الخلافۃ والمملکۃ)رسول اکرم کاغدیر خم میں خطبہ جس پر تمام مسلمان متفق ہیں۔رسول خدا نے فرمایاجس جس کا میں مولاوسرپرست ہوں علی بھی اس کے مولاوسرپرست ہیں ،عمر نے اس خطبہ کے بعد علی کو مبارکباد دیتے ہوئے کہا مبارک  ہو،مبارک ہو اے ابوالحسن اب آپ میرے اور تمام دوسرے لوگوں کے مولاورہبر ہوگئے۔یہ جملہ عمر کا فرمان پیغمبر اسلام کو تسلیم کرنے اور حضرت علی کی رہبری پر راضی ہونے کی حکایت کررہا ہے لیکن چند روز کے بعد ہوائے نفسانی غالب اور حب ریاست اتنی شدید ہوگئی کہ ستون خلافت کو اسکے اصلی مقام سے ہٹادیا،لشکر کشی،پرچم کشائی ،توسیع مملکت کے ذریعہ امت کی راہ کواختلافات کاشکاربنادیااورجاہلیت کی راہ کوہموار کردیا اور آیہ کریمہ کے مصداق بن گئے جس میں ارشادہوتاہے:پس اس عہد کو روند ڈالااور معمولی قیمت پر سوداکرلیااور یہ بدترین معاملہ ہے۔

ابو حامد غزالی کے حالات:

علامہ شمس الدین ذہبی نے ان کے حالات میں لکھا ہے:غزالی استاد وراہنما اور علم کا دریا تھے،علامت اسلام،عجائب روزگار،کتابوں کے مولف،نہایت ہوشیار وزیرک تھے،برسوں بعد اپنے وطن واپس ہوئے اور وقت وفرصت سے استفادہ کرنے اور علم ودانش سے فائدہ اٹھانے میں زندگی بسر کردی(سیر اعلام النبلا،ج۱۹،ص ۳۲۲۔تحقیق شعیب الارناوط ،محمد نعیم عرقسوسی۔ناشر موسسۃ الرسالۃ بیروت طبعہ نہم ۱۴۱۳ھج)

سیر اعلام النبلا ،ج۱۴،ص ۲۰۲ پر حدیث نبوی سے استفادہ کرتے ہوئے انھیں دین کو زندہ کرنے والا بتایاہے وہ لکھتے ہیں:حاکم کا بیان ہے کہ میں نے حسان بن محمد سے سنا کہ بیان کررہا تھا سن۳۰۳ھج میں ابن سریج کی بزم میں تھاایک بوڑھا عالم اٹھا اور کہنے لگا بشارت ہو اے قاضی خدا ہر سو سال پر کسی کو بھیجتا ہے جو دین کو زندہ کرنے والا ہوتاہے عمر ابن عبد العزیز پہلا آدمی تھا دوسرے سوسالہ میں مھمد ابن ادریس ہے اور میں کہتا ہوں چوتھی صدی میں ابو احمد اسفرائنی پانچویں صدی میں غزالی اور چھٹی صدی میں حافظ عبد الغنی۔

سبط ابن جوزی:

سبط ابن جوزی ابوالفرج ابن جوزی کا نواسہ تھا ۔ساتویں صدی کا عظیم اہلسنت عالم اپنی کتاب تذکرۃ الخواص میں حدیث غدیر کے سلسلے میں لکھتاہے:اتفق العلما السیر علیٰ ان قصۃ الغدیر کانت بعد رجوع النبی من حجۃ الوداع فی الثامن عشر ذی الحجۃ جمع الصحابۃ وکانوا مائۃ وعشرون الفا وقال ’’من کنت مولاہ فعلی مولاہ‘‘الحدیث۔نص علیٰ ذلک بصریح العبارۃ دون تلویح والاشارۃ(تذکرۃ الخواص،ص۳۷)تاریخ اسلام کے ماہرین کا اتفاق ہے کہ واقعہ غدیررسول خدا کی حجۃ الوداع سے واپسی پر ۱۸ذی الحجہ کو رونما ہوا ایک لاکھ بیس ہزار اصحاب وانصار موجود تھے اپنے خطبہ میں نبی اکرم نے فرمایاجس جس کا میں مولا ہوں اسکے یہ علی بھی مولا وراہبر ہیں ۔اس روایت میں نہ کنایہ ہے نہ اشارہ بلکہ صراحت کے ساتھ آنحضرت نے حضرت علی کو پیشوا وراہبر قرار دیا ہے۔

گذشتہ صفحات پر جن آٹھ علما کا تذکرہ کیا گیا ہے ان کے علاوہ مندرجہ ذیل علما نے بھی کثرت طرق ،تواتر اور اجماع کا دعویٰ کیا ہے:

۱۔علامہ اسماعیل بن محمد العجلونی الجراحی(متوفی: ۱۱۶۲ھج)

۲۔محمد ابن اسماعیل صنعانی(متوفی:۱۱۸۲ھج)مولف کتاب سبل السلام ،یہ معتبر کتاب ہے،بارہویں صدی کے اہلسنت کے نایاب ومشہور عالم ہیں۔

۳۔محمد ابن جعفر کتانی(متوفی:۱۳۴۵ھج)چودہویں صدی کے مشہور سنی عالم۔

۴۔شعیب: معاصر سنی محقق جس نے بہت سی کتابوں کی تحقیق وتصحیح کیا ہے۔جسمیں تہذیب الکمال،سیر اعلام النبلا،مسند احمد وغیرہ قابل ذکر ہیں

مسند احمد کی تحقیق میں حدیث نمبر ۳۰۶۲ کے ذیل میں کچھ نکات درج کئے ہیں انمیں سے ایک یہ ہے:قولہ ’’من کنت مولاہ فعلی مولاہ‘‘لھا شواھد کثیرۃ تبلغ حد التواتر(الاحادیث مذیلۃ باحکام شعیب الارنئووط علیھا،ج۱،ص۳۳۰،ذیل حدیث نمبر ۳۰۶۲)

صحت روایت غدیرـ:

چونکہ اس حدیث کا متواتر ہونا مسلم ہے لہذا صحت حدیث کی بحث کی بہت زیادہ ضرورت نہیں ہے لیکن پھر بھی ہم سنن اربعہ میں سے دوکا تذکرہ کررہے ہیں جنمیں حدیث غدیر مذکور ہے اور اس سلسلہ میں البانی کا نظریہ بھی پیش کریں گے یہ بات واضح ہے کہ حاکم نیشاپوری اور دیگر بزرگان نے بھی اس حدیث کی صحت کا اعتراف کیا ہے جس کو طوالت کے خوف سے ذکر نہیں کریں گے۔

۱۔ترمذی کی روایت طفیل سے:

حدثنا محمد بن بشار حدثنا محمد بن جعفر حدثنا شعبۃ عن سلمۃ بن کھیل قال سمعت اباالطفیل یحدث عن ابی سریحۃ اوزیدبن ارقم شک شعبۃ عن النبی قال ’’من کنت مولاہ فعلی مولاہ‘‘قال ابو عیسیٰ ھذا حدیث حسن غریب وقد روی شعبۃ ھذاالحدیث عن میمون ابن عبداللہ عن زید بن ارقم عن النبی نحوہ وابو سریحۃ وھو حذیفۃ بن اسید الغفاری صاحب النبی (سنن ترمذی،کتاب فضائل الصحابۃ باب مناقب علی ابن ابی طالب)ابی سریحہ یا زید ابن ارقم(شک شعبہ کی طرف سے ہے)نے رسول خدا سے نقل کیا ہے کہ آنحضرت نے فرمایا جسکا میں مولا ہوں اس کے یہ علی بھی مولا ہیں ۔یہ حدیث حسن اور صحیح ہے ۔شعبہ نے یہ روایت میمون ابن عبد اللہ سے انھوں نے زید ابن ارقم سے انھوں نے رسول اکرم سے نقل کیا ہے ابوسریحہ وہی حذیفہ بن اسید غفاری ہیں جو صحابی رسول ہیں۔

محمد ناصر البانی نے اس روایت کو نقل کرنے کے بعد لکھا ہے:ترمذی نے اسکو نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ روایت حسن اور صحیح ہے اور میں کہتا ہوں کہ اس کی سند ان شرائط کے مطابق ہے جن کوبخاری ومسلم نے صحت کےلئے بیان کیا ہے اور صحیح ہے(الصحیح والضعیف سنن الترمذی۔ البانی۔ذیل حدیث ۳۶۴۶)

۲۔ابن ماجہ کی روایت سعد ابن ابی وقاص سے:

حدثنا علی ابن محمد حدثنا ابو معاویۃ حدثنا موسی بن مسلم عن ابن سابط وھو عبد الرحمن عن سعد بن ابی وقاص قال قدم معاویۃ فی بعض حجاتہ فدخل علیہ سعد فذکروا علیا فنال منہ فغضب سعد وقال تقول ھذاالرجل سمعت رسول اللہ۔صلعم۔یقول ’’من کنت مولاہ فعلی مولاہ‘‘وسمعتہ یقول’’انت منی بمنزلۃ ھارون من موسی الا انہ لانبی بعدی‘‘وسمعتہ یقول’’لاعطین الرایۃ الیوم رجلا یحب اللہ ورسولہ‘‘(سنن ابن ماجہ،باب فضل علی بن ابیطالب،ح۱۱۸)عبد الرحمن معروف بہ سابط نے سعد ابن ابی وقاص سے نقل کیا ہے کہ ایک سال حج کیلئے معاویہ مکہ گیا جہاں سعد ابن ابی وقاص سے ملاقات کیا حاضرین معاویہ کو خوش کرنے کیلئے حضرت علیکی منقصت کررہے تھے سعد یہ سنکر غصہ ہوگیا اور کہا ایسی نازیبا گفتگو اور غیر عاقلانہ باتیں اس عظیم ہستی کے بارے میں جس کے بارے میں نبی اکرم سے میں نے سنا ہے:جس جس کا میں مولا ہوں اس کے یہ علی مولا ہیں]میں نے سنا ہے کہ رسول خدا نے علی کو خطاب کلرکے فرمایا تمہاری مجھ سے منزلت وہی ہے جو ہارون کی موسی سے تھی بس فرق یہ ہے کہ میرے بعد نبی نہیں آئے گا‘‘میں نے سنا ہے کہ آنحضرت نے فرمایا’’ آج میں علم اسکو دوں گا جو خداورسول کا دوست ہوگا‘‘

البانی نے اس روایت کو نقل کرنے کے بعد تحریر کیا ہے: اخرجہ ابن ماجہ قلت واسنادہ صحیح(الصحیح والضعیف سنن ابن ماجہ ذیل حدیث)

۳۔ ابن ماجہ قزوینی نے برا بن عازب سے:

حدثنا ابو الحسین اخبرنی حماد ابن سلمۃ عن علی ابن زید بن جدعان عن عدی بن ثابت عن البرا بن عازب قال اقبلنا مع رسول اللہ۔صلعم۔فی حجتہ التی حج فنزل فی بعض الطریق فامر بالصلاۃ جامعۃ فاخذ بید علی ۔َرضی اللہ عنہ۔فقال ’’الست اولیٰ بالمومنین من انفسھم قالوا بلیٰ قال الست اولیٰ بکل مومن من نفسہ قالوا بلیٰ قال فھذاولی من انا مولاہ اللھم وال من والاہ وعاد من عاداہ‘‘(سنن ابن ماجہ،باب فضل علی بن ابیطالب،ح۱۱۳)عدی ابن ثابت نے برا ابن عازب سے نقل کیا ہے حجۃ الوداع میں رسول خدا کی معیت کا شرف حاصل ہوا واپسی میں ایک راستہ پر چلتے چلتے حکم دیا کہ نماز کیلئے جمع ہو وہاں حضرت علی کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا کیا میں مومنوں پر ان سے زیادہ اولیٰ وبرتر نہیں ہوں؟ سب نے تصدیق کیا پھر فرمایا کیا میں ایک ایک مومن کے نفس پر اس سے زیادہ برتر واولیٰ نہیں ہوں پھر سب نے تصدیق کیا اور ہاں کہا پھر حضرت علی کی طرف اشارہ کرکے فرمایا کہ اب جبکہ میری باتوں کی تصدیق کردیا ہے تو جان لو کہ علی بھی مومنین کے بہ نسبت وہی مقام رکھتے ہیں جو مجھے حاصل ہے۔پھر فرمایا خدا اسکو دوست رکھنا جو علی کو دوست رکھے اور اسکو دشمن رکھنا جو علی کو دشمن رکھے۔

البانی نے روایت نقل کرنے کے بعد لکھا ہے کہ یہ صحیح ہے (الصحیح والضعیف سنن ابن ماجہ ذیل حدیث۱۱۳)

تواتر،اجماع اور صحت حدیث غدیر کو علما اہلسنت کے اقوال کی روشنی میں بیان کرنے کے بعد بہت مناسب  معلوم ہوتاہےکہ اہلسنت علمائ کی ان کتابوں کا ذکر کیا جائے جو اس سلسلے میؓں قلم بند ہوئی ہیں۔

کتب علما اہلسنت سند حدیث غدیر کے حوالہ سے:

اسناد حدیث غدیر اتنی وسیع ہیں کہ بعض اہلسنت علما نے اس کے جمع کرنے کیلئے مجبوراًایک مستقل کتاب ترتیب دیا ہے جو شک وشبہ سے بالاتر ہیں:

۱۔محمدابن جریر طبری(متوفی:۳۱۰ھج)

محمد ابن جریر طبری ان لوگوں میں سے ہیں جنھوں نے اسناد حدیث غدیر پر چار جلد مرتب کیا ہے۔

۲۔ابوالعباس ابن عقدہ(متوفی:۵۳۳ھج)

روایات غدیر کو ایک کتاب کی شکل میں جمع کیا ہے بہت اسناد اسکے صحیح اور حسن ہیں۔

۳۔شمس الدین ذھبی(متوفی:۷۴۸ھج)

تذکرۃ الحفاظ میں حدیث طیر وحدیث غدیر کے سلسلے میں لکھتے ہیں:حدیث طیر کے بہت سے اسناد ہیں جس کو میں نے ایک مستقل کتاب میں جمع کیا ہے ان سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ حدیث واقعیت رکھتی ہے ۔حدیث غدیر بھی اچھے اسناد کے ساتھ مروی ہے اس کےلئے بھی ایک مستقل کتاب تحریر کیا ہے(تذکرۃ الحفاظ،ج۳،ص۱۰۴۳۔مولف ابو عبداللہ شمس الدین ذھبی۔متوفی ۷۴۸ھج)

ہم نے بزرگ علما اہلسنت کے صحت حدیث غدیر سے متعلق اعترافات کو مختصراً نقل کردیا ہے تفصیلات کیلئے الغدیر۔ج۱۔ص۲۹۴ پر مراجعہ کریں۔ علامہ امینیؒ نے ۴۳ ان علما اہلسنت کا نام درج کیا جنھوں نے صحت حدیث غدیر کی تصریح کیا ہے۔

 

 

 

 

 

#islam#quraan#imamat#ideology#iran#ghadeer#khum#prophet#muhammad#karbala#saqeefa#zahra#eid#jashn#maula#hadith#rawi#ahlesunnat#takfiri#wahabiyat#yahusain#aashura#azadari#mahfil#majlis#

#اسلام#قرآن#امامت#غدیر#خم#حدیث#راوی#عقاید#محمد#عاشورا#کربلا#سقیفہ#خلافت#ملوکیت#عمر#ابو بکر#عثمان#علی#صحابی#صحابیات#تاجپوشی#

 

No comments:

Post a Comment

مادران معصومین ع ایک تعارف۔8۔

  آپ امام موسی کاظمؑ کی والدہ تھیں ، تاریخ سے ان کی ولادت با سعادت کی اطلاع نہیں ملتی ہے۔ آپ کے والد کا نام صاعد بربر یا صالح تھا،...