Saturday, 11 November 2023

صادق آل محمد علیہ السلام کا فرھنگی انقلاب

صادق آل محمد کا فرہنگی انقلاب
پیغمبر اکرم حضرت محمد مصطفےٰ نے اپنی ترسٹھ سالہ حیات طیبہ میں علم وفرہنگ کی تخم ریزی عرب کے ریگزار میں حوصلہ شکن ومشکل ترین حالات کے باوجود کیا تھا تاکہ بشریت کو جادہ علم وعرفان،فرہنگ وتمدن سے آشنا کیا جاسکے ، اس پودے  کو خون جگر سے سیراب کرکے حیوان صفت افراد کو انسان اور درندہ خو روسا ئ قبائل کے دلوں میں راٗفت وعطوفت کو جاگزین فرمایا تھا ،وصال پیغمبر اکرم کے فورا بعد جہالت وجاہلیت کے خوگروں کے ہاتھوں قتنہ وفساد کے باد سموم میں پودہ مرجھانے لگا تھا گرچہ عالم اسرار ربانی،عالم علم لدنی ،مظہر صفات وکمالات الہی،نفس رسالت خداوندی حضرت علی نے اپنی عصمتی تدابیر سے سوکھنے اور مرجھانے نہیں دیا وقتا فوقتا اسکی آبیاری کرتے رہے۔
تاریکیوں کے دلدادہ چند گنے چنے افراد نے علم وفرہنگ کے اختر تاباں پر خلافت وملوکیت کی گرد ڈالکر اسکی روشنی کو مدھم کرنے کی انتھک کوششیں کیا مگر خاطر خواہ نتائج حاصل نہیں ہوئے،علم ودانش ،فرہنگ وثقافت کی عطر آگین فضا کو متعفن کرنے کی کوششیں ہوتی رہیں مگر’ینحدر عنی السیل ولایرقی الی الطیر ‘(مجھ سے علم وعرفان کے چشمے پھوٹتے ہیں طائران فکر وخیال کی میرے ایوان عظمے کی اونچائی تک رسائی نہیں ہے)کا حامل اپنے علم وعرفان کی خوشبو سے فضائے عالم کے تعفن کو ختم کرتا رہا۔
فتنہ وفساد کے رسیا تانے بانے بنتے رہے مگر فرہنگ وثقافت اور علم ودانش کی اس آفاقی تحریک جسکی تشکیل وتاسیس دست رسالت کے ذریعہ عمل میں آئی تھی اس کے اثرات وبرکات کو محو نہ کرسکے ،ہاں وقتی طور پر اس کی گرفت کمزور ہوئی جس کے نتیجہ میں خوف وہراس،حقائق ومعارف سے دوری،انسانی کمالات وفضائل سے عاری ایک گروہ تیار ہوگیا جس کے آثار شوم آج بھی عالم اسلام میں گاہے بگاہے نظر آتے رہتے ہیں ۔اس دور میں بنی ہاشم اور چند مخلص ومتدین افراد کے علاوہ ہر ایک اس فتنہ سے متاثر ہوگیا کچھ اس فتنہ کاحصہ بن گئے کچھ کو خرید لیا گیا کچھ سادہ لوح افراد کو دھوکے کے ذریعہ اس فتنہ کی آگ کو شعلہ ور کرنے کیلئے اس کا حصہ بنا دیا گیا اور اس طرح بشریت کو دھیرے دھیرے زوال وانحطاط کے کھنڈر میں ڈھکیل دیا گیا۔
امیر کائنات حضرت علی ابن ابی طالب نے اس فتنہ کے وسیع ہونے کے اسباب وعلل کو بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: لَمْ يَسْتَضِيئُوا بِأَضْوَاءِ الْحِكْمَةِ - ولَمْ يَقْدَحُوا بِزِنَادِ الْعُلُومِ الثَّاقِبَةِ - فَهُمْ فِي ذَلِكَ كَالأَنْعَامِ السَّائِمَةِ - والصُّخُورِ الْقَاسِيَةِ قَدِ انْجَابَتِ السَّرَائِرُ لأَهْلِ الْبَصَائِرِ - ووَضَحَتْ مَحَجَّةُ الْحَقِّ لِخَابِطِهَا - وأَسْفَرَتِ السَّاعَةُ عَنْ وَجْهِهَا - وظَهَرَتِ الْعَلَامَةُ لِمُتَوَسِّمِهَا - مَا لِي أَرَاكُمْ أَشْبَاحاً بِلَا أَرْوَاحٍ - وأَرْوَاحاً بِلَا أَشْبَاحٍ - ونُسَّاكاً بِلَا صَلَاحٍ - وتُجَّاراً بِلَا أَرْبَاحٍ - وأَيْقَاظاً نُوَّماً - وشُهُوداً غُيَّباً - ونَاظِرَةً عَمْيَاءَ - وسَامِعَةً صَمَّاءَ - ونَاطِقَةً بَكْمَاءَ(نہج البلاغہ خطبہ نمبر ۱۰۸)
ان ظالموں نے حکمت کی روشنی سے نور حاصل نہیں کیا اور علوم کے چقماق کو رگڑ کرچنگاری نہیں پیدا کی۔اس مسئلہ میں ان کی مثال چرنے والے جانوروں اور سخت ترین پتھروں کی ہے۔بے شک اہل بصیرت کے لئے اسرار نمایاں ہیں اورحیران و سرگرداں لوگوں کے لئے حق کا راستہ روشن ہے۔آنے والی ساعت نے اپنے چہرہ سے نقاب کوالٹ دیا ہے اور تلاش کرنے والوں کے لئے علامتیں ظاہر ہوگئی ہیں آخر کیا ہوگیا ہے کہ میں تمہیں بالکل بے جان پیکر اور بلا پیکر روح کی شکل میں دیکھ رہا ہوں۔تم وہ عبادت گذار ہوجو اندر سے صالح نہ ہو اور وہ تاجر ہو جس کو کوئی فائدہ نہ ہو۔وہ بیدار ہو جو خواب غفلت میں ہو اوروہ حاض ہوجو بالکل غیر حاضر ہو۔اندھی آنکھ ' بہرے کان اور گونگی زبان'
سیاسی بازیگر اور صاحبان مسند نے فتنہ گروں کی ہمہ جہت حمایت وتائید کے ذریعہ اپنے لئے رائے عامہ ہموار کرنے کی ہر ممکن کوشش کیا،اجماع،شوری،استخلاف جیسے کھوکھلے قوانین کے سہارے علم وعرفان کے سیل رواں پر سد سکندری باندھنے کیلئے زبان وقلم ،فکر وخیال کی خرید وفروخت سے لیکر قید وبند،قتل وغارتگریجیسے گھنائونے اور انسانیت سوز جرائم کے ارتکاب سے بھی گریز نہیں کیا،دار ورسن ،تبعید ودربدر ،آزار واذیتمظلم وستم روا رکھا گیا۔علم وفرہنگ کا جہاں کہیںں ایک بھی چراغ سحری نظر آجاتا اسکو بجھانے کے ہزار جتن کئے جاتے تاکہ حقائق پر تاریکی کی چادر اتنی دبیز ہوجائے کہ جنھوں نے ابھی صحن اسلام میں آنکھیں کھولی ہیں انھیں حقیقت نظر نہ آئے اور کچھ باطل دھندھلکے سایہ ہی حقائق کا روپ دھار لیں بظاہر اس شاطرانہ چال میں انھیں کامیابی بھی ملی مگر یہ حقیقت بھی ہر چشم بینا کےلئے روشن ہے کہ معدودے چند ہی چراغ علم وعرفان سہی تھے ضرور۔جنکی روشنی ارباب بصیرت ،طالبان حق وحقیقت کی زندگیوں کو منور کرتی رہی۔
تاریخ کا ہر انصاف پسند طالبعلم اس حقیقت سے باخبر ہے کہ اندھیروں کے ان سوداگروں ،تاریکیوں کو پھیلانے والے اس گروہ میں بھی مرور ایام کے ساتھ دراڑیں پڑتی نظر آنے لگیں ،مدت مدید تک اندھیروں کا راج ضرور رہا مگر گھٹاٹوپ اندھیروں میں نور علم وفرہنگ کی کرن کہیں کہیں ضرور پردہ بصارت سے ٹکرا کر اپنے وجود کا پتہ دیتی رہی اور حق جووحقیقت طلب ذہنوں،فکروں اور شعور کو منور کرتی رہی۔
علم وجہل،نور وظلمت ،اندھیرے اجالے کی باہمی کشمکش کا جو سلسلہ وفات مرسل اعظمﷺ کے بعد شروع ہواتھا وہ روز بروز بڑھتا رہا مگر ہر عروج کو زوال اور ہر ترقی کا انحطاط بھی مسلمہ حقیقت ہے جو اس سلسلہ میں بھی نظر آتا ہے بنی امیہ کی سانسیں اکھڑ رہی تھیں اور بنی عباس تواناوتندرست ہورہے تھے دونوں گروہ میں سیاسی چپقلش ،جنگ وجدال کا رخ اپنا رہی تھی ایسے حالات میں امام محمد باقر وامام جعفر صادق علیہم السلام نے موقعہ وفرصت کو ہاتھ سے جانے نہ دیابلکہ علم وفرہنگ پر پڑی برسوں کی دبیز گرد کو اپنے تیشہ حکمت سے کھرچ کر صاف وشفاف بنانے کا مستحکم منصوبے کو عملی جامہ پہنایا اندھیروں کا راج ختم ہوتا گیا اجالے کی حکمرانی قائم ہوگئی جہالت کافور اور علم کا بول بالا ہوگیا۔
امام جعفر صادق نے حالات کی سیاسی ابتری سے خوب استفادہ کیا اور اساسی وبنیادی اقدامات انجام دیئے ،دین فروش علما اور نامرفاد وناکام حکام وسلاطین  کے ذریعہ فرہنگ ناب اسلامی کی تحریف کا عمل جو برسوں سے چلا آرہا تھا اسکی اصلاح ،حقیقی فرہنگ کی تبیین وتشریح،تبلیغ وترویج کا عمل انجام دیا اور ایک ناقابل یقین فرہنگی انقلاب برپا کیا جسکا اعتراف ہر علم دوست،منصف مزاج کرتا ہو انظرآتاہے۔
مورخین وسیرت نگاروں کے بیانات سے پتہ چلتا ہے کہ امام کے ذریعہ لائے گئے گرہنگی انقلاب کی تقویت وہمہ گیری کا ایک سبب اور راز یہ تھا کہ دوسری اور تیسری صدی ہجری میں اسلامی فرہنگ کا غیر اسلامی فرہنگ سے صمیمانہ رابطہ قائم ہوا جس کے بعد بیت الحکمت(یہ ایک علمی مرکز تھا جو مامون عباسی کے ذریعہ بغداد میں قائم ہوا،ایک عظیم کتابخانہ کی تاسیس عمل میں آئی جسمیں مترجمین کے ایک گروہ کی مدد سے کتابوں کا ترجمے کا کام انجام پاتا۔تفصیلات کیلئے لغتنامہ دھخدا کا مطالعہ کریں)کی تاسیس عمل میں آئی عربی زبان میں کتابوں کے ترجمے ہوئے،جدید نسل جو ابھی ابھی دائرہ اسلام میں آئی تھی وہ مختلف اقوام وملل سے رابطہ مین تھی جس کے نتیجہ میں انکے فکری وعلمی مواد عالم اسلام میں وارد ہورہے تھے گرچہ اس فکری وفرہنگی تبدیلی کے مثبت اثرات بھی تھے لیکن منفی اثرات زیادہ تھے مسلمانوں میں اغیار کے افکار کا نفوذ جس کے سبب مختلف مکاتب فکر نے جنم لینا شروع کردیا جو عالم اسلام کیلئے بہت عظیم خطرہ بنتا جارہاتھا۔ایک طویل عرصہ تک مسلمانوں کی نئی نسل فضائے عالم پر چھائی ہوئی خوف وہراس کی دبیز چادر کے باعث،اسلامی معاشرہ میں غیر معقول سیاسی حکمرانی اور حقائق کی تبیین وتشریح کی مسدود راہوں نے حقیقی اسلام کے مبادیات کو بھی ذہنوں سے دور کردیا تھا حالات اتنے ابتر تھے کہ پہلے خلیفہ عباسی کے تخت حکومت پر بیٹھنے کے بعد شام کا ایک گروہ مبارکباد کیلئے دربار میں حاضر ہوا تو قسم کھاکر کہتا ہے ہمیں نہیں پتہ تھا کہ بنی امیہ کے علاوہ بھی نبی اکرمﷺکا کوئی قرابتدار ورشتہ دار  ہے لیکن جب آپ نے قیام کیا تو ہمیں معلوم ہوا(مروج الذھب ج۳،ص۳۳) 
اسلامی معاشرہ پر چوطرفہ فرہنگی حملہ ہورہا تھا ،علمی مباحثات،مناظرہ کلامی کا بازار گرم تھا،ہر صبح ایک نئے مکتبہ فکر کے ساتھ طلوع ہورہی تھی،ہر مکتبہ فکر اپنے عقائد وافکار کی ترویج کیلئے علمی مسندیں سجائے ہوئے تھا،مجادلہ کا اسلوب عام ہوگیا تھا امام نے محسوس کیا علم کی مستحکلم وجامع تحریک چلانا لازم وضروری ہے کیونکہ عصر امام صادق میں سر اٹھانے والافتنہ ماضی کے فتنہ سے زیادہ خطر ناک تھا یہ زمانہ افکار وعقائد کی جنگ کا زمانہ تھا ،فرق ومذاہب کے ٹکراو کا دور تھا ،قرآنی مباحثات پر دور گروہ باہم دست وگریباں تھے،تفسیر وتاویل پر مختلف نظریات متصادم ،نام نہاد علما کرسی فقاہت پر براجمان تھے جو خود ساختہ وجعلی روایات کے سہارے فقہی مسائل بیان کررہے تھے ،قیاس واستحسان کو دلیل شرعی سمجھاجانے لگاتھا ،شہروں اور کوچوں میں ایسے فقہا کی بھیڑ نظر آتی
 تھی،حنفی،مالکی،شافعی،حنبلی فقہ کے علاوہ حسن بصری،سفیان ثوری جیسے افراد رہبران مذہب کے نام سے پہچانے جاتے تھے جن کے چشم وابرو کے اشارے پر مرید گردش پرکار بنے ہوئے تھے،علم کلام کے مسائل پر ہیجان انگیز بحث ومباحثے عام تھے جسکا اثر معتزلہ،اشاعرہ،مرجئہ ودیگر ٹکڑوں کی صورت میں اسلامی سماج میں پنپ رہاتھا،زندیق کے مردہ پیکر میں تازہ روح پھونکنے کی سعی ناکام ہورہی تھی(سیری در سیرہ ائمہ اطہار مولفہ شہید مطہری،ص۱۴۶)ان ناگفتہ بہ حالات میں امام جعفر صادق نے جو اقدامات کئے انکا جائزہ ہمیں اس نتیجہ پر پہونچاتاہے کہ اگر امام کی عصمتی نگاہیں نہ ہوتیں تو شیرازہ اسلام ایسا بکھر جاتا کہ پھر اکٹھا کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف نہیں بلکہ اس سے بھی زیادہ مشکل ودشوارہوتا۔
امام جعفر صادق اور فرہنگی اقدامات:
صادق آل محمد نے دین اسلام کے دفاع اور اسکی تبلیغ وترویج کی خاطر مختلف النوع ذرائع کو اختیار فرمایا،مناظرہ،علمی مباحثات،مستحکم ومتقن دلائل وبراہین کے ذریعہ ریت پر قائم مذاہب ومکاتب کی بنیادوں کو تہس نہس کردیا اسلامی معاشرہ میں علمی وفکری انقلاب ایسا برپاکیا کہ تشنگان علوم ومعارف کا ایک جم غفیر اکٹھا ہوگیا اور چشمہ زلال معارف الہیہ سے گھونٹ گھونٹ پیکر سیراب ہونے لگا۔
امام نے مختلف علوم وفنون کے مردہ اجسام میں تازہ روح پھونک دیا علوم قرآن ،تفسیر وحدیث،فقہ وکلام،طب وفلسفہ،نجوم وریاضیات کے بنیادی اصولوں کو زندگی عطا کیا اور ایسی تبدیلی پیدا کیا کہ جس سماج ومعاشرہ میں علم ودانش کی باتیں عجوبہ سمجھی جاتی تھی اسی سماج وسوسائٹی میں فکری وعلمی سرمایہ داروں کی بھیڑ نظر آنے لگی،علم وعرفان کا بازار سج گیا اور متاع فکر وفرہنگ کے قدر داں کی رفت وآمد شروع ہوگئی برسوں سے ویران پڑی مسجد نبوی تشنگان علوم سے چھلک اٹھی شاگردوں کا ایک عظیم لشکر تیار کیا جو ہر محاذ علمی پر ایک ماہر فن بنکر مقابلہ کیلئے ڈٹ گیا تاریخ آدمیت میں علم وفن کا ایسا سنہرا دور نایاب نہیں تو کمیاب ضرور ہے۔
مکتب صادق کے تربیت یافتہ ہشام بن حکم،مومن طاق،محمد بن مسلم اور زرارہ بن اعین وہ روشن ستارے ہیں جنکی روشنی جہالت کی گہرائی وگیرائی نیز وسعتوں کو ناپنے کیلئے سنگ میل کی حیثیت رکھتے ہیں،علم وفرہنگ کا یہ سیلاب نہ جغرافیائی حد بندیوں میں قید کیا جاسکا نہ سازشی تانے بانے روک سکے دیکھتے دیکھتے پورے عالم انسانیت سے جہالت وجاہلیت کے خس وخاشاک کو وادی نسیاں کی زینت بنا گئے علم وفرہنگ کا چراغ آج بھی روشن وتابندہ ہے۔
خوف طوالت کے پیش نظر ہم اس مضمون میں امام کے چند اہم اقدامات کا فہرستوار تذکرہ ہدیہ ناظرین کرنے کی سعادت حاصل کررہے ہیں:
۱۔امامت کی عظمت رفتہ کی بازیابی:اسلامی سماج میں اموی وعباسی خلفا کی غلط پالیسیوں کے باعث مقام امامت متروک اور عظمت منصب خلافت پائمال ہورہی تھی درباری علما کو عوام میں متعارف کراکے عوام کو ائمہ معصومین سے دور کیا گیا مگر وہ عظمت رفتہ پھر عصر امام صادق میں اہلبیت کی لوٹی امام صادق نے مختلف مواقع پر مسئلہ امامت کی اہمیت وافادیت کو پیش کرکے ذہنوں میں راسخ کیا ،عمرو بن ابی مقدام بیان کرتا ہے نویں ذی الحجہ روز عرفہ میدان عرفات مین خلائق کا اژدحام ان خاص اعمال کو انجام دینے کےلئے دنیا کے گوشہ وکنار سے جمع ہواتھا امام نے موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے پیغام دیا: ایھاالناس ان رسول اللہ کان الامام ثم کان علی بن ابی طالب ثم الحسن ثم الحسین ثم علی بن الحسین ثم محمد بن علی ثم ۔۔۔۔۔۔۔(بحار الانوار ،ج۴۷،ص۵۸)اے لوگو! اللہ کی طرف سے امام نبی تھے پھر علی پھر حسن پھر حسین پھر علی ابن الحسین پھر محمد ابن علی علیہم السلام 
امام نے بآواز بلند فرمایا آواز اتنی بلند تھی گویا ہر ایک کو اپنی طرف متوجہ ہونے پر مجبور کردیااور حجاج کے عالمی اجتماع کے ذریعہ اپنا پیغام دنیا کے گوشہ وکنار تک پہونچایا،روایت کی لفظوں سے پتہ چلتاہے کہ امام نے تین مرتبہ اس پیغام کی تکرار کیا اور ہر سمت رخ بدل بدل کر تین بار پیغام سنایا جو خود اپنے آپ میں پیغام کی اہمیت وعظمت کا پتہ دیتاہے
۲۔شاگردوں کی تعلیم وتربیت:سیاسی حالات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اور سماج کی ضرورتوں کے پیش نظر جس علمی وفرہنگی تحریک کی بنیاد امام محمد باقر نے رکھی تھی اس کے استحکام،توسیع،اور جامعیت وہمہ گیریت کے تمام مواقع سے بھر پور فائدہ اٹھایا چنانچہ اہل سنت کے چاروں فقہی مذاہب کے ائمہ بالواسطہ یا بلا واسطہ آپ کی شاگردی میں رہے ،لولا السنتان لھلک النعمان آج تک آپ کی علمی جلالت کا بزبان دشمن زندہ قصیدہ ہے۔اس کے علاوہ شاگردوں کی ایک طویل فہرست ہے جسمیں ہر ایک اپنے فن کا نابغہ نظر آتا ہے۔
۳۔معاشرتی اخلاق کی ترویج ومسالمت آمیز طرز معاشرت:ائمہ معصومین نے ہمیشہ سماجی اصولوں اور اجتماعی اخلاق کے دنیوی واخروی فوائد وبرکات کا تذکرہ اور تاکید فرمائی ہے اپنے چاہنے والوں سے ہمیشہ یہی مطالبہ کرتے کہ حتی المقدور برادرانہ انداز،صلح وصفا کے ساتھ زندگی بسر کریں امام صادق نے فرمایا تھا :اللہ مدارات کرنے والاہے اور مدارات کو دوست رکھتا ہے اور لوگوں کی مدارات کی راہ میں امداد کرتاہے(وسائل الشیعہ،ج۱۵،ص۲۷۱)
امام نے ہمیشہ شیعوں کو اس بات کی تاکید فرمایا کہ سماج میں بسنے والے دیگر مذاہب کے ماننے والوں کے ساتھ مسالمت آمیز رویہ اختیار کرو تاکہ شیعہ سماج اکثریت سے الگ تھلگ نہ ہونے پائے۔
۴۔تجلیل علم وتکریم علما:امام جعفر صادق نے اپنے شاگردوں کو تحصیل علم ومعرفت کا شوق دلایا ان سے فرماتے تھے میں جوانوں کو دو حالت میں سے ایک حالت میں دیکھنا چاہتاہوں یا عالم ہو یا طالبعلم ،ورنہ دونوں مقصر ہوں گے اور ہر تقصیر کرنے والا گمراہ اور ہر گمراہ گنہگار ہے(صفحاتی از زندگانی امام جعفر صادق ،محمد حسین مظفر،ص ۲۲۰)
کائنات امام جعفر صادق کی اس علمی تحریک کی مدیون ہے جس نے معارف الہیہ کے مرجھاتے ہوئے باغ کو سبزہ زار بنادیا،انوار علم وعرفان سے کائنات روشن ہوگئی ،اوہام وباطل عقائد کا گھروندا تہس نہس ہوگیا اس عظیم تحریک کی جامعیت ،افادیت ،فوائد وبرکات نیز اثرات دیکھکر دنیا دم بخود ہے  جہالت کے پروردہ کف افسوس مل رہے ہیں وعدہ پروردگار تبسم ریزی کررہاہے دشمن اسلام وقرآن حسرت ویاس سے تک رہے ہیں۔
یہ چند سطریں مشتی نمونہ از خروارہ کے عنوان سے قلم بند کردیا ہے ورنہ اس عنوان کے چند صفحات ناکافی ہیں اور مجھ سے طالبعلم کی سطح علمی سے بہت بالاتر ۔خدایا ہمیں انھیں انوار کے طفیل اپنے معارف کی روشنی عطا کر۔
منہال رضا خیرآبادی
جامعہ حیدریہ مدینۃ العلوم خیرآباد ضلع مئو 

#الشیعہ#قرآن#حدیث#امام_صادق#اسلامیات#فرھنگ#انقلاب
#shia
#quran#imam
#sadiq#islamic#culture
#iran#iraq#karbala
#qom#mashad

عزاداری امام حسین ع اہل سنت کی نظر میں

عزاداری اہلسنت کی نگاہ میں
منہال رضا خیرآبادی 

عزاداری یعنی تسلی و تشفی کا سامان فراہم کرنا، صبر و تحمل کی تلقین کرنا، اسلامی سماج و معاشرہ میں عزاداری ایک وسیع مفہوم کا حامل ہے، ائمہ معصومینؑ، بزرگان دین، شہدائے راہ اسلام پر ڈھائے گئے مظالم کی یاد، ان کے اہداف کی بقاء اور احیاء کیلئے مراسم عزا کا انعقاد کرنا، گریہ و زاری، غم و الم کی کیفیت، مصیبت دیدہ افراد سے ہمدردی کا اظہار عزاداری کے اجزاء ہیں گرچہ مرور ایام کے ساتھ لفظ عزاداری ماہ محرم الحرام میں امام حسینؑ اور ان کے با وفا اصحاب کی عدیم المثال قربانی کی یاد سے مختص ہو گیا ہے جس کے اہداف و مقاصد پر غور و فکر سے اس یاد کی اہمیت، وسعت و جامعیت سے کسی با شعور کے انکار کی گنجائش باقی نہیں رہ جاتی ہے، رہبران دینی کی حقیقی معرفت، جذبہ مودت اہلبیتؑ میں استحکام، حقائق و معارف الہیہ سے باخبر ہونا، نہضت حسینی کی صحیح تفسیر و تشریح، خاندان رسالت سے ہمدردی و ہمدلی کو تقویت پہونچانا اہمترین مقاصد عزاداری میں سے ہیں۔ 
عزاداری نہ کسی قوم و ملت، مذہب و مسلک سے مختص ہے نہ کسی علاقہ سے، ہر دور اور ہر زمانہ میں عزاداری مختلف اقوام و قبائل میں اپنے اپنے طریقہ پر رائج رہی ہے، ابتدائے انسانیت سے عزاداری کا رواج تاریخی شواہد کی بنیاد پر ملتا ہے، قتل جناب ہابیل پر حضرت آدمؑ ابو البشر کی عزاداری کا تذکرہ صفحات قرطاس پر آج بھی ثبت نظر آتا ہے، اس بنیاد پر یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ عزاداری کی تاریخ اتنی ہی پرانی ہے جتنی تاریخ انسانیت ۔ظلم و استبداد سے نفرت رکھنے والے غیر مسلم برادران وطن بھی عزاداری کے پروگرام میں بڑے انہماک سے سرگرم عمل نظر آتے ہیں، وطن عزیز ہندوستان کے مختلف شہروں، دیہاتوں میں تعزیہ داری، ماتم، نوحہ و سینہ زنی کی صفوں میں برادران نہایت تزک و احتشام، عقیدت و محبت سے نہ صرف یہ کہ شامل ہوتے ہیں بلکہ اپنے لئے افتخار سمجھتے میں، سیاہ لباس میں ملبوس، گھروں میں شبیہیں سجائے، گھروں پر علم لگانے کی روایت بہت قدیمی ہے تعزیہ بنانے والے فنکار ہوں یا نوحہ خوان، کاندھوں پر ضریح اٹھانے والے عقیدتمند ہوں یا علم و گہوارے کے سامنے سر عقیدت جھکانے والے افراد ہر ایک صف میں صرف ہمارے مسلمان بھائی نہیں بلکہ غیر مسلم برادران وطن بھی نہایت ہی پر جوش انداز میں نظر آتے ہیں۔
واقعہ کربلا کی عظیم قربانی نے دنیا و انسانیت کے ہر حق پسند سماج اور منصف مزاج معاشرہ، دردمند ثقافت کو متاثر کیا ہے جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ صرف کلمہ گو نہیں بلکہ وہ افرادجو کفر و الحاد کے صحرا میں سرگرداں ہیں ان کی جبین عقیدت بھی در حسینؑ پر جھکی نظر آتی ہے، ہندوستان کی قدم سلطنتوں اور ریاستوں کی تاریخ یہ بتاتی ہے کہ کہ والیان ریاست نے نہ صرف اس تحریک حریت کی یاد منائی بلکہ اس یاد کو آئندہ نسل تک پہونچانے کیلئے اقتصادی، سیاسی و سماجی محکم لائحہ عمل تیار کیا تا کہ صدائے حریت کی بازگشت کمزور نہ ہونے پائے اور بشریت درس حریت سے فیض حاصل کرتی رہے۔ چنانچہ کشمیر سے کنیاکماری تک فلک پر ہلال محرم کے نمودار ہوتے ہی عزاداری، جلوس و مجالس عزا کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے جس میں ہندوستان کی گنگا جمنی تہذیب کے نمونہ دکھائی دیتـے ہیں۔ سچ کہا ہے عـ؎
در حسینؑ پر ملتے ہیں ہر خیال کے لوگ   یہ اتحاد کا مرکز ہے آدمی کیلئے
عزاداری روز عاشورا اس نقطہ پر کار کا نام ہے جس کے گرد واعظ و رند، ادیب و ملا، شاعر و خطیب، پنڈت و پادری، شاہ و گدا، بلا تفریق مذہب و مسلک پروانہ وار ایک رنگ میں رنگے ہوئے نظر آتے ہیں، تقسیم ہندوستان سے پہلے کے شواہد سے پتہ چلتا ہے ہندوستان میں مسلمانوں کے ساتھ ساتھ سکھ بھی عزاداری میں برادران اسلام کے شانہ بشانہ ہوتے تھے، سروجنی نائیڈو، دھرمندر ناتھ، ماتھر لکھنوی وغیرہ جیسے قدرآور علمی و ادبی شخصیات کے نذرانہ ہای عقیدت جیتی جاگتی تصویر ہے۔
ادھر کچھ عرصہ سے ایک یزید نواز گروہ نجدی حمایت سے ظاہر ہوا جو عالم اسلام میں مختلف مسائل اور متعدد مواقف کے حوالہ سے بے بنیاد وار یعنی گفتگو اور فتوؤں سے انتشار پھیلانے کی ناکام کوشش کر رہا ہے، بدعت کے تیر سے قلوب عزادار کو مجروح اور یزید کی ناپاک روح کو شاد کرنے کی پیہم کوشش کر رہا ہے چند شر پسند عناصر کے ایک گروہ کے ذریعہ اسلامی سماج کے امن و سکون کو غارت کر رہا ہے، خوارج کی پالیسی، اموی ناپاک عزائم کی تکمیل، آثار متبرکہ و مقدسہ کی تاراجی اس کا بنیادی مشن ہے اس راہ میں وہ کسی سمجھوتہ کیلئے تیار بھی نظر نہیں آتا ہے، اپنے مشن کو کامیاب بنانے کیلئے ہر قسم کا اقدام کرتا نظر آتا ہے۔ ادھر ہلال محرم فلک کائنات پر ظاہر ہوا دوسری طرف بنی امیہ کے نجس دسترخوان کے زلہ خوار، دین فروش ملا، وادی جہل و جہالت میں حیران و سرگردان پھرنے والے مفتیوں کی زبانیں کھل جاتی ہیں، بدعت، شرک، حرمت کے فتوے گلا پھاڑ پھاڑ کربیان کرنے لگتے ہیں، سال بھر ہاتھ میں لوٹا، بغل میں چٹائی لپیٹ کر، کولہو کے بیل کی مانند گھومنے والے خود ساختہ متدین، مصلح نما مفسدین مفتیوں کے جاہلانہ فتوؤں پر جھومتے نظر آتے ہیں، کون بتائے ان بے چاروں کو تم اپنے عمل سے اپنے اسلاف کے کردار و عمل کو نشانہ بنا رہے ہو، چند روزہ دنیوی، مقام و مرتبہ کی خاطر آخرت کو تباہ کر رہے ہو۔ کیوں اپنے جاہل آقاؤں کی لچھے دار باتوں سے اپنے ایمان کو خراب کر رہے ہو، کیا تمہیں معلوم نہیں ہے کہ دین و شریعت پہونچانے والے نبیؐ آخر الزمان نے عزاداری کیا ہے؟ اگر یہ عمل خلاف دین و شریعت تھا تو نبی مکرمؐ نے کیوں انجام دیا؟ یا تم کچھ زیادہ دین و شریعت کا علم رکھتے ہو اور نبی کو کم تھا؟ ہاں! تم کہہ سکتے ہو کیونکہ تمہاری تقویۃ الایمان نامی کفریہ عقائد پر مبنی کتاب کی رو سے نبی اور عام بشر میں کوئی امتیاز نہیں ہے، غلطی و اشتباہ، خطا و نسیان سب کچھ عارض ہو سکتے ہیں۔
جماعت اسلامی کے موسس سید ابو الاعلی مودودی نے امام حسینؑ کو صبح قیامت تک کیلئے نمونہ بتایا ہے وہ تحریر کرتے ہیں: جو لوگ اپنی آنکھوں سے خدا کے دین کو کفر سے مغلوب دیکھیں جن کے سامنے حدود الہی پائمال ہی نہیں بلکہ کالعدم کر دی جائیں، خدا کا عملا ہی نہیں باضابطہ منسوخ کر دیا جائے، خدا کی زمین پر خدا کا نہیں بلکہ باغیوں کا بول بالا ہو۔ ..... اور یہ سب کچھ دیکھ کر بھی ان کے دلوں میں نہ کوئی بے چینی ہو، نہ اس حالت کو بدلنے کیلئے کوئی جذبہ بھڑکے بلکہ اس کے بر عکس وہ اپنے نفس کو اور عام مسلمانوں کو غیر اسلامی نظام کے غلبہ پر اصولا و عملامطمئن کر دیں اس کا شمار محسنین میں کس طرح ہو سکتا ہے؟ ..... وہ چاشت، اشراق اور تہجد کے نوافل پڑھتے رہے جزئیات فقہ کی پابندی اور چھوٹی چھوٹی سنتوں کے اتباع کا سخت اہتمام کرتے رہے ..... مگر ایک نہ تھی وہ حقیقی دینداری جو "سر داد، نداد دست در دست یزید" کی کیفیت پیدا کرے اور بازی اگر چہ پا نہ سکا سر تو کھو سکا کے مقام وفاداری پر پہونچا دے۔ (اسلامی زندگی اور اس کے بنیادی تصورات، ص ۱۵۶ و ۱۵۷)
غور فرمائیں ناظرین محترم علامہ مودودی نے صاف لفظوں میں یہ بات واضح کر دیا کہ دور امام حسینؑ میں ایسے مسلمان ضرور تھے جو واجبات و نوافل کیلئے حد درجہ اہتمام کرتے تھے مگر الہی فرامین سے بغاوت کرنے والوں، احکام الہی کا مذاق بنانے والوں کے مقابل کھڑے ہونے کی ہمت مفقود تھی اور جو باغیوں اور سرکشوں کے مقابل ڈٹ جائے اس کو مودودی صاحب محسن مانتے ہیں اور محسنین کیلئے ارشاد الہی ہے اللہ "محسنین کو دوست رکھتا ہے" اور جو اللہ کا دوست ہو اس کی یاد منانا خلاف شرع کیسے ہو سکتا ہے!
ہم عصر فاضل نبیل علامہ طاہر القادری کا بیان ملاحظہ فرمائیں: یاد رکھ لیں کہ ان ہستیوں کو ہمیشہ یاد رکھنا ان کی شان، عظمت، عزم و استقامت، صبر و استقلال اور ان کے اس پورے اقدام کی غرض و غایت کو یاد رکھنا یہ ایمان میں استحکام کا باعث ہے، اس سے محبت میں مضبوطی نصیب ہوتی ہے۔ محبت کو جلا ملتی ہے ایمان کو زندگی اور تازگی نصیب ہوتی ہے لہذا طبیعتوں میں یہ رجحان پیدا کریں کہ جب ان کا ذکر سنیں ان سے محبت کریں ان کا پیغام سنیں تو جتنا ہو سکے ان کے پیغام کو زندگی میں نافذ کریں اس طرح محبت سے شروع ہونے والا سفر اتباع پر ختم ہوتا ہے یعنی محبت حسینؑ اور اتباع حسینؑ دونوں یکجا ہوں تو اس کا ذکر مقصود پورا ہوتا ہے۔ (ماہنامہ منہاج القرآن، اکتوبر ؁۲۰۱۵ء)
کہاں ہیں خارجیت و ناصبیت کے دلدادہ، مادیت اور بے دینی کے رسیا کیوں عقائد حقہ کی اصلی تصویر کو دھندلا کر کے امت اسلامیہ کے صاف و شفاف ذہنوں کو مکدر کر کے صفحہ ذہنی پر خارجیت و ناصیبت کے کانٹے اگانے کی ناپاک کو ششیں کی جارہی ہیں؟
ان دو اقتباس کے بعد اب ہم چند اقتباس علمائے اہلسنت کی کتابوں سے درج کرنے پر اکتفا کریں گے تا کہ دنیا کو پتہ چل جائے کہ ہر دور کے حق پسند، منصف مزاج افراد نے امام حسینؑ کی یاد نہ صرف منایا ہے بلکہ منانے کی عملی تاکید بھی فرمایا ہے۔
۱۔ عبد الرحمن جزائری، کتاب الفقہ علی المذاہب الاربعہ میں تحریر کرتے ہیں:
مالکی و حنفی نقطہ نظر سے بآواز بلند گریہ کرنا جبکہ فریاد و ضجہ کے ساتھ ہو حرام ہے لیکن شافعی و حنبلی مسلک میں مباح ہے آنسو بہانا، بغیر آواز کے گریہ کرنا جبکہ اس کے ہمراہ داد و فریاد نہ ہو تمام علمائے اہلسنت نے مباح قرار دیا ہے۔
اسی سے مشابہہ مضامین اہلسنت کی دیگر کتب من جملہ فتاوی الہندیۃ و فتاوی الغیاثیۃ میں بھی درج ہیں۔
۲۔ ابن عماد حنبلی عظیم عالم اہلسنت نے واقعہ کربلا کو نقل کرتے ہوئے تحریر کیا:
قاتل اللہ فاعل ذلک واخزاہ و من امر بہ او رضیہ ..... (شذرات الذہب، ج ۱، ص ۶۶)خدا قتل کرے اس کو جس نے امامؑ کو قتل کیا اور خاندان اہلبیتؑ کو اسیر کیا اور جو اس عمل پر راضی رہا۔
آلوسی متعصب ترین اہلسنت عالم جو دانستہ یا نادانستہ طور پر کبھی کبھی استعمار کی اولاد ناصبیت کی تائید و حمایت سے دریغ نہیں کرتا ہے لیکن جب یزید کے توبہ کرنے کے سلسلہ میں سوال کیا گیا تو جواب میں لکھا:
الظاہر انہ لم یتب واحتمال توبتہ اضعف من ایمانہ ویلحق بہ ابن زیاد و ابن سعد و جماعۃ فلعنۃ اللہ عز وجل علیہم اجمعین وعلی انصارہم واعوانہم وشیعتہم ومن مال الیہم الی یوم الدین ما دمعت عین علی ابی عبد الحسینؑ (روح المعانی، ج ۱۳، ص ۲۲۸)  بظاہر یزید نے توبہ نہیں کیا تھا توبہ کا امکان اس کے ایمان سے بھی زیادہ ضعیف ہے، ابین زیاد و ابن سعد اسی سے ملحق ہوں گے ان سب پر ان کے حامیوں اور چاہنے والوں پر اس وقت تک اللہ کی لعنت ہو جب تک آنکھیں امام حسینؑ پر آنسو بہاتی رہیں گی۔ 
۴۔ حضرت مولانا شاہ عبد العزیر دہلوی کا بیان ملاحظہ ہو:
پورے سال میں صرف دو مجلسیں منعقد ہوتی تھیں ایک وفات شریف کے ذکر کی (رسولخداؐ کی وفات) دوسری شہادت امام حسینؑ کے ذکر کی عاشورا کے دن یا اس سے ایک دو روز قبل چار سے پانچ سو افراد کبھی کبھی ایک ہزار تک تعداد پہونچ جاتی لوگ جمع ہو کر درود پڑھتے اور جب فقیر باہر آتا اور بیٹھتا تو امام حسینؑ کے فضائل و مناقب کے حوالہ سے مذکور احادیث بیان ہوتیں، ان بزرگوں کی شہادت اور ان کے قاتلوں کی بد انجامی سے متعلق اخبار و احادیث میں جو کچھ وارد ہوا ہے بیان ہوتے اور وہ مرثیے بھی پڑھے جاتے جنہیں حضرت ام سلمہ اور دیگر صحابہ کرام نے جنوں اور پریوں سے سنا ہے اس کے بعد ختم قرآن اور پنج سورہ پڑھا جاتا اور ماحضر پر فاتحہ دیا جاتا اس وقت اگر کوئی خوش الحان شخص سلام یا مرثیہ شروع کرتا تو اس کے سننے کا اتفاق ہوتا اور ظاہر ہے اس حالت میں اکثر حاضرین مجلس اور خود فقیر پر گریہ طاری ہو جاتا اگر چہ یہ چیزیں فقیر کے نزدیک اس طرح سے جائز نہ ہوتیں تو کبھی ان پر اقدام نہ ہوتا اور دوسرے جو غیر شرعی امور ہیں ان کے بیان کی حاجت نہیں۔ (اقتباس از فتاوی عزیزیہ، ج ۱، ص ۱۰۴، مطبوعہ مجتبائی پریس)
۵۔ مولانا عبد الواحد فرنگی محلی:
اس زمانہ کے علمائے صالح نے تعزیہ داری کو شعائر اسلام سمجھتے ہوئے اس کی ترویج و بقا کیلئے فتوے دیئے ہیں لہذا اس دور کے صالح علما نے تعزیہ داری کا جو فتوی دیا تھا بالکل درست تھا اور تعزیہ داری کی ترویج ثواب و اجر عظیم کا سبب ہے مولانا نظام الدین، مولانا عبد العلی، مولوی مجید الدین، مولوی انوار الحق، مولوی نور الحق اور دیگر عملمائے فرنگی محل اور اطراف ہند کے علما جب تعزیہ دیکھتے تو تعظیم کیلئے کھڑے ہو جاتے اور دونوں ہاتھ تعزیہ کی طرف دراز کر کے نہایت خضوع و خشوع اور عجز و انکساری کے ساتھ فاتحہ پڑھتے تھے۔ (تقریب نیوز بحوالہ رسالہ ازالۃ الاوہام)
۶۔ مولانا محمد نعیم اللہ قادری گورکھپوری:
ہزاروں عالم و افاضل گزرے کسی نے اس تعزیہ کو منع نہ کیا اور برابر اس کو اچھا سمجھتے رہے پس جب ہوا زمانہ وہابیوں کا اس کو ناجائز قرار دیدیا اس کو بت بتا دیا اور یہ ان سے بعید بھی نہیں ہے کیونکہ روضۂ رسولؐ کو بڑا بت خانہ کہا گیا، عبد الوہاب نے جس سے نکلا ہے مذہب وہابی۔ (ارشاد النعیم لدفع اللئیم، ص ۲۳، مطبوعہ لکھنؤ) 
متذکرہ بالا اقتباسات پر بغیر کسی تبصرہ کے ہم آخر کلام میں دو بہت ہی اہم تاریخی و ادبی دستاویز ہدیہ قارئین کرنے کی کوشش کریں گے، جس سے یہ اندازہ ہو جائے گا کہ بدعت کے فتوے استعماری اشارہ پر نجدی آغوش میں پروان چڑھے یہودیت کے لے پالک اور سیاسی اولاد نے صادر کئے اور اس کے ناعاقبت اندیش بہی خواہوں کی بھیڑ نے خوب پھیلایا تا کہ نہ تذکرۂ کربلا ہو گا نہ ان کے آقاؤں کے چہرہ سے نفاق کی چادر ہٹے گی اور جرائم سامنے آئیں گے۔
ابن جوزی نے اپنی کتاب التبصرہ میں روز عاشورا کے حوالہ سے مفصل مجلس کو نقل کیا ہے: المجلس الاول فی ذکر عاشورا والمحرم اخوانی باللہ علیکم ..... مستغیثا من ذلک ..... (التبصرہ، ج ۲، ص ۵ تا ۱۷)
برادران تمہیں خدا کی قسم دیتا ہوں کوئی یوسفؑ پر زبان اعتراض وا کر دیتا ہے کہ کیسے دیدار یعقوبؑ کیلئے جائیں؟ جب عباس روز بدر اسیر ہوئے اور پیغمبر اکرم نے ان کا نالہ و فغاں سنا تو نیند اڑ گئی کیا حال ہوتا اگر حسینؑ کی فریاد سن لیتے؟ جس وقت قاتل جناب حمزہؑ ایمان لایا پیغمبرؐ نے اس سے کہا کہ میرے سامنے نہ آنا اپنا چہرہ مجھ سے پوشیدہ رکھنا جبکہ اسلامی دستور کے مطابق اسلام لانے کے بعد ماضی کے جرائم سے پاک ہو جاتے ہیں۔ اگر رسولخداؐ امام حسینؑ کے قاتل کو دیکھ لیتے تو کیا کرتے؟ کتنا ظلم حسینؑ پر ڈھایا گیا ..... حسینؑ پشت فرس سے زمین پر آئے دشمنوں نے گھیر لیا تلواروں کے حملہ سے ٹکڑے ٹکڑے کر دیا ..... ایسے حالات میں پیغمبر اکرمؐ اگر اس کو دیکھتے تو نالہ و فریاد کرتے، استغاثہ بلند کرتے .....
اسماعیل بن عمر ابن کثیر نے البدایہ والنہایہ، ج ۱۳، ص ۲۲۷ پر لکھا ہے: 
بلغنی ان الشافعی  انشد تاوب ہمی والفواد کئیب ۔۔۔ وارق عینی الرقاد غریبو مما نفی نومی وشیب لمتی ۔۔۔ تصاریف  ایام لہن خطوبتزلزلت الدنیا لآل محمد ۔۔۔ وکادت لہم صم الجبال تذوبوغارت نجوم واقشعرت ذوائب  ۔۔۔ وہتک اسباب وشق جیوب فمن مبلغ عنی الحسین رسالۃ ۔۔۔ وان کرہتہا انفس وقلوب قتیل بلا جرم کان قمیصہ ۔۔۔ صبیغ بماء  الارجوان خضیب نصلی علی المختار من آل ہاشم ۔۔۔ وتعزی بنوہ ان ذا لعجیب لئن کان ذبنی حب آل محمد ۔۔۔ فذلک ذنب لست عنہ اتوب نعم ۔۔۔ شفعائی یوم حشری وموقفی ۔۔۔
مجھے معلوم ہوا کہ امام شافعی نے اس طرح نظم کیا ہے۔ دل رنجیدہ قلب دردمند ہے۔ آنکھیں اشک برسا رہی ہیں میں تنہا ہوں اور نیند آنکھوں سے غائب، پیری عارض ہے۔ ان گزرے ہوئے ایام کے واقعات سے جس نے دنیا کو آل محمدؐ کیلئے ہلا دیا ہے۔ قریب تھا پہاڑ جڑوں سے اکھڑ جائیں ستارے ہجوم کر دیں اور انکی پشت پر جوستارے ہیں وہ لرز جائیں،خیموں کی حرمت تارتار ہوگئی،گریبان چاک ہے،کیا کوئی میراخط امام حسین تک پہونچاسکتاہےاور اگرکچھ لوگ اس امر سے ناخوش ہوں تو ہوں لیکن جیسے بے جرم و خطا قتل کیا گیا اور ان کا لباس ارغوانی رنگ (مجنٹا کلر) میں رنگ گیا۔ پیغمبر اکرمؑ پر جو خاندان بنی ہاشم کے برگزیدہ ہیں درود بھیجتا ہوں۔ لیکن ان کی اولاد داغ دیدہ ہے یہ تعجب خیز امر ہے اگر میرا گناہ محبت آل محمدؐ ہے تو یہ ایسا گناہ ہے جس سے توبہ نہیں کروں گا، ہاں روز جزا و سزا کے شفاعت کرنے والے وہی آل محمدؐ ہیں۔ روز حساب ان کی محبت شفاعت کرے گی۔
ناظرین غور فرمائیں کتنا درد بھرا کلام ہے امام شافعی نے بغیر کسی رواداری اور جانبداری کے حقائق کو نظم کیا ہے جس سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ ائمہ اہلسنت نے بھی عزاداری امام حسینؑ کا اہتمام کیا تھا علما و اکابرین نے ائمہ فقہ کی پیروی کرتے ہوئے نہ صرف عزاداری کا انعقاد کیا بلکہ مختلف نوعیت سے اس غم میں غمزدہ رہ کر قلب نازنین حضرت زہراؑ کیلئے مرہم زنگار فراہم کرنے کی سعی ناچیز فرمایا ہے۔
تاریخی بیانات و شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ ہر دور اور ہر زمانہ میں برادران اہلسنت کے افاضل، ادبا، شعرا و علما نے تقریر و تحریر کے ذریعہ امام حسینؑ کو خراج عقیدت پیش کیا ہے اور کر رہے ہیں، موجودہ دور میں اگر ذرا سا انسان وقت نکال کر ایام عزا میں سوشل میڈیا سے جڑ جائے تو اس کو یہ سمجھنے میں ذرا سی بھی دقت نہ ہوگی کہ کائنات اگر ایک نقطۂ مرکزی پر بلا تفریق مذہب و ملت، نسل و قوم جمع ہو سکتی ہے تو اس مرکزی نقطہ کا نام ہے عزائے امام حسینؑ۔ 
انسان کو بیدار تو ہو لینے دو ہر قوم پکارے گی ہمارے ہیں حسینؑ
E-mail: yalateef786@gmail.com 
#عزاداری_اھل سنت#امام_حسین #کربلا#اربعین#شیعہ#جلوس#امام#شھادتazadari#
#shia#imam
#arbaeen#karbala
#mashi#sunni

امام محمد باقر علیه السلام مؤسس انقلاب فرهنگ

امام محمد باقرؑ مؤسس انقلاب فرہنگی
تحریر: آیۃ اللہ محمدی اشتہاردی
ترجمہ: منہال رضا خیرآبادی جامعہ حیدریہ مدینۃ العلوم خیرآباد
• اشارہ:
خاندان نبوت کے بارہ ائمہ میں امام محمد باقر کو خاص امتیازات حاصل تھے آپ کی مادر گرامی فاطمہ سلسلہ امامت کی دوسری کڑی امام حسن کی بیٹی تھیں لہذا ماں باپ دونوں طرف سے آپ عظمت پیغمبر اکرم کے وارث سمجھے جاتے تھے ،اک معتبر حدیث میں جو حدیث لوح کے نام سے مشہور ہے پروردگار عالم نے آپ کی عظمت شان کو بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:وابنہ شبہ جدہ المحمود محمد،الباقر علمی والمعدن لحکمتی(۱)امام سجاد کے فرزند اپنے محبوب جد بزرگوار حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کی شبیہ یعنی امام باقر میرے علم کو شگافتہ کرنے اور میری حکمت کے معدن ہیں۔
امام جعفر صادق نے فرمایا:ان لابی مناقب لیست لاحد من آبائی(۲)میرے پدر بزرگوار امام باقر کےلئے ایسے فضائل ومناقب ہیں جو دیگر آبا واجداد کو حاصل نہیں ہیں۔
انھیں وجوہات کی بنا پر امام خمینیؒ نے اپنے سیاسی والہی وصیت نامہ میں امام محمد باقر کی مخصوص عظمت کو یاد کرتے ہوئے تحریر فرمایا:ہمیں فخر ہے کہ ترایخ کی عظیم ترین شخصیت جس کے مقام ومرتبہ کو خدا ورسول اور ائمہ اطہار کے علاوہ کسی کو پتہ نہیں ہے وہ باقر العلوم ہمارے پاس ہے(۳)
اب ہم ان کلمات کے اسرار ورموز کی توضیح وتشریح اس امید کے ساتھ بیان کریں گے کہ کچھ امام باقر کی سیرت کے زندگی ساز اسباق سیکھ سکیں۔
• عصر امام باقر ؑ  :
معاویہ اور اس کے بعد فضائل کو محو کرنے والے ظالم وجابر حکمرانوں کے دور حکومت میں حقیقی اسلام مکمل متروک ہورہاتھا،زندگی کا ہر شعبہ تاریک،جہل ،عصبیت،فریب،زروجواہر،طاقت وقوت،اور مختلف النوع کجروی وپلیدی میں عالم اسلام غوطہ زن تھا بنی امیہ نے فکروں کو مسموم اور فرہنگی حملوں سے عقل وشعور کا اغوا کرلیا تھا یزید اور شرک ونفاق کے رسیا نے جگر گوشہ رسول امام حسین اور انکے باوفا اصحاب کو نہایت ناگفتہ بہ حالات میں قتل کردیا اسلامی اقدار تارتارہوگئے غیر آئینی حکومت چلتی رہی،شراب وشباب،رقص وسرور کی محفلیں سجائے رہے،اسلام کے نام پر تعلیمات محمدی وعلوی کا اپنے ناپاک عزائم کی بھینٹ چڑھاتے رہے،حالات اتنے دگر گوں ہوگئے تھے کہ امام حسین کا نام لینے پر قدغن لگا دی گئی،خاندان رسالت ونبوت کے بابرکت آثار مٹانے کی ہر ممکن کوششیں ہوتی رہیں۔
کربلا کے خونچکاں واقعہ کے بعد امام سجاد کی مظلومیت کا عالم یہ تھا کہ مدینہ میں چار افراد آپ کے پاس آتے تھے جبکہ ہوناتو یہ چاہئے تھا کہ آپ کے درس میں لوگوں کا اژدحام ہوتااور آپ کے فیوض سے مستفیض ہوتے امام جعفر صادق نے ان حالات کی منظر کشی کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:ارتد الناس بعد الحسین الا اربعۃ ابو خالد الکابلی ویحیی بن ام الطویل وجبیر بن مطعم وجابر بن عبد اللہ انصاری ثم ان الناس لحقوا وکثروا(۴)شہادت امام حسین کے بعد سارے افراد جادہ حسینی سے منحرف ہوگئے سوائے چار افراد کے:ابو خالد کابلی،یحیی بن ام طویل،جبیر بن مطعم وجابر بن عبد اللہ انصاری،پھر دھیرے دھیرے لوگ ان سے ملحق ہوتے گئے اور تعداد بڑھتی گئی۔
شہادت حسینی کے بعد اموی سلاطین کی ڈکٹیٹر شپ کے نتیجہ میں پیدا ہونے والے خوف وہراس،جہل ودنیا پرستی،ودیگر وجوہات کی بنیاد پر خاندان رسالت سے دوریہ بنا لی گئی،کچھ تو دشمنان آل کی صف میں جاکھڑے ہوئے اور کچھ کا رویہ غیر منصفانہ تھا بعض حیرانی واضطراب کے دریا میں ہچکولے لے رہے تھے کچھ وہ بھی تھے جنھوں نے زبان اعتراض کھولدیا کہ کیوں قیام کیا؟اس کا کیافائدہ ہوا؟انکی جہالت اور تیرگی قلب ودماغ اس مقام پر تھی کہ وہ مچھر کے خون کی نجاست وطہارت کو جاننا چاہتے لیکن شہدائے کربلا کا خون بے دریغ کیوں بہایا گیا ،کس نے بہایا؟اس کو جاننے کی مطلق فکر نہ تھی ۔مروی ہے کوفہ کے ایک شخص نے اس دور کے دانشمند ابن عمرو سے مچھر کے خون کا فقہی حکم جانا چاہا تو اس نے حاضرین کو خطاب کرتے ہوئے کہا اس کوفی کو دیکھو مجھ سے مچھر کے خون کے بارے میں دریافت کررہاہے لیکن فرزندرسول حضرت امام حسین کو قتل کیاگیا اس سلسلہ میں نہیں پوچھتاہے(۵)
ان روایات سے یہ بات بہر حال واضح ہوجاتی ہے کہ اکثریت دین وخاندان رسالت سے دور ہوچکی تھی صرف چار ہی افراد امام سجاد کی بارگاہ میں باقی رہ گئے تھے ایسے حالات میں سب سے پہلے ایک وسیع وعمیق فرہنگی انقلاب کی ضرورت محسوس ہورہی تھی تاکہ لوگوں کو محمدی وعلوی اسلام اور بنی امیہ کے جابر وظالم حکام کے خود ساختہ اسلام کا باہمی فرق معلوم ہوجائے اور حقیقی اسلام کو تاریکیوں سے نکالکر شاہراہ روشن پر لے آیا جائے نور ولایت ائمہ معصومین سے دنیا روشن ومنور ہوجائے یہ عظیم کام اسی وقت ممکن تھا جب ایک جامع ووسیع فرہنگی انقلاب برپا ہو۔
• انقلاب فرہنگی کی راہیں ہموار کرنا:
امام سجاد نے موقع سے فائدہ اتھاتے ہوئے خون شہدائے کربلا کے عہد آفرین پیغام کے زیر سایہ ایک فرہنگی انقلاب کی راہیں ہموار کیا لیکن اس زمینہ سازی کے عمل میں خاندان نبوت کی ایک عظیم ہستی کی قیادت وسرپرستی ضروری تھی تاکہ انکی حمایت وتائید سے ایک یونیورسٹی کی تاسیس کی راہ آسان اور تربیت افراد کا کام سہل ہوجائے پردے چاک ہوں حقیقی اسلام کے علوم ومعارف آشکار ہوجائیں دنیا کی نگاہیں دیکھ لیں وہ عظیم ہستی جس کو اللہ نے اس وسیع انقلاب کیلئے ذخیرہ کیا تھا امام محمد باقر کی ذات والا صفات تھی ،چار برس کی عمر میں کربلا میں موجودگی اور واقعہ کربلا کے چشم دید گواہ ،مخدرات عصمت وطہارت کے ہمراہ اسیر ہوکر کوفہ وشام کا سفر کیا اپنے پدر بزرگوار امام سجاد،پھوپھی جناب زینب وام کلثوم کے خطبات سنے اور اس بات کا بخوبی اندازہ کرلیا تھا کہ تاریخ اسلام ماضی کی تاریکی کی طرف لوٹ گئی ہے اب شہدائے کربلا کی نصرت کیلئے اٹھنا چاہئے اور انکے بلند وبالا مقصد ’اسلام کی بالادستی‘کو عملی جامہ پہنانا ضروری ہے۔
پیغمبر اکرم نے بارہا آپ کو باقر العلوم (علوم کو شگافتہ کرنے والے)کے لقب سے یاد فرمایا ،مشہور ومعروف صحابی جابر بن عبد اللہ انصاری نے متعدد بار پیغمبر اسلام کی حدیث لوگوں سے بیان کیاتاکہ ذہنی طور پر بیدارہوجائیں اور پروانہ وار شمع علوم ومعارف امام باقر کے گرد جمع ہوکر حقیقی چشمہ سے آب زلال اسلام گھونٹ گھونٹ پی سکیں،نبی اکرم نے جابر سے فرمایاتھا:انک ستدرک رجلا منی اسمہ اسمی وشمائلہ شمائلی یبقر العلم بقرا(۶)میرے خاندان کی اس فرد سے ملاقات کروگے جو میرا ہم نام وہم شکل ہوگا وہ علوم کو شگافتہ کرے گا ،علم ودانش کی توضیح وتشریح کرے گا۔
اللہ نے جناب جابر کو طولانی عمر عطا فرمایا امام باقر کی ولادت ہوئی عالم طفلی تھا کہ جناب جابر امام سجاد کی خدمت میں حاضر ہوئے آپ کو دیکھکر فرمایا:بابی انت وامی ابوک رسول اللہ یقرئک السلام ویقول ذلک۔۔۔۔۔(۷)میرے ماں باپ آپ پر قربان آپ کے جد بزرگوار رسول خدا نے آپ کو سلام بھیجا ہے اور اسطرح فرمایاہے۔۔۔۔
صحابی رسول جابر نے کئی بار امام باقر سے ملاقات کیا اور نبی کی حدیث اور سلام کہلانے کی بات دھراتے رہے ’باقر العلوم‘کی تکرار کرتے رہے تاکہ زبان زد ہوجائے،لوگوں کے دل انکی باتوں کو قبول کرنے اور فرہنگی انقلاب کےلئے آمادہ وتیار رہیں۔
ایک روز امام باقر کے پاس آئے اور عرض کیا: یا باقر اشھد باللہ انک قد اوتیت الحکم صبیا اے علوم کو واضح کرنے والے میں اللہ کو گواہ بناتاہوں کہ آپ کو خرد سالی میں حکمت ودانش سے سرفراز کیا گیاہے۔
دوبارہ امام محمد باقر کی خدمت میں حاضر ہوئے تو عرض کیا:یا باقر انت الباقر حقاان ت الذی تبقر العلم بقرا(۸)اے باقر آپ واقعا علوم کو شگافتہ کرنے والے ہیں،علم کی گہرائی میں عمیق شگاف پیداکرنے والے،علم کے پوشیدہ اسرار ورموز کو واضح کرنے والے ہیں۔
ان تمام باتوں کا تعلق زمانہ آئندہ سے تھا جس کے ذریعہ دلوں کو آمادہ اور توجہات کو مبذول کرانا مقصود تھا تاکہ اسلامی سماج میں بسنے والے افراد آپ کی ملکوتی،علمی شخصیت وجلالت کو پہچان لیں اور جس فرہنگی انقلاب کی کرن پھوٹنے والی ہے اس کےلئے تیار رہیں۔
• اور کرن پھوٹ گئی:
امام محمد باقر نے بنی امیہ اور بنی عباس کی باہمی رقابت ،حصول حکومت کی تگ ودو سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ایک یونیورسٹی کی تاسیس اور تربیت افراد کا عمل شروع کردیا جو بعد میں ایک وسیع وعمیق فرہنگی انقلاب کی بنیاد قرار پایا،عصر امام  صادق میں اس یونیورسٹی کے طلبہ کی تعداد چار ہزار سے متجاوزہوگئی(۹)
امام محمد باقر نے محمد بن مسلم،زرارہ،ابو بصیر،جابر بن یزید جعفی،ابان بن تغلب،حمران بن اعین،سدیر صیرفی،ابو صباح کنانی،عبداللہ بن ابی یعفور،و۔۔۔۔۔جیسے عظیم المرتبت شاگردوں کی ایک فوج تیار کیا جسمیں جلیل القدر فقیہ،ماہر محدث،دل آگاہ عرفا نظر آتے ہیں جنھوں نے حقیقی اسلام وفرہنگ تشیع کی نشر واشاعت میں اہم کردار اداکیا۔جابر جعفی کا بیان ہے : اٹھارہ سال سردار انسانیت حضرت امام باقر کی خدمت پر فیض میں رہ کر آپ کے خرمن فیض سے خوشہ چینی کرتا رہا جب مدینہ سے کوفہ کی جانب لوٹنے کے ارداہ سے خدا حافظی کا وقت آیا تو امام کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کیا مولا کچھ فیض عطا کردیں امام نے فرمایا اٹھارہ برس کافی نہیں؟میں نے عرض کیا مولا آپ تو ایسا بحر ذخار ہیں جسکا پانی کم نہیں ہوتا جسکی گہرائی وگیرائی تک رسائی محال ہے امام نے فرمایا:بلغ شیعتی عنی السلام واعلمھم انہ لاقرابۃ بیننا وبین اللہ ولایتقرب الیہ الا بالطاعۃ لہ یا جابر من اطاع اللہ واحبنا فھو ولینا ومن عصیٰ اللہ لم ینفعہ حبنا۔میرے شیعوں کو میرا سلام کہنا اور انھیں بتادینا ہمارے اور خدا کے درمیان کسی قسم کی قرابتداری ورشتہ داری نہیں ،اللہ سے نزدیک صرف اطاعت وعمل کے ذریعہ ہوسکتے ہیں اے جابر جو اللہ کا مطیع اور ہمارا محب ہوگا وہی ہمارا دوست ہوگا جو اللہ کی نافرمانی کرے گا اسکو ہماری محبت ودوستی فائدہ نہیں پہونچائے گی۔
بیان کیا جاتاہے کہ جابر نے ستر ہزار(۷۰۰۰۰)احادیث امام محمد باقر سے یاد کیا تھا(۱۰)
ابان ابن تغلب امام محمد باقر کے جلیل القدر صحابی جن سے امام نے فرمایا تھا: اجلس فی المسجدالمدینۃ وافت الناس فانی احب ان یریٰ فی شیعتی مثلک(۱۱)مسجد مدینہ میں بیٹھکر لوگوں سے فتویٰ بیان کرو کہ میں اپنے شیعوں میں تم جیسے افراد دیکھنا پسند کرتا ہوں۔
مدینہ میں امام محمد باقر کی علمی نشست،فکری تحریک اور جلسات درس وبحث اس بلندی پر تھے کہ اس دور کے اعاظم علما ودانشور ہیچ اور بونے نظر آتے تھے انمیں سے حکم ابن عتیبہ ایک تھا ،عطانامی دانشمند بیان کرتا ہے:رایت الحکم عندہ کانہ عصفور مغلوب(۱۲)حکم ابن عتیبہ کو بارگاہ امام باقر میں ہزیمت خوردہ چریئے کے مثل دیکھا۔
عصر امام باقر کے عظیم سنی عالم دین عبد اللہ ابن عطا مکی کا بیان ملاحظہ کریں:حکم ابن عتیبہ کو اپنی تمامتر علمی جلالت وسطوت جو اپنی قوم میں رکھتا تھا امام کے حضور ایک بچہ کی مانند زانوئے ادب تہ کئے زمین پر بیٹھا پاتاہوں جو امام کی شخصیت سے مرعوب اور کلام کا شیفتہ وشیدائی ہو(۱۳)
امام باقر کی بنا کردہ یونیورسٹی کے علمی،اخلاقی،سیاسی،سماجی اثرات واضح وعمیق تھے جس کے معترف سارے افراد نظر آتے ہیں کہ رسول خدا نے صحیح فرمایاتھا کہ امام باقر علم ودانش کے شگافتہ کرنے والے ہیں۔
امام نے حق بیانی،مسائل کی وضاحت کے حوالہ سے صریح وقاطعانہ انداز اختیار فرمایا،اصولی موضوعات پر کسی بھی قسم کے ابہام ومسامحہ سے کام نہیں لیتے اسی قاطعانہ رویہ کے باعث ہمعصر حکام جور وجفا کے ہاتھوں ایدا رسانی،غم وغصہ کو برداشت کرتے رہے  اور آخر کار دسویں اموی خلیفہ ہشام بن عبد الملک کے حکم سے زہر دغا دیا گیا اور درجہ شہادت کو زینت بخشاامام بالصراحت فرماتے تھے:نحن خزنۃ علم اللہ وولاۃ امر اللہ وبنا فتح الاسلام وبنا یختمہ(۱۴)ہم خزانہ دار علم الہی،ولی امر ربانی ہیں اسلام کا آغاز واختتام ہمارے وسیلہ سے ہے۔
حوالہ جات:
۱۔اصول کافی،ج۱،ص۵۴۸
۲۔بحار الانوار ،ج۴۶،ص۲۲۸
۳۔وصیتنامہ الہی وسیاسی امام خمینی ،ص ۳
۴۔بہجۃ الآمال ،ج۲،ص۴۸۴۔معجم رجال الحدیث خوئی،ج۲،ص۹۹۔سفینۃ البحار،ج۱،ص۳۶۸
۵۔ بحار الانوار ،ج۴۳،ص۲۶۲
۶۔اصول کافی،ج۱،ص۴۶۹
۷۔حوالہ سابق
۸۔علل الشرایع ،ج۲،ص۲۳۳۔ بحار الانوار ،ج۴۶،ص۲۲۵
۹۔رجال کشی،ص۱۲۵
۱۰۔سفینۃ البحار،ج۱،ص۱۴۲
۱۱۔حوالہ سابق،ص۷
۱۲۔اعیان الشیعہ،ج۱،ص۶۵۱
۱۳۔اعلام الوریٰ،ص۲۶۳
۱۴۔حوالہ سابق ،ص ۲۶۲
#شیعه_اثنا_عشری
#امامت_باقر_محمد
#قرآن_کریم
#shia
#quran
#islam
#imam_baqir

مادران معصومین ع ایک تعارف۔8۔

  آپ امام موسی کاظمؑ کی والدہ تھیں ، تاریخ سے ان کی ولادت با سعادت کی اطلاع نہیں ملتی ہے۔ آپ کے والد کا نام صاعد بربر یا صالح تھا،...