ام المومنین جناب خدیجۃ الکبری سلام اللہ علیہا
آپ جناب فاطمہ زہرؑا کی مادر گرامی ہیں انہوں نے ۲۵ سال تک پیغمبر اسلامؐ کے بیت الشرف میں زندگی گزاری اور جب تک زندہ رہیں پیغمبرؐ نے کسی دوسری عورت کو حبالۂ عقد میں داخل نہیں کیا، انہوں نے پیغمبرؐ کی ہمراہی، ہمفکری اور خدمات دینی میں اس طرح وقت گزارا جو آنحضرتؐ سے ان کی محبت و ارادت کی واضح دلیل ہے خود پیغمبرؐ بھی جناب خدیجہؑ کی سیرت و کردار اور عظمت و منزلت کی بہت زیادہ مدح کیا کرتے تھے۔
پیغمبر اکرمؐ کی بعثت کے بعد جناب خدیجہؑ کا بے شمار مال و دولت اسلام کی راہ میں خرچ ہوا جس کی برکت سے کمزوروں کی جان جو قریش کے مہلک اور خطرناک ہاتھوں میں تھی اس سے نجات ملی اور اسلام جناب خدیجہؑ کی دولت سے مستقیم ہوا۔
جناب خدیجہؑ کی وفات ۱۰ ماہ رمضان سنہ ۱۰ بعثت کو ۶۵ سال کی عمر میں ہوئی، ان کی رحلت سے پیغمبرؐ .کو ناقابل بیان غم و اندوہ ہوا کیونکہ وہ اکیلی آنحضرتؐ کی محب اور مشفق تھیں جناب ابو طالبؑ کا ساتھ دیتے ہوئے قریش کے مقابلہ میں اسلام کے دفاع کیلئے بہت اہم کردار ادا کیا جس سال ان کی وفات ہوئی آنحضرتؐ نے اس سال کو «عام الحزن» یعنی غم کا سال قرار دیدیا۔
★مادر گرامی حضرت فاطمہ زہراؑ جناب خدیجہؑ رسول اکرمؐ کی شریکۂ حیات اور غمخوار تھیں انہوں نے اپنی عمر کا ایک حصہ جاہلیت کے زمانہ میں گذارا لیکن جاہلیت کے اخلاق و کردار سے بالکل دور رہیں ، وہ ان چند محترم خواتین میں سے ہیں جنہوں نے قبل اسلام اپنی واقعی حقیقت اور شخصیت کی حفاظت کی، مؤرخین نے ان کے بارے میں سوائے خیر اور نیکی کے کچھ بھی نہیں لکھا ہے، جناب خدیجہؑ کا دروازہ ہمیشہ فقیروں کیلئے کھلا رہتا تھا۔([1])
جب تک جناب خدیجہؑ زندہ رہیں پیغمبرؐاسلام نے کسی دوسری عورت سے عقدنہیں کیا ، انہیں یہ بھی فخر حاصل تھا کہ ان کی آغوش میں جناب فاطمہؑ زہرا جیسی بیٹی عالَمِ وجود میں آئیں اور پرورش پائی۔
نام و نسب:
جناب فاطمہؑ زہراکی مادر گرامی کا ایک ہی نام جناب خدیجہؑ تھا ان کے والد خویلد بن اسد بنعبد العزّیٰ بن قصی بن کلاب بن مرہ بن کعب بن لوی بن غالب بن فہربن مالک بن نضر بن کنانہ ہے۔([2])
جناب خدیجہؑ کی والدہ ماجدہ فاطمہ بنت زائدہ بن اصم بن ہرم بن رواحہ بن حجر بن معز بن عامر بن لوی بن غالب بن فہربن مالک ہے۔([3])
نسب نگاروں کے بیان کے مطابق جناب خدیجہ ؑکے والدین جزیرۃالعرب کے خانوادوں کی ایک فرع تھے۔([4])
پیغمبرؐ اسلام کے تمام فرزندوں کی مادر گرامی جناب خدیجہؑ ہیں سوائے جناب ابراہیمؑ کے، قول مشہور کے مطابق آپ کے فرزند قاسمؑ، عبد اللہؑ (جن کا لقب طیّب و طاہر تھا) اور فاطمہؑ، قاسمؑ و عبد اللہؑ بچپن میں ہی دنیا سے رخصت ہو گئے، قاسمؑ کے انتقال کےبعدجناب خدیجہؑ نے رسول ؐاکرم سے عرض کیاکہ جو شیرخورانی میں قاسمؑ کیلئے کر رہی تھیں وہ جوش کھاتا ہے، کاش خدا مہلت دیئے ہوتا کہ اس کی شیرخوارگی کی مدت مکمل ہو جاتی، پیغمبرؐ نےفرمایاکہ یہ مدت بہشت میں مکمل ہو رہی ہے،جناب خدیجہؑ نے کہا کہ اگر یقین مجھے ہو جائے تو اس کی موت مجھ پر آسان ہو جائے گی، پیغمبرؐ نے فرمایا کیا تم چاہتی ہو کہ میں خدا سے سوال کروں کہ اس کی آواز کو تمہیں سنوادے،خدیجہؑ نے کہا بس اتنا کافی ہے،خدا اور پیغمبرؐ کی بات درست ہے۔([5])
پیغمبرؐاکرم سے ازدواج:
پیغمبر اسلامؐ کے ازدواج سے قبل جناب خدیجہؑ کے تفصیلی اور حقیقی حالات کے بارے میں معلومات فراہم نہیں ہوتی ہے،اتنا ضرورملتا ہے کہ جناب خدیجہؑ زمانہ جاہلیت میں بھی اپنی قوم میں نہایت محترم تھیں اور طاہرہ کے لقب سے مشہور تھیں ، مؤرخین نے اکثر انہیں دور اندیش اور عقلمند خاتون کےنام سے اور عاقل و شریف خاتون کےعنوان سے تحریر کیا ہے۔([6])
جناب خدیجہؑ کی دوراندیشی ، خردمندی اور تقویٰ و طہارت کی بہترین دلیل یہ ہے کہ زمانہ جاہلیت میں بھی ظاہری خوبصورتی ، جملہ بلند صفات اور کثرت سرمایہ کے باوجود انہوں نے خود کو خرابیوں سے آلودہ نہیں ہونے دیااور اس حد تک کمال و پاکیزگی کے ساتھ زندگی بسر کی کہ طاہرہ کہا جانے لگا ۔
”کَانَت خَدِیجَة تدعی فِی الجَاهِلِیَّةِ الطَّاهِرَة“ ([7])
انہوں نے فقراء و مساکین کی مدد سے کبھی غفلت نہیں برتی انکا دولت کدہ حاجت مندوں کی پناہ گاہ تھا۔([8])
انہیں دور جاہلیت میں بھی ”سَیِّدَةُ نِسَاءِ قُرَیشٍ“. کہا جاتا تھا۔([9])
مال و دولت ، عظمت مقام اور نیک صفات سبب بن گئے تھے کہ قریش کے مالدار و سردار جیسے عقبہ بن ابی معیط، صلت بن شہاب ، ابو جہل، ابو سفیان کے ذہنوں میں ان کی ہمسری کا خیال پروان چڑھ رہا تھاانہوں نے اپنی تمناؤں کے ہاتھ ان کی جانب بڑھائے لیکن جناب خدیجہؑ نے سب کی درخواستوں کو یہ بہانہ بنا کر رد کردیا کہ انہیں شوہر کی جانب رغبت نہیں ہے۔ ([10])
انہوں نے اپنے چچا زاد بھائی ورقہ بن نوفل کو عدم میلان ازدواج کی دلیل یہ دی کہ کوئی شخص معقول میری نگاہ میں نہیں ہے جو ازدواج کے قابل ہو۔([11])
جناب خدیجہ ایک عظیم دولت مند خاتون تھیں انہوں نے بہت سے لوگوں کو تجارت کیلئے مال اجرت پر دے رکھا تھا ان تجارتی امور کیلئے مردوں سے قرارداد کرتی تھیں پھر تجارت کیلئےبھیجتی تھیں ، پیغمبر ؐاسلام کی صداقت شعاری ، امانتداری اور خوش اخلاقی نے جناب خدیجہؑ کو گرویدہ بنا لیا اور ان سے پیشکش کی کہ شام تجارت کیلئے جائیں ، قرارداد کی بنیاد پر خدیجہؑ نے اجرت پیغمبرؐ کو دی جو دوسروں کی اجرت سے زیادہ تھی ،جناب خدیجہؑ نے میسرہ نامی ایک غلام بھی آنحضرؐت کے حوالہ کیا تاکہ اسے اپنے ساتھ لے جائیں ، رسولؐ نےجناب خدیجہؑ کی پیشکش کو قبول کرلیا اور شام کی جانب گئے(اس سفر میں پیغمبرؐ اپنے چچا جناب ابو طالبؑ کے ہمراہ تھے) ایک راہب کےدیر کے قریب پیغمبرؐ درخت کے سایہ میں اترے راہب نے میسرہ سے پوچھاکہ یہ شخص کون ہےجو درخت کے نیچے ہے؟ میسرہ نے کہا یہ ایک قریش کا شخص ہے، مکہ کا رہنے والا ہے، راہب نے کہا کہ اس درخت کے نیچے سوائے پیغمبرکے کوئی نہیں اترتاہے۔
رسول ؐاکرم نے جناب خدیجہؑ کے تمام مال کو شام میں فروخت کیا اور کچھ جنسوں کی خریداری کر کے قریش کے قافلہ کے ساتھ مکہ واپس ہوئے،جناب خدیجہؑ نے رسولؐ اکرم کے خریدے ہوئے مال کو فروخت کردہ مال کے مقابلہ میں دوگنا یا اس سے زیادہ پایا،جناب خدیجہؑ نے میسرہ سے پوچھا کہ سفر میں محمد ؐکے سلسلہ میں تم نے کیا دیکھا؟ اس نے پیغمبرؐ کے معجزات ،صداقت، امانتداری اور کثرت ایثار کو بیان کیا، جناب خدیجہؑ میسرہ کی باتوں کو غور سے سنتی رہیں ، پیغمبرؐ امین محمد عربی کا چہرہ درخشاں مجسّم ہو کر نگاہ میں نقش ہو گیا پھر میسرہ کی باتوں کو سننے کا حوصلہ باقی نہ رہا۔([12])
خداوندعالم نےچاہا کہ اس پاکیزہ خاتون کی نگاہ میں محمدؐ کی زیادہ سے زیادہ عظمت پیدا ہو جائے۔
جناب خدیجہؑ نے ایک شب خواب میں دیکھا کہ خورشید شہر مکہ کے اوپر چکر لگاتا ہوا ان کے گھر میں اترا ہے اپنا خواب ورقہ سے بیان کیا ، ورقہ نے تعبیر دی کہ تمہاری شادی کسی بزرگ شخصیت سے ہو گی جس کو عالمی شہرت حاصل ہوگی۔([13])
جناب خدیجہؑ اپنے خورشید تاباں کو صرف امین مکہ فرزند عبداللہؑ کے ملکوتی چہرۂ زیبا میں دیکھ رہی تھیں ، انہیں معلوم تھا کہ سعادت ، تقویٰ اور خدا شناسی کے شجر سایہ دار میں ہے جس کےحامل محمدؐ ہیں ، جناب خدیجہؑ کے ایمانی دل میں پیغمبرؐ کا عشق سما گیا انہیں بس اسکا انتظار تھا کہ وہ وقت آجائے جب محمدؐ سے حقیقی محبت کا اظہار کرسکیں ۔
پیغمبرؐ کے جناب خدیجہؑ سے ازدواج کے بارے میں مختلف باتوں کو نقل کیا گیا ہے ان میں مشہور یہ ہے کہ جناب خدیجہؑ حضرت محمدؐ سے خواستگاری کیلئے گئیں اور کہا میں آپ کی ممتاز امانتداری،صداقت، خوش اخلاقی کی بنا پر آپ سے محبت کا دم بھرتی ہوں اور چاہتی ہوں کہ آپ کی زوجیت میں آجاؤں ۔([14])
پیغمبرؐ نے جناب خدیجہؑ کی پیشکش کو قبول کرتے ہوئے اپنے چچا ؤں کے پاس جا کر ورقہ کو خبر دی، ابو لہب نے کہا: بھتیجے! ہمیں عرب کے لوگوں کی زبان پر نہ لاؤ، تم جناب خدیجہؑ کے لائق نہیں ہو! عباسؑ نے غصہ میں ابو لہب سے کہا : تم پست اور بد کردار شخص ہو، جناب خدیجہؑ کو بھتیجےکے بارے میں کیا اعتراض ہو سکتا ہے ان میں جمال و کمال دونوں موجود ہے، جناب خدیجہؑ جمال، کمال اور مال کی وجہ سے خود کو ان سے برتر کیسے سمجھ سکتی ہے، قسم ہے خدائے کعبہ کی اگر اسے مہر کامطالبہ ہوگا تو میں اپنے گھوڑے پر سوار ہو کر بیابانوں میں گردش کروں گا بادشاہوں کے پاس جاکر جناب خدیجہؑ کا مطالبہ پورا کروں گا۔([15])
اس کے بعد جناب ابو طالب بنی ہاشم کے کچھ لوگوں کے ساتھ جناب خدیجہؑ کے گھر گئے اور ورقہ کی موجودگی میں مراسم عقد کا آغاز اس طرح کیا۔([16])
حمد ہے اس خدا کی جس نے ہمیں جناب ابراہیمؑ کی ذریت اور فرزند اسماعیلؑ میں قرار دیا ہمیں ایسا گھر عطا کیا جو حج و امن کو قائم کرنے کیلئےہے جس کی جانب ہر چیز کا انجام ہے ہمیں لوگوں کا حاکم بنایا، ہماری قیامگاہ کو با برکت بنایا، میرےبھتیجے محمدؐ کا مثل و نظیر قریش کے لوگوں میں کوئی نہیں ہے وہ سب سے زیادہ متّقی ، عقلمند اور نجیب ہے ، اگر ان کے پاس مال کم ہے تو حقیقتاًمال ختم ہونے والے سایہ کی طرح ہے ، عاریت ہے جو لے لیا جاتا ہے،ان کا میلان جناب خدیجہؑ کی جانب ہے اورجناب خدیجہؑ ان سے محبت کرتی ہیں ۔([17])
جناب ابو طالبؑ نے ورقہ سے کہا: ہم جناب خدیجہؑ سے خواستگاری کیلئے آئے ہیں کہ وہ راضی ہو جائیں تو جو بھی مہرطلب کریں وہ ہم اپنے مال سے دیں گے، ورقہ اپنے زمانہ کے عظیم عالم تھے جناب ابوطالبؑ کی بات سن کر جواب سے عاجز ہو گیا اس کی گفتگومیں لرزش اور اضطراب پایا گیا اور جواب نہ دے سکا، جب جناب خدیجہؑ نے یہ حالت دیکھی تو کسی حد تک پردہ حیا کو اٹھایا اور بزبان فصیح ورقہ سے کہا اگرچہ آپ مجھ سے زیادہ گفتگو کرنے میں اولویت رکھتے ہیں لیکن مجھ سے زیادہ اس مسئلہ میں آپ کا اختیار نہیں ہے۔
جناب خدیجہؑ نے کہا کہ میں نے خود کو محمدؐ کی زوجیت میں دیدیا اور میرا مہر میرے مال سےہے، اپنے چچاسے کہو کہ ولیمہ کیلئے ایک ناقہ ذبح کریں اور جس وقت چاہو اپنی زوجہ کے پاس آؤ، اس کے بعد جناب ابو طالبؑ نے کہا : اے لوگو! گواہ رہنا کی جناب خدیجہؑ نے خود محمدؐ سے تزویج کی ہے اور مہر کی خود ضامن ہوتی ہیں ، قریش کے ایک شخص نے کہا :تعجب ہے کہ مہر کی ذمہ دار عورتیں ہو رہی ہے، جناب ابو طالبؑ غضبناک ہوئے اور کہا کہ اگر دوسرے شوہر میرے بھتیجوں کے مثل ہوئے تو عورتیں گران ترین قیمت اور بلند ترین مہر ان سے طلب کریں گی، پھر جناب ابو طالبؑ نے اونٹ کو نحر کیا اور صدف انبیاءؑ اور صدف گوہر خیر النساءؑ کے درمیان عقد ہوا۔([18])
ازدواج کے وقت جناب خدیجہؑ کی عمر:
مؤرخین اور سیرت نگاروں کے درمیان اس بارے ہیں بہت اختلاف پایا جاتا ہے کہ وقت ازدواج جناب خدیجہؑ کی عمر کیا تھی ؟ پیغمبرؐ سے ازدواج کے قبل جناب خدیجہؑ کی شادی ہوئی تھی یا نہیں ؟ لیکن مشہور روایت یہ ہے کہ پیغمبر اسلامؐنے پچیس سال کے سن میں چالیس سالہ جناب خدیجہؑ سے ازدواج کیا اور اس سے قبل جناب خدیجہؑ کی دو شادی ہو چکی تھی ۔
قتادہ کا بیان ہے کہ پیغمبر ؐسے پہلے عتیق بن عائذ بن عبد اللہ بن عمرو مخزومی سے شادی ہوئی تھی اور ان سے ایک لڑکی بھی جناب خدیجہؑ کے یہاں پیدا ہوئی تھیں ، عتیق کے انتقال کے بعد ابو ہالہ تمیمی سے ازدواج ہوا،ان سے بھی اولاد ہوئی ، جناب خدیجہ کی پیدائش عام الفیل سے پندرہ سال پہلے ہوئی اور پیغمبرؐ سے ازدواج کے وقت چالیس سال کی تھیں ۔([19])
ابن اثیرنےبھی لکھا ہے کہ جناب خدیجہؑ کی پیغمبرؐسےشادی کے قبل دوشادیاں ہوچکی تھیں اورنبی کریم ؐسےازدواج کےوقت چالیس سال کی تھیں ۔([20])
لیکن کچھ مؤرخین نے لکھا ہے کہ ازدواج خدیجہؑ با پیغمبرؐ اسلام اس وقت ہوا جب جناب خدیجہؑ کی عمر اٹھائیس سال تھی، اس نظریہ کا مدرک وہ حدیث ہے جو ابن عباسؑ سےمنقول ہے ان کا عقیدہ ہے کہ پیغمبر اکرم ؐسے ازدواج سے قبل جناب خدیجہؑ کا کوئی عقد نہیں ہوا ۔
الاستغاثہ کے مصنف لکھتے ہیں پیغمبرؐ سے ازدواج کے قبل جناب خدیجہؑ نے شادی نہیں کی تھی رقیہ اور زینب جناب خدیجہؑ کی لڑکیاں نہیں ہیں بلکہ جناب خدیجہؑ کی بہن ہالہ کی لڑکیاں ہیں ، ہالہ شوہر کی وفات کے بعد فقر وفاقہ کی حالت میں آگئی تھیں تو جناب خدیجہؑ نے ہالہ اور ان کی لڑکیوں کی پرورش کی، ہالہ جناب خدیجہؑ کی پیغمبرؐ سے شادی کیلئے واسطہ ہوئیں اس ازدواج کے بعد ہالہ کا انتقال ہوگیا ۔
لڑکیاں جناب خدیجہؑ اور پیغمبرؐ کی کفالت میں رہیں ، زمانہ جاہلیت میں چونکہ ہر منہ بولے فرزندکواس کا حقیقی فرزند ماناجاتاتھا اسی لئے رقیہ اور زینب کو پیغمبر ؐ کی بیٹی کہا گیا ہے ،تمام مورخین کا عقیدہ ہے کہ پیغمبر ؐسے ازدواج کے قبل عرب کے بہت سے مالدار ونامی گرامی لوگ جناب خدیجہؑ سے عقد کے طلبگار تھےکیونکہ انہوں نے شادی نہیں کی تھی تو ایسی صورت میں اگر وہ چالیس سال کی ہوتیں تو اتنی زیادہ لوگوں کی توجہ کا مرکز نہ ہوتیں ۔([21])
مکہ کی عورتوں کی جناب خدیجہؑ سے کنارہ کشی:
پیغمبر اکرم ؐسے ازدواج کے قبل سے ہی جناب خدیجہؑ عظیم خاتون اور شان ومنزلت کی حامل تھیں ان کےدر دولت پر فقیروں کی آمد ورفت رہتی تھی محلہ اور قوم کی عورتیں ان کے شمع وجود کے گرد پروانہ وار رہتی تھیں ۔
لیکن جب ان عفت مآب پاکیزہ خاتون نے جوان ویتیم پیغمبر ؐاسلام سے ازدواج کرلیا تو عورتوں نے یتیم سے رشتہ کا طعنہ دیا گویا وہ پیغمبرؐکی خوش کرداری ،راست گوئی، اور امانتداری سے بیگانہ تھیں اور ان کے طعن وتشنیع نے جناب خدیجہ کو رنج وغم میں مبتلا کیا ان عورتوں نے جناب خدیجہ سے قطع تعلق کرلیا ۔
اِنَّ خَدِیجَة لَمَّا تَزَوَّجَ بِھَا رَسُولُ اللہِ ھَجَرَتھَا نِسوَةُ مَکَّة فَکُن لَایَدخُلنَ عَلَیہَا وَلایَترُکنَ اِمرَاةً تَدخُل عَلَیہَا۔([22])
ازدواج کے بعد عورتوں نے اس حد تک کنارہ کشی کرلی کہ نہ خود جناب خدیجہؑ کے گھر جاتی تھیں ، نہ دوسری عورتوں کو جانے کی اجازت دیتی تھیں ۔
جناب خدیجہؑ جانتی تھیں کہ زنان مکہ کی اس بد سلوکی سے ان کے روحانی اور معنوی مقام میں اضافہ ہوگا انہوں نے عورتوں کو جمع کرکے کہا :میں نے سنا ہے کہ تمہارے شوہر میرے اوپر تنقید اور اعتراض کرتے ہیں کہ میں نے محمدؐ سے کیوں ازدواج کیا میں تم سے پوچھتی ہوں کہ کیا محمدؐ کے مثل خوبصورتی،خوش کرداری،اصل ونسب میں فضل وشرف میں مکہ اور دوسرے مقامات پر کوئی موجود ہے؟
جناب خدیجہؑ نے اس سوال کے ذریعہ انہیں سمجھایا کہ محمدؐ کا کوئی مثل ونظیر نہیں ہےلیکن تمہارے دلوں سے جہالت کا زنگ صاف نہیں کرسکتا اور تمہارے طریقہ کار میں تبدیلی نہیں لاسکتا ہے۔
مونس جناب خدیجہؑ :
امام جعفر ؑصادق کا ارشاد گرامی ہیکہ جناب خدیجہؑ پیغمبر ؐاسلام سے ازدواج کے بعد معاشرہ سے کٹ کر تنہا رہ گئی تھیں جناب فاطمہؑ جب مادر گرامی کے شکم میں تھیں تو وہ ان کی مونس اور ہم گفتگو تھیں ان سے باتیں کرتی رہتی تھیں انہیں صبر وحلم کی دعوت دیتی تھیں جناب خدیجہؑ نے اس امر کو پیغمبرؑسے پوشیدہ رکھا تھا یہاں تک کہ ایک روز پیغمبرؐاچانک گھر میں تشریف لائے اور جناب فاطمہؑ کی خدیجہؑ سے گفتگو کو سن لیا توجناب خدیجہؑ سے پوچھاکس سے بات کررہی تھیں ؟
جناب خدیجہؑ نے کہا کہ جو بچہ میرے شکم میں ہے وہ میری تنہائی کا مونس ہے مجھ سے محو کلام رہتا ہے،پیغمبرؐاسلام نے فرمایا اے خدیجہؑ !مجھے جبرئیل نے خبردی ہے کہ یہ بچہ بیٹی ہے اسی سے میرا نسب چلے گا، خدانے میری نسل اسی کے ذریعہ قراردی ہے،میرے بعد اس کی اولاد ائمہ طاہرین ؑاور خلفاء روئے زمین پر ہوں گے۔
جناب فاطمہ ؑولادت کے وقت تک جناب خدیجہ سے محو گفتگو رہتی تھیں جو ماں کیلئے انسیت کا باعث تھا جب وقت ولادت قریب آیا خدیجہ نے قریش کی عورتوں کو پیغام دیا کہ وضع حمل کا زمانہ قریب ہے میرےپاس آؤ،اور میری مددکرو لیکن عورتوں نے آنے سے انکار کردیا جناب خدیجہ کو بیحد رنج پہونچا ،ناگہاں چار عورتیں مثل زنان بنی ہاشم جناب خدیجہ کے گھر میں داخل ہوئیں اور کہا خدیجہ ؑ غمگین نہ ہو خدا نے ہمیں تمہاری مددکیلئے بھیجا ہے ہم تمہاری بہنیں ہیں اور مددگار ہیں میں سارہ ؑہوں ،یہ آسیہؑ بنت مزاحم ہیں ، یہ مریمؑ بنت عمران ہیں اور چوتھی کلثوم خواہر موسیٰؑ ہیں ،یہ چار عورتیں خدیجہ ؑکے گرد بیٹھ گئیں اور جناب فاطمہ ؑزہرا کی ولادت باسعادت ہوئی جب جناب فاطمہؑ نے زمین پر قدم رکھا تو ایک نور انکی پیشانی سے ساطع ہوا جس کا پرتو مکہ کے تمام گھروں میں آیا بہشت کی حوریں جو خانہ خدیجہؑ میں موجود تھیں ایک دوسرے کوولادت جناب فاطمہؑ کی مبارک باد دے رہی تھیں پھر ان چاروں عورتوں نے نو مولود کو خدیجہ ؑ کی خدمت میں دے کرکہا خدیجہ ؑ اس مولود پاک وپاکیزہ کو لو،بے حساب برکت الٰہی اس کے اور اس کی نسل کے وجود میں ہے جناب خدیجہ ؑ نے نہایت خوشی کے ساتھ نومولود کو اپنی آغوش میں لے لیا۔([23])
جناب خدیجہ ؑ اور بعثت رسول اکرمؐ:
جناب خدیجہ ؑ نے متعدد باریہودی علماء سے آخری پیغمبرؐ کے مقام ظہور مکہ کیلئے سن رکھا تھا انہوں نے ازدواجی زندگی کے روزاول سے یہ امید کرتی تھیں کہ محمد ؐمقام نبوت پر فائز ہوں گے یہاں تک کہ پندرہ سال ازدواجی زندگی گزارنے کے بعد چالیس سال کی عمر میں غار حرا میں خداوندعالم کی جانب سے عظیم رسالت پر مامور ہوئے گھر واپس آکرواقعہ جناب خدیجہؑ سےبیان کیا۔
خدیجہ ؑ نے کہا: اِبشِر یَا بنَ عَمِّی وَاثبِت فَوَالَّذِی نَفسَ خَدِیجَةَ بِیَدِہِ انِّی لَأَرجُو اَن تَکُونَ نَبِیَّ ھٰذَہِ الأُمَّة۔([24])
پسر عم مبارک ہو، ثابت قدم رہو ، قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں خدیجہ ؑ کی جان ہے مجھے امید ہے تم اس امت کے پیغمبرؐ ہو۔
پیغمبر ؐ نےجناب خدیجہ ؑ سے فرمایا : لَقَد خَشِیتُ عَلیٰ نَفسِی۔ مجھے خوف لگ رہا ہے،آنحضرتؐ کا خوف یہ تھا کہ اس وقت کا معاشرہ ان کی دعوت کو قبول نہ کرے۔([25])
استاد جعفر سبحانی : حضرت محمد ؐ کے خوف کے بارے میں لکھتے ہیں : ”یہ اضطراب ایک حد تک طبیعی تھا اور ان کے یقین و اطمینان کے منافی نہ تھا انہیں یقین تھاکہ جو کچھ انہیں ملا ہے وہ پیغام الٰہی ہے ، لانے والے جبریل ؑہیں لیکن یہ اضطراب طبیعی اور بے مورد نہیں تھا کیونکہ روح چاہے کتنی ہی توانا ہو اور کتنا ہی اس کا رابطہ عالم غیب و روحانیت سے مستحکم ترہو لیکن شروع میں جب فرشتہ کو پہلی بار دیکھا وہ پہاڑ کے اوپر تویہ اضطراب، وحشت اور خوف فطری تھا اور بعد میں یہ اضطراب ختم ہو گیا۔“ ([26])
اس میں شبہہ نہیں کہ جناب خدیجہ ؑ کا کردار اس اضطراب کو ختم کرنے میں بہت مؤثر تھا انہوں نے نہایت شائستہ اندازمیں آگاہی اور واقفیت کے ساتھ اسلام کو قبول کیا اور سابقین اسلام کا افتخار حاصل کر لیا ، خدیجہؑ بعثت کے پہلےمرحلہ سے پیغمبرؐ کے پہلو میں کھڑی رہیں اور اپنی جان اور مال سے پیغمبرؐ کی مدد کی ، وہ پہلی خاتون ہیں جنہوں نے پیغمبر ؐکی دعوت کو قبول کیا۔ ([27])
لیکن بعض منابع میں اس سلسلہ میں ایسے مطالب کا تذکرہ ہے جو رسالتمآبؐ کی منزلت کی توہین کا سبب ہوتا ہے جیسے مناقب آلؑ ابیطالب میں محمد بن کعب اور عائشہ سے منقول ہے کہ نزول وحی کے بعد آنحضرتؐ خوفزدہ اور ہراساں خدیجہؑ کے پاس آئے اور فرمایا: لَقَد خَشِیتُ عَلیٰ عَقلِی۔ میں ڈرتا ہوں کہ میری عقل زائل ہوگئی ہے۔
اسی طرح اسدا لغابہ میں آیا ہےکہ جناب پیغمبرؐ اسلام نے جب نزول وحی کو خدیجہؑ سے بیان کیا تو اس وقت وحی کے بارے میں مشکوک تھے ، خدیجہؑ انہیں ورقہ کے پاس لے گئیں ورقہ نے آنحضرت ؐسے سوال کیا : مَاذَا تَریٰ؟ فَاخبر رَسُولَ اللہ! آپ نے کیا دیکھا؟
تو رسول اللہ ؐنے واقعہ ورقہ سے بیان کیا اور اس نے آنحضرتؐ کو نزول وحی کی بشارت دی اور آپ کو سکون ہوا۔([28])
ایمان جناب خدؑیجہ علم کے ساتھ:
زمانۂ جاہلیت میں عورتیں بے چوں و چرا مردوں کے عقائد کی تابع ہوتی تھیں کیا ایمان خدیجہؑ بھی ایسا ہی تھا؟
اگر یہ فرض کر لیں تو وہ ایمان جو پیغمبر اسلام ؐکی روحانی معنوی تاثیر سے کسی کو حاصل ہوتا ہےوہ قابل قدر و قیمت ہوتا ہے، اسکی کیاحیثیت ہوگی؟
حقیقت یہ ہے کہ جناب خدیجہ ؑ کا ایمان علم و آگہی کے ساتھ تھا،انہوں نے علماء یہود سے معلوم کر کے نبوت کی علامتوں کو اپنے شوہر کے اندر دیکھا تھا۔([29])
بعثت سے قبل پندرہ سالہ پیغمبر ؐکے ساتھ ازدواجی زندگی کے دوران قرائن کا مشاہدہ کر کے نزول وحی کا انتظار ہورہا تھا، قبل بعثت ایک روز پیغمبرؐ نے جناب خدیجہ ؑسے فرمایا: میں جب تنہائی میں ہوتا ہوں تو کچھ آوازیں سنتا ہوں جناب خدیجہ ؑ نے کہا خداوندعالم آپ کیلئے خیروخوبی کے علاوہ کوئی کام انجام نہیں دے گا، خدا کی قسم تم امانت کو ادا کرتے ہو ، صلۂ رحم انجام دیتے ہو اور صادق ہو۔([30])
جناب خدیجہ ؑ نے بارہا آخری آسمانی پیغمبرؐ کی بعثت کی بشارت علماء یہود و نصاریٰ سے سن رکھی تھی، وہ اپنے شوہر کیلئے وحی کی منتظر اور ان کی دعوت کے قبول کرنے کیلئے آمادہ تھیں ۔([31])
نزول وحی کے بعد حضرت محمدؐ گھر میں داخل ہوئے ،جناب خدیجہ ؑ نے کہا:محمدؐ یہ کیسا نور ہے، جو میں آپ کے اندر دیکھ رہی ہوں ، آنحضرتؐ نے فرمایا: یہ پیغمبری کا نور ہے۔ کہو! لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہ، مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللہ۔ جناب خدیجہ ؑ نے نہایت سکون و اطمینان سے عرض کیا کہ میں برسوں سے آپ کی پیغمبری کا انتظار کر رہی ہوں ، اس وقت زبان پر کلمۂ شہادتین جاری کیا، ایمان لائیں ایسا ایمان جو معرفت اور اخلاص سے معمور تھا۔([32])
حضرت علیؑ نے فرمایا کہ ان دنوں میں اسلام سوائے رسولخدا ؐاور خدیجہؑ کے گھر کے دوسری جگہ نہ تھامیں تیسرا وہ شخص ہوں جو اسلام لایا۔ (ظاہر ہے یہ اسلام کا اظہار ہے یہ لوگ پہلے سے اسلام والے تھے اس وقت اظہار کا موقع ملا، امیر المومنینؑ کے الفاظ سے پتہ چلتا ہے کہ یہ صرف اظہار اسلام ہے ورنہ پیغمبرؐ کے اسلام لانے کا کیا سوال ہوتاہے)۔ ([33])
نماز ؛ پیغمبر ؐکی اقتدا میں :
ہشام نے نقل کیا ہے کہ ایک روز جبریل ؑامین پیغمبرؐ پر نازل ہوئے اور اپنے پیر سے پہاڑ کے کنارہ پر ضرب لگائی پانی کا چشمہ جاری ہو گیا ، جبریل ؑنے پیغمبر ؐکے سامنے وضو کیا پھر پیغمبر ؐنے بھی اسی ترتیب سے وضو کیا ، جبریل ؑنے نماز پڑھی ، پیغمبر ؐنے بھی اسی طرح نماز ادا کی اس کے بعد رسولخداؐ ، خدؑیجہ کے پاس آئے وضو اور نماز کی انہیں تعلیم دی اس کے بعد خدؑیجہ نے بھی نبی کے پہلو میں نماز ادا کی۔
ابو یحییٰ بن عفیف اپنے والد سے اور وہ ان کے جد سے جو مشہور تاجر تھے نقل کرتے ہیں کہ زمانہ جاہلیت میں مکہ گیا ، میں اور عباس بن عبد المطلبؑ کعبہ کے پاس بیٹھے تھے زوال کا وقت ہو گیا تو میں نے دیکھا کہ ایک جوان شخص آیا آسمان کی طرف نگاہ کی اور کعبہ کے سامنے کھڑا ہوا پھر ایک دوسرا شخص جوان آیا وہ اس کے داہنے جانب کھڑا ہوگیا پھر ایک عورت آئی وہ پیچھے کھڑی ہوگئی یہ عجیب منظر تھا کہ سب کے سب رکوع اور سجود انجام دے رہے تھے۔
میں نے عباسؑ سے کہا کہ یہ عجیب چیز ہے انہوں نے جواب دیا تھا جانتے ہو یہ شخص کون ہے؟ میں نے کہا : نہیں ، انہوں نے فرمایا کہ یہ محمد ؐبن عبد اللہ ہیں اور دوسرے علیؑ بن ابیطالبؑ اور یہ خاتون خدیجہؑ بنت خویلد ،زوجہ ہیں میرے چچا زاد بھائی (محمدؐ) کی۔ ([34])
اس بنا پر جناب خدیجہ ؑ کو اسلام کے اظہار میں سبقت تو حاصل تھی ہی اس کے ساتھ وہ پہلی خاتون ہیں جنہوں نے پیغمبر ؐ کے ساتھ نماز ادا کی۔ ([35])
پیغمبرؐ اسلام کی حمایت:
بعثت کے ابتدائی ۳ سال میں جب پیغمبر ؐ پوشیدہ طورپراسلام کی جانب دعوت دے رہے تھے تواس وقت آنحضرتؐ کیلئےزیادہ دشواری نہیں تھی بعثت میں جب آیۂ وَأَنذِرعَشِیرَتَكَ الأَقرَبِین نازل ہو ئی تو اس کے ذریعہ پیغمبر ؐ .کو ظاہر بظاہر دعوت اسلام کا حکم ملا اس کے بعد سے آنحضرتؐ کو بہت زیادہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، اس زمانہ میں جناب ابو طالبؑ ، خدیجہؑ اور حضرت علیؑ نے دل و جان سے آپ کی حمایت کی، جناب خدیجہؑ کی اس زمانہ میں خدمات دو اعتبار سے بہت زیادہ قابل قدر ہیں ۔
(۱ )اجتماعی : جناب خدیجہؑ اجتماعی عزت و احترام کی بنا پر بارہا پیغمبرؐ کو جاہلوں کے شر سے چھٹکارا دلانے کی کوشش کرتی رہیں ، پیغمبرؐ اسلام زمانہ حج میں کوہ ِصفا پر گئے اور بآواز بلند کہا : لوگو! میں خدا کا فرستادہ ہوں پھر کوہ ِمروہ پر گئے اور تین بار انہیں الفاظ کی تکرار کی متعصب اور جاہل عرب ہاتھوں میں پتھر لے کر پیغمبرؐ کے پیچھے چلے ابو جہل نے ایک پتھر پھینکا جو آنحضرتؐ کی پیشانی پر لگا اور خون جاری ہو گیا،پیغمبرؐ کوہِ ابو قبیس پر گئے مشرکین ان کے پیچھے چلے ، حضرت علیؑ نے جناب خدؑیجہ کو جا کر اس کی اطلاع کی، جناب خدؑیجہ کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے ، کھانے کا برتن اٹھایا اور پیغمبر کی تلاش میں حضرت علیؑ کے ساتھ پہاڑوں اور صحراؤں میں نکلیں ، خدؑیجہ آواز دیتی جاتی تھیں :اے رسولخداؐ آپ کہاں ہیں ؟ ([36])
اس وقت جبریل پیغمبرؐپر نازل ہوئے اور کہا : خدیجہؑ آپ کے پیچھے روتی ہوئی آرہی ہیں ان کے ساتھ کھانے اور پانی کا برتن ہے ا س کو پلائیے اورکہہ دیجئےکہ خدا تمہیں سلام پہونچاتا ہے اور ان کو اس بہشتی گھر کی بشارت دے دیجئے جو نور سے مزین کیا گیا ہے، جناب خدؑیجہ اور حضرت علیؑ پیغمبرؐ کو تلاش کر کے گھر لائے لوگ جناب خدؑیجہ کےمکان پر حملہ آور ہوگئے اس پر سنگباری کی ، جناب خدؑیجہ باہر آئیں اور خود کو دشمن کے پتھر کی سپربنا دیا اور کہا :کیا تمہیں اس خاتون کےمکان کو سنگ باری سے شرم نہیں آتی ہے جو تمہاری قوم کی نجیب ترین عورت ہےلوگ ان کی بات سن کر منتشر ہو گئے،خدؑیجہ پیغمبرؐ کی خدمت کیلئے گھر میں آگئیں پیغمبر ؐنے انہیں خدا کا سلام پہونچایا، خدیجہ ؑنے کہا: اِنَّ اللہَ هُوَ السَّلَامُ وَمِنهُ السَّلَامُ وَعَلیٰ جِبرِیلَ السَّلَامُ وَعَلَیكَ یَا رَسُولَ اللہِ السَّلَامُ وَبَرَکَاتُه۔ ([37])
(۲)مالی حمایت:ازدواج پیغمبر ؐکے بعد سےجناب خدؑیجہ درجہ بدرجہ خدا کی بارگاہ سے قریب ہوتی رہیں ، اس راہ میں انہیں کسی طرح کا احساس خستگی نہیں ہوا بلکہ انسانی شرافت کی بلندتر ین مقام تک پہونچنے کیلئے تمامتر وسائل سے استفادہ کرتی رہیں ۔
جناب خدؑیجہ اپنی بلندترین مالی انتظام کی صلاحیت کی بنا پرتجارت کے ذریعہ بہت زیادہ مال حاصل کرچکی تھیں ان کا شمار جزیرہ عرب کی عظیم ترین دولتمند خاتون میں تھالیکن انہوں نے مال و زر سے دل نہ لگایا بلکہ ان کامقصدروحانیت اور معنویت کا حاصل کرنا تھا انہوں نے پیغمبرؐاسلام سے ازدواج کے موقع پر کہا تھا: أَنَا وَ مَالِی وَ جِوَارِی وَ جَمِیع مَا أَملِكُ بَینَ یَدَیكَ وَ فِی حُکمِكَ لَاأَمنَعُكَ شَیئًا۔
میں اور میرا مال سب آپ کی خدمت میں ہے اور وہ تمام چیزیں جو مجھ سے متعلق ہیں آپ کے اختیارمیں آپ کے زیر فرمان ہے، میں کبھی آپ کیلئے اس میں تصرف کرنے کیلئے مانع نہیں ہوں گی۔ ([38])
پیغمبرؐاسلام نے جناب خدیجہؑ کے مال سے اسلام کی نشرو اشاعت میں استفادہ کیا ، شعب ابو طالبؑ میں سماجی بائیکاٹ اور اقتصادی محرومی کےزمانہ میں جناب خدیجہؑ نے تمام اثاثہ شعب میں رہنے والوں کیلئے قرار دیدیا تھا اور وہ مسلمانوں کیلئے نجات و سکون کا سبب بنا تھا۔ ([39])
جناب خدیجہؑ نے شعب ابو طالبؑ میں غذا رسانی کیلئےاپنے چچازاد بھائی حکیم بن حزام سے خدمت لی ایک روز اپنے غلام کے ساتھ تھوڑا گیہوں شعب میں لے جارہے تھے کہ درمیان راہ ابو جہل کا سامنا ہوا، ابو جہل نے کہا : کیا تم غذا بنی ہاشم کیلئے لےجا رہے ہو؟ میں تمہیں اس جگہ سے آگے نہیں جانے دوں گا ،تمہیں مکہ تک ذلیل کروں گا، ابو جہل کابھائی ابو البختری بھی پہونچ گیا،ابو جہل سے کہا کہ یہ غذا اس کی پھوپھی جناب خدیجہؑ کا مال ہے کیا تم نہیں چھوڑو گے کہ مال خدؑیجہ ان کے پاس لےجائے۔ ([40])
ان افرد میں سے جو پوشیدہ طور پر شعب والوں کیلئے غذا پہونچاتے تھے ان میں سے ایک ابو العاص جناب خدیجہؑ کے داماد تھے۔ (یہ دراصل ہالہ خواہر خدیجہؑ کے داماد تھے) ایک روز پیغمبرؐ نے اصحاب کے مجمع میں ان کے بارے میں فرمایا کہ ابوالعاص نے حق دامادی ادا کیا۔ (زینب بنت ہالہ ،ابو العاص کی زوجہ تھیں ، اسد الغابہ میں زینب بنت پیغمبرؐ لکھا گیا ہے جو درست نہیں ہے۔) جب ہم شعب میں محصور تھے وہ راتوں کو غذا اونٹ پر لاد کر شعب کے دروازہ تک لاتےتھے پھر اونٹ کی مہار چھوڑدیتے تھے اور شعب کی جانب اس کو ہنکا دیتے تھے،ہم وہ غذا لےلیتے اور آپس میں تقسیم کر لیتے۔ ([41])
جناب خدؑیجہ کی زندگی مال کی کثرت طلب پر خط بطلان ہے اور آج کی عورتوں کیلئےدرس ہے کیونکہ خانوادہ کی سعادت مندی ، صداقت ، کرامت ، ایثار ، فداکاری اور محروم افراد کی مددسےہوتی ہے، مادیات اور کثرت طلب سے نہیں ہوتی۔
پیغمبروں ؑ کی بعثت کا ایک مقصد یہ بھی تھا کہ ستم رسیدہ افراد کی نجات اور محتاجوں کی مدد کرنا اسی وجہ سے جب پیغمبرؐ اپنی دعوت کا آغاز کرتے تھے تو غریب اور مظلوم افراد زیادہ ان کی دعوت کو قبول کرتے تھے جب کہ مالدار کم ہوتے تھے۔
جناب خدؑیجہ نے پیغمبرؐ کے ساتھ ازدواجی زندگی میں ایک ہی لائحہ عمل رکھا اور نہایت حسین جملہ میں کہا: اِشہَدُ وا أَیُّہَا النَّاس إِنِّی وَ مَا أَملِكُ لِمُحَمَّدٍ ۔
لوگو! گواہ رہنا کہ میں خود اور میرا مال سب محمدؐ کا ہے، اپنا مال اپنے امین شوہر کے حوالہ کر دیا جس سے پیغمبرؐ نے غریبوں کی مدد کی اور اسلام کی پیشرفت میں استفادہ کیا،جناب خدیجہؑ کی دولت کا فائدہ ابتداءبعثت میں اتنا ہوا کی نبی ؐنے فرمایا : مَا نَفَعَنِی مَال کَمَا مَالَ خَدِیجَة کوئی مال میرے لئے مال جناب خدیجہؑ سے زیادہ منفعت بخش نہیں رہا۔ ([42])
پیغمبرؐ اسلام کی نظر میں جناب خدؑیجہ کا مرتبہ:
جناب خدؑیجہ نےپیغمبرؐ اسلام کے ساتھ پچیس سالہ مشترک زندگی میں قلب پیغمبرؐ ؐمیں اتنی عظیم جگہ بنا لی تھی کہ جب تک وہ زندہ رہیں پیغمبرؐ نے کسی اور خاتون سے ازدواج نہیں کیا ، ان کی وفات کے بعد پیغمبرؐ برابر ان کی عظمت و خدمت کو بیان کرتے اور آنکھ سے آنسو بہاتے تھے، پیغمبرؐ اسلام نے جو کلمات جناب خدیجہؑ کی شان میں بیان کئے ہیں وہ ان کی عظمت اور رفعت کی دلیل ہیں ۔
(۱)ام سلمیٰ کا بیان ہے کہ جب جناب فاطمہؑ زہرا کا رشتہ حضرت علیؑ سے ہونے لگا تو اس درمیان میں جناب خدیجہؑ کا ذکر آگیا ، پیغمبرؐ نے گریہ فرمایا جب ان سے گریہ کا سبب پوچھا گیا تو فرمایا: خَدِیجَة أَینَ مِثلُ خَدِیجَة صَدَقَتنِی حِینَ کَذَبَنِی النَّاسُ وَآزَرَتنِی عَلیٰ دِینِ اللہِ وَأعَانَتنِی بِمَا لَہَا انَّ اللہَ أَمَرَنِی أَن أَبشِرُ خَدِیجَةَ بِبَیتٍ فِی الجَنَّةِ۔
خدیجہ ؑکے مثل کون ہے جب لوگ مجھے جھٹلا رہے تھے تو انہوں نے میری تصدیق کی، دین خدا کیلئے میری مدد کی ،اپنے مال سےمیری کمک کی ، خدا نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں خدیجہؑ کو جنت میں مکان کی بشارت دوں ۔ ([43])
۲پیغمبرؐاسلام برابر خدؑیجہ کو یادکرتے رہتے تھے اپنی ازواج کے درمیان ان کا تذکرہ کرتےایک روز عائشہ کے پاس تھے کہ خدؑیجہ کی یاد آئی اور رونے لگے عائشہ سے برداشت نہ ہوا اور کہا آپ کتنازیادہ خدؑیجہ کو یاد کرتے ہیں ، وہ بوڑھی خاتون تھیں خدا نے ان سے بہترآپ کو عطا کی ہیں ۔ ([44])
پیغمبرؐعائشہ کی اس گفتگو سے غمزدہ ہوئے اور فرمایا : بخدا خدیجہ ؑسے بہتر کوئی زوجہ مجھے نہیں ملی انہوں نے مجھ پر ایمان تب قبول کیا جب لوگ میرا انکار کر رہے تھے ،اس وقت میری تصدیق کی جب لوگ مجھے جھٹلا رہے تھے،انہوں نے تب مال سے میری مدد کی جب لوگ مال روک رہے تھے ، خدا نے ان سے مجھے اولاد عطا کی اور دوسرے سے اولاد نہیں ملی۔
عائشہ کا بیان ہے کہ جب میں نے پیغمبرؐ .کو غمزدہ دیکھا تو میں نے طے کرلیاکہ خدؑیجہ کا تذکرہ نیکی اور خوبی کے علاوہ نہ کروں گی۔ ([45])
لیکن عایشہ نے خدؑیجہ سے دلی حسد کو چھپا ئے رکھا۔
امام جعفر ؑصادق کا ارشاد ہے کہ ایک روز رسولؐ اکرم گھر میں داخل ہوئے، زہراؑ کے سامنےعائشہ کھڑی تھیں اور کہہ رہی تھیں : اے بنت خدیجہؑ! کیا تمہیں خیال ہے کہ تمہاری ماں مجھ پر فضیلت رکھتی ہیں جبکہ انہیں دوسری ازواج پیغمبرؐ پر فضیلت حاصل نہیں ہے؟ جناب فاطمہؑ نے گریہ کیا،پیغمبر ؐنے پوچھا: بیٹی کیوں رو رہی ہو؟ جناب فاطمہ ؑنےکہا کہ عائشہ نے میری والدہ کا تذکرہ نہایت منقصت اور کم مرتبہ کے ساتھ کیا، رسولؐ اکرم غصہ میں آگئے اور کہا عائشہ خدا اس عورت کو پسند کرتاہے جو اپنے شوہر کو دوست رکھتی ہے اور جو اولاد عطا کرتی ہے، خدا وند عالم خدیجہؑ پر رحمت نازل کرے وہ مجھے بہت چاہتی تھیں اور مجھے اولاد بھی عطا کی،عائشہ، خدا نے تمہیں عقیم رکھا ، تم سے کوئی فرزند نہیں پیدا ہوا۔ ([46])
(۳)پیغمبرؐ اسلام نے اپنے اصحاب سے فرمایا: مردوں میں بہت سے منزل کمال پر پہونچے لیکن عورتوں میں منزل کمال پر صرف مریم ؑبنت عمران ، آسیہؑ دختر مزاحم (زوجہ فرعون) خدیجہ ؑبنت خویلد اور فاطمہ بنت محمدؐ پہونچیں ۔ ([47])
(۴)ابن عباسؑ کا بیان ہے کہ پیغمبرؐ اسلام نے روئے زمین پر چار خط کھینچے اور فرمایا: کیا تم جانتے ہو یہ کیا ہے؟میں نے عرض کیا کہ خدا و رسولؐ بہتر جانتے ہیں ، پیغمبرؐ نے فرمایا: خواتینِ جنت میں بہترین خدیجہؑ بنت خویلد ، فاطمہؑ بنت محمد ، مریم ؑبنت عمران اور آسیہؑ بنت مزاحم ہیں ۔ ([48])
امام حسینؑ قبر جناب خدؑیجہ کے پاس:
انس بن مالک کا بیان ہے کہ میں امام حسین ؑکے ساتھ قبر خدیجہؑ کے پاس آیا تھوڑی دیر بیٹھے ، امامؑ نے مجھ سے فرمایا: تھوڑی دیر مجھ کو تنہا چھوڑ دو، میں ایک گوشہ میں بیٹھ گیا ، میں نے دیکھا کہ امام ؑاپنی دادی کی قبر کے پاس کھڑےہوئےہیں انہوں نے نماز ادا کی، مناجات کی اور کہا: پروردگار تو ہی میرا مولا ہے ، اس بندہ پر رحم کر، جو تیری پناہ میں آیاہے۔ ([49])
نیز امام حسینؑ کی زیارت میں ہم یہ جملے پڑھتے ہیں : اَلسَّلَامُ عَلَیكَ یَابنَ خَدِیجَةَ الکُبرَیٰ۔
جناب خدیجہ کا مرتبہ بزرگان دین کی نظر میں :
(۱) حذیفہ: خدؑیجہ خدا و رسولؐ پر ایمان لانے میں عورتوں میں سب سے سابق ہیں ۔ ([50])
(۲) ابن عباس : خدیجہؑ کی پہلی ذات ہے جس نے خدا و رسولؐ پر ایمان قبول کیا اور محمدؐ کی تصدیق کی کہ وہ جو کچھ لائے ہیں سب خدا کی جانب سے ہے۔ ([51])
(۳) ابن ہشام :پہلی ذات جس نے پیغمبر پر ایمان قبول کیا ان کی نبوت کی تصدیق کی، ان کے مقصد کو آگے بڑھانے میں ہر طرح مدد کی، وہ خدؑیجہ بنت خویلد تھیں، اس محترم خاتون کے اسلام سے رسولخداؑ کو روحانی تقویت ملی، مشرکین گھر کے باہر آنحضرتؐ کو بہت ستاتے تھے ، نازیبا کلمات کہتے تھے، ان کی بنوت کو جھٹلاتے تھے اور جب وہ گھر میں تشریف لاتے تھے تو صرف خدیجہ ؑکی ذات تھی جو انہیں تسلی دیتی تھی ، ان کے غموں کو دور کرتی اور تکلیفوں کو سرور و نشاط میں تبدیل کرتی تھی۔ ([52])
(۴) مسلم : خدؑیجہ پیغمبر ؐکی وزیر (مددگار) تھیں ، اسلام کی تصدیق کی، پیغمبرؐ کو ان کی وجہ سے سکون و اطمینان ملا۔ ([53])
(۵)ابن کثیر :خدؑیجہ ایک تاجر اور مال و شرافت کی حامل خاتون تھیں ، بہت سے مکہ کے بزرگوں نے خواستگاری عقد کیا لیکن انہوں نے سب سے انکارکیا۔ ([54])
(۶) زبیربن بکار:خدؑیجہ زمانۂ جاہلیت میں طاہرہ اور بزرگ خاتون قریش سے مشہور تھیں ۔ ([55])
(۷) عبد الحمید مہاجر:خدیجہ عرب کے شرافت و بزرگی کے لحاظ سے اصیل ترین گھر میں پیدا ہوئیں ، ان کا دل اخلاق پسندیدہ اور صفات حمیدہ سے سیراب تھا، ان کی قوم انہیں طاہرہ اور بزرگ قریش کے نام سے یاد کرتی تھی۔ ([56])
(۸) استاد توفیق ابوعلم :خدؑیجہ کا محمدؐ کے دل پر اتنا طاقتور جذب تھاکہ دوسرا کوئی اس طرح پیغمبرؐپر نفوذ نہیں کر سکتا تھاباوجودیکہ محمدؐکا آغاز جوانی تھااور عرف عادت تجدید فراش کی اجازت دیتی تھی اور اس کے اسباب بھی فراہم تھے لیکن اس کے باوجود جب تک جناب خدؑیجہ زندہ رہیں کوئی دوسری شادی نہیں کی، اس کے بعد موت نے ان کے درمیان جدائی ڈالی تب بھی برابر انہیں یاد کرتے رہے، عائشہ حسد کی آگ میں جلتی رہیں یہ دیکھ کر کہ پیغمبرؐ ان کی وفاداری اور محبت کا ذکر کرتے ہیں ۔ ([57])
جناب خدؑیجہ بستر مرض پر:
جناب خدؑیجہ نے حالت احتضار میں رسولخدا ؐسے موت کی سختی کے بارے میں شکایت کی،پیغمبرؐ نے گریہ کرتے ہوئے ان کیلئے دعا کی، خدیجہ ؑ!تم بہترین مومنین کی ماں ، فضیلت اور عظمت سے معمور خاتون ہو، تم میرے پاس سے جا رہی ہو، جو میرے لئے تکلیف دہ ہے لیکن خداوند عالم نےہر مومن کیلئےتکلیف میں بھلائی قرار دی ہے۔ خدؑیجہ !بہشت میں اپنی ماں حواؑ ؑاور بہن سارہؑ سے ملحق ہو جاؤ۔ ([58])
خدؑیجہ نے پیغمبرؐ سے عرض کیا:رسولخداؐ!میں نے آپ کے حق میں کوتاہی کی ،مجھے معاف کر دیجئے، جو آپ کے شایان شان تھا اسے انجام نہیں دیا ، صرف آپ سے آپ کی طلبگار ہوں ۔
جناب اسماء بنت عمیس آخری لمحات حیات خدؑیجہ میں آپ کے بستر کے قریب تھیں ، خدؑیجہ رورہی تھیں ، اسماء نے پوچھا:آپ کیوں رورہی ہیں ؟آپ عظیم خاتون زوجۂ رسولؐ ہیں ، آپ کورسول ؐنے جنت کی بشارت دی ہے، خدؑیجہ نے کہا کہ اپنی بیٹی زہراؑکیلئے رورہی ہوں کیونکہ لڑکی کو شب عروسی ماں کی ضرورت ہوتی ہے، میری بیٹی فاطمہؑ کی ماں نہ ہو گی کہ اس رات میں اس کے پاس ہو،اسماء نے خدؑیجہ سے عہد کیا میں ماں کی جگہ اس شب میں رہوں گی۔ ([59])
جناب خدؑیجہ کا کفن:
حالت احتضارمیں جناب خدؑیجہ کی ایک تمنّا تھی لیکن شرم و حیا کی وجہ سے پیغمبرؐ کے روبرو اسے نہیں رکھ سکیں ، خدؑیجہ نے اپنی یادگارزہراؑ کو اپنے بستر کے پاس بلایا ان کے ہاتھوں کو اپنے ہاتھ میں لیا اور حالت گریہ میں کہا کہ پدر بزرگوار کے پاس جا کر کہہ دو کہ اماں کہہ رہی ہیں کہ مجھے اس ردا میں کفن دیں جو نزول وحی کے موقع پر جسم پر تھی اور خدا نے آپ سے خطاب کیا تھا، جناب فاطمہؑ زہرا نے ماں کا پیغام باپ تک پہونچایا، جناب خدؑیجہ کی وفات کے بعد پیغمبر ؐاکرم نے اپنی ردا کو حسبِ خواہش خدؑیجہ کے کفن کیلئے تیار کیا لیکن جبریلؑ ؑامین نازل ہوئے اور عرض کیا :اےرسولؐ اللہ ! خدا آپ کی خدمت میں سلام پہونچاتا ہے اور یہ فرماتا ہے کہ خدؑیجہ کو اس ردا میں کفن نہ دو انہیں اس حلۂ بہشتی میں کفن دو۔
ابن حزام کا بیان ہے کہ جناب خدؑیجہ کی وفات ماہ رمضان 00۱۰ بعثت میں ہوئی ، ہم نے ان کے جنازہ کی تشیع قبرستان حجون تک کی ، میں نے دیکھا کہ پیغمبرؐاسلام ان کی قبر میں اتر کر سوئے اور ان کیلئے دعا کی،اس وقت تک نماز جنازہ واجب نہیں ہوئی تھی۔ ([60])
پیغمبر اسلامؐ ان کے جنازہ میں روتے ہوئے جا رہے تھے چونکہ جناب خدؑیجہ کی وفات جناب ابوطالبؑ کی وفات کے تھوڑے ہی فاصلہ سے ہوئی تھی تو یہ پیغمبرؐ کیلئے اتنا شاق تھا کہ اس سال کو «عَامُ الحُزن» قرار دیا۔ ([61])
پیغمبرؐ جناب خدیجہؑ کو برابر یاد کرتے رہے یہاں تک کہ جناب خدیجہؑ کے قدیم دوستوں کی بھی عزت افزائی کرتے تھے۔ ([62])
عائشہ کا بیان ہے : ہم نے ایک گوسفند ذبح کیا ، رسول ؐاکرم نے اس میں سےتھوڑا سا جناب خدؑیجہ کے قدیم دوستوں کو دیا،ایک روز جناب خدؑیجہ کی بہن نے پیغمبرؐ کی خدمت میں آنا چاہا جیسے آنحضرتؐ نے نام خدؑیجہ سنا تو آنکھوں سےآنسو جاری ہو گئے، خدؑیجہ کے مقابلہ میں کسی شخص پر اتنی حسرت نہ ہوئی تھی کیونکہ پیغمبرؐ انہیں کثرت سے یاد کرتے تھے اور پیغمبرؐ انہیں عظیم سمجھتے تھے۔([63])
امام صادؑق فرماتے ہیں کہ جناب خدؑیجہ کی تدفین کے بعد پیغمبرؐ گھر واپس ہوئے تو فاطمہؑ زہرا پیغمبرؐ سے پوچھتی ہیں ، رسولخداؐ! اماں کہاں ہیں اور پیغمبرؐ کو جواب دینے میں حیرانی تھی جبریلؑ نازل ہوئے اور عرض کیا کہ خدافرماتا ہے کہ فاطمہؑ کو سلام پہونچا دو اور کہو کہ تمہاری اماں قصر بہشت میں ہیں ، آسیہؑ و مریمؑ کے درمیان، فاطمہؑ کو سکون ملا اور فرمایا: اَللہُ السَّلَامُ وَمِنہُ السَّلَامُ وَاِلَیہِ السَّلَامُ۔([64])
جناب خدیجہ طاہرہؑ کے امتیازی خصوصیات:
شیعہ و سنی معتبر کتب احادیث و تاریخ و سیرت میں اتنے امتیازی خصوصیات کا تذکرہ کیا گیا ہے کہ ان کی تفصیل و تشریح کیلئے مستقل ضخیم کتاب کی ضرورت ہے، کچھ خصوصیات کو خداوند عالم نے جبریلؑ امین کی زبانی بیان کئے ہیں جبریلؑ نے پیغمبر اکرمؐ تک پہونچایا ہے اور کچھ صفات کو وحی ترجمان صاحب ما ینطق عن الہوی ان هو الا وحی یوحی پیغمبر ختمیؐ مرتبت نے ذکر کیا ہے اور وہ خصوصیات بھی موجود ہیں جنہیں محافظ امور الوہیت و رسالت ائمہ طاہرین نے ذکر کئے ہیں ان میں سے بعض صفات کو اجمالی طور پر بیان کیا جا رہا ہے تا کہ جناب خدیجہؑ کی منزلت و مرتبہ کی معرفت حاصل ہو سکے۔
(۱)- جناب خدیجہؑ کو بارہا خداوند عالم نے جبریلؑ کے ذریعہ سلام کہلوائے اور جنت میں قصر اور بہترین انعام کی بشارت دی: ([65])
اصل عبارت اور اس کا ترجمہ یہ ہے:
«أَتَى جِبْرِيلُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ (وآله) وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللهِ: هٰذِهِ خَدِيجَةُ قَدْ أَتَتْ مَعَهَا إِنَاءٌ فِيهِ إِدَامٌ أَوْ طَعَامٌ أَوْ شَرَابٌ، فَإِذَا هِيَ أَتَتْكَ فَاقْرَأْ عَلَيْهَا السَّلَامَ مِنْ رَبِّهَا وَمِنِّي وَبَشِّرْهَا بِبَيْتٍ فِي الجَنَّةِ مِنْ قَصَبٍ لاَ صَخَبَ فِيهِ، وَلاَ نَصَبَ.»
جبرئیل رسولخداؐ کی خدمت میں آۓ اور عرض کیا یا رسولؐ اللہ! یہ خدیجہؑ ہیں جن کے ساتھ ایک برتن ہے اس میں سالن يا کھانا یا پانی ہے جب آپ کے پاس آئیں تو آپ خدا اور میری طرف سے سلام پہونچا دیں اور انہیں جنت ميں اس قصر کی بشارت دیں جس میں کسی قسم کی تکلیف نہیں ہے اور اس میں کوئی غم نہ ہوگا۔
اسی انداز کی مختلف عبارتوں میں جناب خدیجہؑ پر خداوند عالم کے سلام کا ذکر آیا ہے۔
(۲)حضرت خدیجہ پر خدا نے فخر و مباہات کیا ہے:صاحب بحار الانوار علامہ مجلسی نے بائیسويں جلد میں تحریر فرمایا ہے کہ جب خدا نے رسولؐ اکرم کو اپنی عبادت کیلئے چاليس روز تک اپنی بیوی سے علاحدہ رہنے کا حکم دیا تو رسولؐ نے یہ پیغام بھی بھیجا:«يا خديجة لا تظني ان انقطاعي عنك (هجرة) ولا قلى ولكن ربى عز وجل أمرني بذلك تنفيذ أمره فلا تظني يا خديجة الا خيرا فإن الله عز وجل ليباهي بك ملاں ٔكته كل يوم مرارا۔» اے خدؑیجہ تم یہ گمان نہ کرنا کہ یہ تم سے دوری، بیزاری کی وجہ سے ہے یا نفرت کی وجہ سے ہے بلکہ یہ میرے پروردگار کا حکم ہے تاکہ میں اس کے حکم کو بجا لاؤں ، اے خدیجہؑ سواۓ خیر کے کچھ نہ سوچنا خداوند عالم روزانہ کئی مرتبہ تمہارے ذریعہ سے اپنے ملائکہ پر فخر و مباہات کرتا ہے۔([66])
(۳) رسولؐ اکرم کا خدیجہؑ پر فخر کرنا:رسولؐ اکرم کا ارشاد ہے: «خديجة وأين مثل خديجة صدقتني حين كن نبى الناس وارزقنى على دين الله واعتنى عليه بمالها».([67]) خدیجہؑ جیسی خاتون کہاں مل سکتی ہے انہوں نے اس وقت میری تصدیق کی جب لوگوں نے مجھے جھٹلایا اور انہوں نے اللہ کے دین پر میرا بوجھ ہلکا کیا اور دین خدا کے پھیلانے میں اپنے مال سے میری مدد کی
(۴) حضرت آدمؑ کی زبان پر فضیلت خدیجہؑ کا ذکر:جناب آدمؑ ذکر فرماتے ہیں : «انی لسید البشر یوم القیامة الارجل من ذريتى بنى من الأنبياء يقال له محمد فضل على باثنىن زوجته عاونته و كانت له عونا وكانت زوجتى على عونا۔» ([68]) میں روز قیامت لوگوں کا سردار ہوں ، سواۓ میری ذریت کے ایک شخص کے جو ایک نبی ہے جو محمدؐ ہیں اور محمدؐ دو اعتبار سے مجھ سے افضل ہیں ؛
( ۱) ان کی بیوی خدیجہ جو ان کی مددگار ہیں ۔ (۲) لیکن میری بیوی مجھ پر مددگار نہیں ہے بلکہ نقصان پہنچانے والی ہے.
(۵) بائبل جدید میں جناب خدؑیجہ کا ذکر:انجیل مقدس عہد جدید میں جناب خدیجہؑ کے فضائل کو اس طرح بیان کیا گیا ہے؛ جناب خدیجہؑ کو نہر آب سے تشبیہ دیا گیا ہے جس کا پانی آب حیات ہے اس کے دونوں کناروں پر شجر حیات ہیں اور اس میں بارہ مختلف میوے ہیں ان درختوں کے پتے امت کی شفاعت کا سبب ہیں ۔ ([69])
جس طرح پانی تمام موجودات کی زندگی کا سبب ہے قرآن میں ، ارشاد ہوا ہے: «وجعلنا من الماء كل شىء حیی». ہم نے ہر چیز کو پانی سے زندہ کیا اسی طرح جناب خدیجہ کی قربانی اور فداکاری سے اسلام کو زندگی ملی ہے خود رسول نے فرمایا ہے: «ما قام ولا استقام الذين الا بسيف على ومال خديجة» ([70])
(۶) جناب خدؑیجہ کا لقب طاہرہ اور سیدہ:دور جاہلیت میں عام طور پر اخلاقی، دینی اور مذہبی انحرافات کا شکار ہوتی تھیں لیکن جناب خدیجہؑ جوانی میں بھی صاحب دولت و ثروت اور با اثر ہونے کے باوجود طاہرہ اور سیدہ کہلاتی تھیں کیونکہ وہ تمامتر جاہلیت کی برائیوں سے پاکیزہ تھیں ۔ ([71])
قریش کے بزرگ اور بنی ہاشم کے سردار اُنکے بارے میں کہا کہتے تھے:
«أن خديجة إمرأة كاملة ميمونة فاضلة تخشى العار وتحذر الشنار» ([72])جناب خدؑیجہ کامل خاتون، بابرکت، صاحبِ فضل، عیوب سے پرہیز کرتی تھیں رسوائیوں سے دور رہتی تھیں ۔
جناب خدیجہ کا دور جاہلیت میں طاہرہ، سیدۂ قریش ہونا، قبل بعثت پیغمبرؐ طاہرہ سے ملقب ہونا، عصر جاہلیت میں اسلام قبول کرنا وغیرہ کا ذکر مندرجہ ذیل کتب میں دیکھا جا سکتا ہے؛ ([73])
(۷) جناب پیغمبرؐ اسلام اور جناب خدؑیجہ کا حسب و نسب ایک تھا: جناب خدیجہؑ کے پدری جد کا سلسلہ جناب رسولخداؐ کے چوتھے جد قصیؑ سے ملتا ہے اس بنا پر جناب خدیجہؑ تین واسطوں سے پیغمبرؐ کی چچا زاد بہن تھیں ۔ ([74])
(۸) جناب خدؑیجہ پیغمبرؐ کی محبوب اور برتر بیوی تھیں :پیغمبر اکرمؐ نے ارشاد فرمایا ہے:«أن رزقت حبّها» خدا نے مجھے جناب خدؑیجہ کی محبت عطا کی ہے، کسی اور زوجہ کے بارے میں اس طرح کا کوئی جملہ نہیں ملتا ہے۔ ([75])
جناب خدؑیجہ ایمان، تقویٰ اور فضیلت کے لحاظ سے ازواج پیغمبرؐ میں سب سے برتر تھیں کیونکہ جناب خدیجہؑ نے اپنا مال، جان اور عزت رسولؐ کیلئے وقف کر دیا جبکہ دوسری بیویوں نے پیغمبرؐ کو اپنے لئے چاہا تھا، اہلسنت کے عظیم عالم ذہبی کا بیان ہے:
جناب خدیجہؑ اپنے زمانہ میں ام المؤمنین اور عالمین کی عورتوں کی سردار تھیں اُن کے فضائل بہت زیادہ ہیں وہ صاحب کمال، عقلمند جلیل القدر، محافظ، کریم اور اہل جنت سے تھیں ۔ پیغمبر ؐنے اُن کی تعریف کی ہے اور تمام اُمہات مومنین پر فضیلت دی اور اُن کی عظمت بیان کی ہے۔ ([76])
(۹) حضرت خدیجہؑ دنیا و آخرت میں پیغمبرؐ کی زوجہ:خداوند عالم نے جناب خدیجہؑ کو رسولؐ اسلام کی زوجہ دنیا و آخرت میں قرار دیا ہے، پیغمبرؐ نے فرمایا: اے خدیجہؐ! کیا تمھیں معلوم ہے اللہ نے تمہیں جنت میں میری زوجہ قرار دیا ہے؟«وَكُنْتُ لَهَا عَاشِقاً فَسَأَلْتُ اللهَ أَنْ يَجمَع بَيْنِىْ وَ بَينَهَاْ».
میں اپنی زندگی میں حضرت خدیجہؑ کے کمال کی وجہ سے ان کا عاشق تھا اس لئے خدا کی بارگاہ میں سوال کیا کہ آخرت میں بھی وہ ہم کو ایک دوسرے کا شریک بنا دے۔ ([77])
(۱۰)حضرت خدیجہ ؑمبارکہ ہیں : مبارکہ کے معنی لغت کی کتاب مفردات راغب میں ایسے سر چشمہ کو کہا گیا ہے جس سے خیر و برکت کا نزول ہوتا ہو جس کا روکنا ناممکن ہو یہ نام حضرت خدیجہؑ کو زیب دیتا ہے۔
محدّث قمیؒ نے ایک روایت نقل کی ہے کہ خداوند عالم نے حضرت عیسیٰؑ پر وحی نازل کی کہ آخری پیغمبرؐ کی نسل مبارکہ خاتون سے ہوگی۔([78])
نیز عبد اللہ بن سلمان نے انجیل کے بیان کے اعتبار سے پیغمبرؐ کی علامتوں کو اس طرح بیان کیا ہے: «نکاح النساء ذو النسل القلیل وبننا نسله من مبارکة لها بيت في الجنة لا صخب فيه ولا نسب ».
نيز سید بن طاؤسؒ نے نقل کیا ہے کہ ولادت سے قبل جناب خدیجہؑ کو آسمانی کتاب انجیل میں «مبارکه» کے نام سے یاد کیا گیا ہے جو جنت میں جناب مریمؑ کی ہمدم ہوں گی اور حضرت عیسیٰؑ سے پیغمبر کی صفت یہ بیان کی گئی ہے: «نسله من مباركه وهي ضرة امك فى الجنة له شأن من الشأن.» ([79])
(۱۱) جناب خدیجہؑ امت پیغمبرؐ کی صدیقہ ہیں : لفظ صدّیقہ، صدّیق کا مونث ہے اور صدّیق اسے کہتے ہیں جس کی گفتگو، عقیدہ اور فکر صحیح اور سچ ہو اور وہ اپنی صداقت کو اپنے صحیح کردار سے ثابت کر دے۔([80])
پیغمبرؐ نے جبرئیلؑ سے خطاب کر کے جناب خدیجہؑ کو صدیقہ کہا ہے:«هٰذِهِ صِدِّيْقَةُ أُمَّتِى» ([81])
نیز پیغمبر اکرم کی زیارت میں بھی آیا ہے: «السلام على ازواجك الطاهرات الخيرات … خصوصا الصديقة الراضية المرضية خديجة الكبرى أم المؤمنين …» ([82])
(۱۲) جناب خدیجہؑ انوار امامت کا ظرف: رسول اکرمؐ نے جناب خدیجہؑ کی عظمت و رفعت شان و منزلت کو بیان کرتے ہوئے انہیں ام الائمہؑ اور سر چشمہ کوثر الٰہی قرار دیا ہے اور اپنی بیٹی جناب فاطمہؑ زہرا کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا: «ان بطن أمك كان للإمامة وعاء» یقیناً تمہاری والدہ کا شکم نور امامت کا ظرف ہے۔([83])
عظیم عالم اہلسنت قاضی نعمان مغربی نے تحریر کیا ہے: تاریخ. کی عظیم ترین خاتون حضرت خدیجہؑ وہی عالی مقام خاتون ہیں جو انوار ائمہؑ کو دنیا میں لانے کا سبب بنی ہيں اور پیغمبر اکرمؐ نے وحی کے فرشتہ کے ذریعہ خدا کی خوبصورت جنت کا مژدہ سنایا ہے، اس نے حق و عدالت کی راہ میں اور پیغمبرؐ کے اغراض و مقاصد کو پورا کرنے کیلئے بے شمار دولت قربان کی ہے۔ وہ پیغمبر اکرمؐ کی بیٹی جناب فاطمہؑ زہرا اور اُن کے دیگر بیٹوں (ائمہؑ) کی ماں تھیں ۔([84])
(۱۳)قیامت میں جناب خدیجہؑ کا استقبال: مناقب آل ابیطالبؑ میں منقول ہے کہ شیعہ محدثین نے حضرت خدیجہؑ کی فضیلت میں ائمۂ معصومینؑ کا یہ بیان نقل کیا ہے: قیامت کے روز ۷۰؍ ہزار فرشتے خوبصورت پرچم کے ساتھ جس پر «الله اکبر» لکھا ہوگا، حضرت خدیجہؑ کا استقبال کریں گے۔([85])
علامہ مجلسیؒ نے بھی اسی سے ملتی جلتی روایت نقل کی ہے، جس میں جناب خدیجہؑ کے ساتھ ۷۰؍ ہزار علمبردار فرشتوں کا ذکر کیا ہے اور يہ روایت جناب فاطمہؑ زہرا کے محشر میں استقبال کے ذیل میں درج کی ہے:«ثم تستقبلك أمك خديجة بنت خويلد أول المؤمنات بالله وبرسوله ومنها سبعون ألف ملك بأيديهم ألوية التكبير» ([86])
(۱۴) حضرت خدیجہؑ پہلی مسلمان اور نماز گزار خاتون: جناب خدیجہؑ نے خواتین میں سب سے پہلے اسلام لانے والی اور سب سے پہلی نماز گزار خاتون تھیں ۔ مندرجہ ذیل کتب میں دیکھا جا سکتا ہے: (تاریخ یعقوبی، ینابیع المؤدۃ، طبقات الکبری، اسد الغابۃ، اصابہ، الغدیر، بحار الانوار، مستدرک علی الصحیحین، سیرت ابن اسحاق، عبقات الانوار، الاستیعاب، البدایہ والنہایہ)۔
-*-*-*-([5])- اعلام الوریٰ، ص: ۲۷۵،اسد الغابہ، ج:۱ ، ص:۱۶ ، مجمع الزوائدو منبع الفوائد،ج: ۹، ص:۲۱۸ ، فرہنگ جامع سخنان امام حسینؑ،ص: ۱۰۳۔
([20])- اسدالغابۃ، ج:۵،ص: ۴۳۴، اعیان الشیعۃ، ج:۱،ص:۲۲۰، السیرۃالحلبیۃ، ج:۱،ص:۱۴۰، البدایۃوالنہایۃ، ج:۲، ص:۲۹۵، اعلام الوریٰ،ص:۱۳۹،العددالقویۃ،ص:۲۴۹۔
([37])- اسد الغابہ، ج:۵ ، ص: ۴۳۸، سیر اعلام النبلاء، ج: ۲، ص:۱۱۳ ، البدایۃ و النہایۃ، ج:۳ ، ص:۱۹۷ ، کشف الغمۃ ، ج:۱ ،ص:۵۰۸۔
([45])- سیر اعلام النبلاء ، ج:۲ ، ص: ۱۱۷، اعلام النساء ،ج:۱ ، ص:۳۳۰ ، کشف الغمۃ، ج: ۱، ص:۵۱۲ ، اسد الغابۃ، ج: ۵، ص:۴۳۸۔
([65])- صحیح بخاری، ج: ۶، ص: ۱۲۲، کتاب مناقب الانصار، باب تزويج النبیؐ خديجۃ وفضلہا رضی اللہ عنہا، حديث رقم: 3644، صحیح مسلم، ج: ۴، ص: ۱۸۸۷، مستدرک علی الصحیحین، ج: ۳، ص: ۱۸۵، مسند احمد بن حنبل، ج: ۱۲، ص:۷۱، اصابہ فی تمییز الصحابہ، ج: ۸ ،ص: ۱۰۱، اسد الغابہ فی معرفۃ الصحابہ، ج: ۶ ص: ۸۴، کنزل العمال، ج: ۱۳، ص: ۶۹۲، المعجم الکبیر، ج: ۲۳، ص: ۹، المصنف، ج: ۷، ص: ۵۲۹، ینابیع المودۃ، ج:۲، ص: ۴۷، سنن نسائی، ج: ۵، ص: ۹۴، سیرۃ ابن ہشام، ج:۱، ص: ۲۴۱، بحار الانوار مجلسی، ج:۱۶، ص: ۸، سفینۃ البحار، ج: ۱، ص: ۳۸۔
([71])- اصابہ فی تمییز الصحابہ، ج: ۸، ص: ۹۹ ، البدایہ و النہایہ، ج: ۳ ، ص: ۱۵۷، سبل الہدی والرشاد، ج: ۲، ص: ۴۳۴۔
([73])- تنقیح المقال، ج: ۳ ؛ فاطمۃؑ الزہراء، توفیق ابو علم، شرح مواہب الدنیہ؛ نہایۃ العرب؛ اصابہ عسقلانی؛ تاریخ ابن عساکر؛ سیر اعلام النبلاء؛ اسد الغابۃ؛ نساء ھن التاریخ الاسلامی نصیب ص: ۲۱۔
([86])- بحار الانوار، ج:۸، ص:۵۳ تا ۵۵۔
No comments:
Post a Comment