Saturday, 22 June 2024

مادران معصومین ایک تعارف۔3۔

 


آپ جناب ابو طالبؑ (عمران) کی زوجہ اور جناب امیر المومنین حضرت علیؑ کی والدہ گرامی ہیں ، قبیلہ بنی ہاشم سے عاقلہ، باکمال، عفت مآب، نیک سیرت، دانا، دختر عم ابو طالبؑ خاتون تھیں . جناب فاطمہؑ بنت اسد بنی ہاشم کا ازدواج جناب ابو طالبؑ بن عبد المطلبؑ سے ہوا، وہ اکیلی زوجہ جناب ابو طالبؑ تھیں جن سے چار فرزند طالبؑ، عقیلؑ، جعفرؑ، حضرت علیؑ، ام ہانیؓ اور جمانہؓ پیدا ہوئیں ۔

جناب فاطمہؑ پاکیزہ کردار، توحید پرست خاتون تھیں ، جب حضرت علیؑ کا حمل جناب فاطمہ ؑکے یہاں قرار پایا تو آپ خانہ کعبہ کے پاس آئیں اور جب درد زہ پیدا ہوا تو رب کعبہ سے مدد طلب کی ناگہاں دیوار کعبہ میں در بنا اور آپ کعبہ کے اندر داخل ہو گئیں اور جوف کعبہ میں حضرت علیؑ کی ولادت با سعادت ہوئی۔

جناب ابو طالبؑ اپنے والد بزرگوار عبد المطلبؑ کے انتقال کے بعد اپنے بھائی کے فرزند محمدؐ کو اپنے گھر لائے اس وقت آنحضرتؑ کی عمر ۸؍ سال تھی، جناب فاطمہؑ بنت اسد نے ماں کی محبت کے ساتھ ان کی خدمت و پرورش کی وہ ہمیشہ محمدؐ کو اپنے فرزندوں پر برتر اور مقدم رکھتی تھیں ، اس بات کا تذکرہ پیغمبرؐ کی زبان مبارک پر بارہا آتا رہا اور محمدؐ ان کا تذکرہ خیر کیا کرتے تھے، جناب فاطمہؑ نے اسلام کے ابتدائی دنوں میں ایمان قبول کر لیا تھا پیغمبرؐ کی تصدیق کی تھی، انہوں نے پیغمبر ؐاسلام کی مدینہ کی جانب ہجرت کے تھوڑے دنوں بعد اپنے فرزند حضرت علیؑ اور دختر رسولؐ فاطمہ زہراؑ کے ساتھ مدینہ کی طرف ہجرت کی اور منزل قبا میں پیغمبرؐ اکرم سے ملاقات کی، جناب فاطمہؑ سنہ ۴ ہجری تک اپنے عزیزوں کے ساتھ مدینہ میں رہیں اور سنہ ۴ ہجری میں مدینہ ہی میں دار فانی سے عالم جاودانی کی جانب رحلت فرمائی۔

امیر المومنین حضرت علیؑ کی والدۂ گرامی قبیلۂ قریش اور خاندان بنی ہاشم سے ہیں، یہ خاندان جزیرۂ عرب کا اصیل ترین ، معدن اخلاق عالیہ اور پاکیزہ انسانی خاندان تھا، ان عظیم خاتون کے بہت سے مناقب و فضائل ہیں ، جن میں سے کچھ کا تذکرہ کتابوں میں بیان ہوا ہے ، خدا وند عالم نے انہیں ایسے فضائل سے آراستہ کیا تھا جو بہت کم عورتوں کو نصیب ہوتے ہیں ۔

انہوں نے ایک مدت تک اپنے شوہر جناب ابو طالبؑ کے ساتھ رہ کر پیغمبرؐ اسلام کی سرپرستی کی ذمہ داری ادا کی ہے، انہیں نےاس راہ میں بہت جدّوجہدکی ایسی محبت کرنے والی ماں کی پاکیزہ آغوش میں حضرت علی ؑکی پرورش ہوئی ہے۔

انہوں نے بعثت پیغمبرؐ اسلام کے بعد فکری عروج اور عظمت کا اتنا عظیم ثبوت دیا کہ سابقین اسلام اور مہاجرین اولین میں قرار پائیں اور دیار غربت میں پیغمبرؐ کے پاس رہنے کو وطن میں رہنے کے مقابلہ میں ترجیح دی ۔([1])

نام و نسب:

امیر المومنین حضرت علیؑ کی والدہ گرامی کا نام: فاطمہؑ بنت اسد بن ہاشم بن عبد مناف بن قصی ہے۔([2])

ان کی والدہ کا نام: فاطمہؑ بنت ہرم بن رواحہ بن ہجر بن عبد اللہ بن معز بن وہب بن ثعلبہ بن فہر ہے۔([3])

جناب فاطمہؑ بنت اسد کے فرزند : طالب ، عقیلؑ ، جعفرؑ ، حضرت علیؑ اور بیٹیاں : جمانہ اور فاختہ (ام ہانی) ہیں ۔([4])

آپ نے ساٹھ یا پینسٹھ سال عمر پائی اور ۴؍ ہجری مدینۂ منورہ میں بارگاہ پروردگار سے ملحق ہوئیں ، جنت البقیع میں انہیں سپرد لحد کیا گیا۔([5])

 ازدواج جناب فاطمہؑ بنت اسد:

جناب ابوطالبؑ جوانی کی عمر میں پہونچنے کے بعد ازدواجی زندگی گذارنے کی فکر میں تھے وہ دین حنیف کے پابند پاکیزہ دیندار جوان تھے، انہیں ایسی خاتون کی تلاش تھی جو دیندار اور خدا پرست ہو ابوطالب اپنے چچا اسد کے پاس گئے اور ان سے ان کی بیٹی فاطمہؑ کی خواستگاری کی چچا نے مثبت جواب عنایت کیا یہ دونوں پہلے ہاشمی ہیں جن کا رشتہ ہوا۔([6])

ان کی مجلس عقد میں جناب ابوطالبؑ نے قوموں اور عزیزوں کے مجمع میں جناب اسد کی جانب رخ کرکے خطبہ عقد اس طرح پڑھا:

تعریف اس خدا کیلئے جو عالمین کا پروردگار ہے وہ عرش ومقام عظیم کا پروردگارہے وہ خدا جس نے ہمیں خانہ کعبہ کی خدمت اور عظمت کیلئے منتخب کیا ،بزرگ اور مخلص پردہ دار قرار دیا ،شک،تکلیف اور عیب کی گندگی سے پاک کیا،مشعر کو ہمارے لئے قائم کیا دوسرے قبیلوں پر برتری دی خاندان ابراہیمؑ اور فرزند ان اسماعیلؑ میں منتخب کیا ۔

میں فاطمہؑ بنت اسد کو اپنے ازدواج میں لاتا ہوں مہر اس کیلئے لایاہوں اور ضروری امور کو اسکے بارے میں انجام دیا ہے پھر اسد سے گواہی کی خواہش کی۔

اسد نے کہا ہم نےاسے تمہارے ازدواج میں دیا اور راضی ہوگئے اسکے بعد لوگوں کو کھانا دیاگیا لوگوں نے جشن منایا۔

اس خطبہ کےمضمون پر غور کرنے سے جو بعثت کے کئی دہائی پہلے ہوا تھا ہر پڑھنے والامتوجہ ہوسکتا ہے کہ ان الفاظ کا کہنے والا موحد ،صاحب حکمت ہے اسے کوئی قبائلی برتری کے معیار کا خیال نہیں تھاجو اس زمانہ میں عام طور پر خرافات پائی جاتی تھی۔([7])

جناب فاطمہؑ بنت اسدکا خواب:

ایک رات جناب فاطمہؑ بنت اسد نے عجیب خواب دیکھا جس کے بارے میں ذہن مشغول رہا ،انہوں نے طے کیا کہ کسی کاہن سے اس خواب کی تعبیر معلوم کریں ،خواب اور اس کی تعبیر خود وہی بیان کرتی ہیں :

خواب میں دیکھا کہ شام کے پہاڑ حرکت میں ہیں اور مکہ معظمہ کی طرف آگئے ہیں ان سے آگ کے شعلے بلند ہیں سب کے سب فریادکررہے ہیں اور ان اسلحوں سے آراستہ ہیں جو آگ کے ہیں یہ کیفیت بیحد خطرناک اور ہیبت ناک تھی جو بھی اسےدیکھتا تھا ڈر جاتا تھا اسی وقت مکہ کے پہاڑ بھی مکمل انتظام کے ساتھ ان کی طرف بڑھ رہے ہیں ان کی حرکت کے زمانہ میں جنگی سامان زمین پر گرنے لگے ہیں اور لوگ اسے اٹھارہے ہیں میں نے بھی موقع سے فائدہ اٹھایا اور تلوار یں اٹھائیں اتفاق سے ایک تلوار میرے ہاتھ سے چھوٹ کر ٹوٹ گئی اور آسمان کی جانب چلی گئی دوسری تلواربھی چھوٹ کر ہوا میں چلی گئی تیسری تلوار بھی چھوٹ کر ٹوٹ گئی لیکن ایک تلوار میرے ہاتھ میں باقی رہ گئی جو دھیرے دھیرے ایک بڑا شیر ہوگئی جب ایک گروہ کا شام کے پہاڑوں پر حملہ ہوا تو یہ حملہ اس طرح کا تھا کہ لوگ اسکے دیکھنے سے خوفزدہ ہوکر فرار کرتے تھے اسی وقت میرے فرزند محمدؐ آئے اور اپنا ہاتھ اسکے سروگردن پر رکھا اور اسے لے لیا۔

میں یہ حالت دیکھ کر اتفاقاً خواب سے بیدار ہوئی اور ابوکرز کاہن کے پاس گئی لیکن قبیلہ بنی تمیم کے ایک شخص جمیل بیٹھے ہوئے تھے تو میں نےانتظار کیا کہ وہ چلا جائے تاکہ میں اپنے خواب کو ابوکرز سے بیان کروں ،جمیل کاہن میری طرف متوجہ ہوا مجھے دیکھ کر ہنسا اور کہا: تم میرے جانے کا انتظار کررہی ہو تاکہ تم اپنے خواب کی تعبیر ابوکرز سے معلوم کرو۔ میں نے کہا: اگر صحیح کہہ رہے ہو توبتائو کہ میں نے کیا خواب دیکھا ہے ؟ جمیل کاہن نے اس کے جواب میں چند اشعار پڑھے کہ جس سےمجھے معلوم ہواکہ وہ میرے خواب سے باخبر ہے میں نے اس سے کہا کہ تم میرے خواب کوجانتے ہو تو اس کی تعبیر مجھ سے بیان کرو۔ اس نے کہا کہ چار تلوار سے مراد ۴؍ پسر ہیں ایک ان میں سے آسمان کی طرف پرواز کرے گا اس سے مراد طالب ہیں جو جلدی دنیاسےچلے جائیں گے، دوسراہوا میں رہے گا، اس سے مراد عقیلؑ ہیں جن کی عمر طولانی ہوگی اور حضرت علی ؑ کے بعد دنیا سے رخصت ہوں گے جو تلوار ٹوٹ جائے گی اس سے مراد جناب جعفرؑ ہیں جو جنگ موتہ میں شہید ہوں گے اور جو شیر کی شکل میں ہے اس سے مراد امیرالمومنین حضرت علی ؑ ہیں ۔([8])

جناب فاطمہؑ بنت اسد ، ولادت نور:

روایات کے مطابق ۱۰؍ ذی الحجہ کو جناب فاطمہؑ بنت اسد کے رحم مطہر میں وجود امیر المومنینؑ قرار پایا اس وقت آپ کا چہرہ ان تمام قریش کی عورتوں میں جن کے نام بھی فاطمہؑ تھے نہایت تابندہ اور درخشان رہا جناب فاطمہؑ بنت اسد کا خود بیان ہے کہ جب وجود ذی جود امیر المومنین ؑمیرے رحم میں قرار پایا تو جب میں بتوں کے قریب سے گزرتی تھی، میرا فرزند میرے شکم کو فشار دیتا تھا ، وہ اس پر مامور تھا کہ بہت جلد بتوں کے پاس سے دور ہو جاؤں ۔([9])

پیغمبرؐ اسلام کا ارشاد گرامی ہے کہ میں اور علیؑ ایک نور سے ہیں جسے پیشانی جناب آدم ؑمیں قرار دیا گیا اور پاکیزہ اصلاب سے ارحام مطہرہ میں منتقل ہوتے رہے یہاں تک کہ ہم صلب جناب عبد المطلبؑ تک پہونچے وہاں سے یہ نور دوحصوں میں تقسیم ہوا، ایک حصہ صلب عبد اللہؑ میں آیا اور دوسرا صلب ابو طالبؑ میں ، میں صلب عبدؑ اللہ سے اور علیؑ صلب ابو طالبؑ سے وجود میں آئے۔([10])

زمانۂ حمل اختتام کی منزل تک آیا اور وضع حمل کاوقت قریب ہواتو فاطمہؑ بنت اسد گھر سے نکلیں کعبہ کے پاس آئیں ، یزید بن قعنب کا بیان ہے کہ میں،عباس بن عبد المطلبؑ اور چند قریش کے افراد کعبہ کے پاس بیٹھے تھے جناب فاطمہ ؑ آئیں جب وضع حمل کے آثار ظاہر تھے فاطمہؑ نے ہاتھوں کو آسمان کی جانب بلند کر کے عرض کیا۔

پروردگارا!میں تجھ پر، تیرے پیغمبروں ؑ اور نازل کردہ کتابوں پرایمان رکھتی ہوں اور میں تصدیق کرتی ہوں اپنے جد جناب ابراہیمؑ کے کلام کی جنہوں نے خانۂ کعبہ کی بنیاد رکھی ، اس گھر ، اس گھر کے بانی اور شکم میں موجود مولود کا واسطہ جو مجھ سے ہمکلام رہتا ہے جس کی باتوں سے مجھے انسیت ہے، مجھے یقین ہے کہ وہ تیرے آیات و حجج میں سے ایک ہے اس کی ولادت کو مجھ پر آسان کردے ۔

یزید بن قنعب کہتے ہیں کہ ہم نے دیکھا کہ دیوار کعبہ میں اتنا در بنا کہ جناب فاطمہؑ اندر داخل ہو گئیں ، دیوار باہم مل گئی، خانۂ کعبہ کا کلیدبردارآیا ، اس نے چاہا کہ کعبہ کا دروازہ کھولے لیکن نہ کھول سکا ،ہم نے سمجھ لیا کہ یہ معجزہ خدا ہے ،فاطمہؑ تین روز خانۂ کعبہ کے اندر رہیں یہ واقعہ مکہ کے لوگوں میں مشہور ہوگیا۔([11])

جناب فاطمہؑ بنت اسد کی یہ مناجات اس بات کا اعلان کرتی ہےکہ وہ زمانۂ جاہلیت میں نیک سیرت ، امور آخرت کی عالم اورملت حنیف ابراہیم خلیلؑ کی پیرو تھیں اور خود کو شرک و بت پرستی سے آلودہ نہیں کیا تھا۔([12])

اسی طرح ان کے شوہر جناب ابو طالبؑ نے ایسے فرزند کو پایا جس میں تمام فضائل و کمالات جمع تھے اور آغاز سے ہی پیغمبر ؐاسلام کی مخصوص توجہ و عنایت کا مرکز قرار پائے۔([13])

جابر بن عبد اللہ انصاری کہتے ہیں کہ رسولؐ اکرم سے حضرت علیؑ کی ولادت کی کیفیت کے بارے میں پوچھا، آنحضرت ؐنے فرمایا: جابر میرے بعد اس بہترین مولود کے بارے میں سوال کیا جو حضرت عیسیٰؑ کی سنت پرعالم وجود میں آیا، خداوندعالم نے مجھ کواور حضرت علیؑ .کو ایک نورسےپیداکیا۔([14])

کعبہ خوشی سے سمانہیں رہا تھا ، وہ جانتا تھا کہ ایک روزفرزند کعبہ بتوں کو اس سے دور کرے گااور خدا پرستوں کو اس کی جانب رہنمائی کرے گا۔

فاطمہؑ بنت اسد کہتی ہیں : جب میں کعبہ سے باہر نکلی تو کوئی کہنے والا مجھ سے کہہ رہا تھا فاطمہ ؑاپنے فرزند کانا م علیؑ رکھو ، خداوند عالم علی اعلیٰ ہے، میں نے اسکے نام کو اپنے نام سے لیا ہے اور اسے اپنے آداب سے تربیت کی ہے اسے پیچیدہ اور مشکل علوم کا عالم بنایا وہی خانۂ کعبہ کے بتوں کو توڑے گا اورخانۂ کعبہ کے اوپر اذان دے گا، میری تمجید کرے گا، اسکے دوستوں اور پیرؤوں کیلئے خوشحالی اور دشمنوں کیلئے بدحالی ہے۔([15])

خانۂ کعبہ کا پہلا اور آخری مولود:

جناب فاطمہؑ بنت اسد وہ پہلی اور آخری ماں ہیں جن کا یہ بچہ خانۂ کعبہ کے اندردنیا میں آیا وہ اس فرزند کو دنیا میں لانے کیلئے کائنات کے بہترین مکان یعنی خانۂ خدا میں داخل ہوئیں ، حکم خدا سے دیوار کعبہ میں در بنا،دو تین شب و روز خانۂ کعبہ میں رہیں کعبہ کے اندر کیا ہوا ؟ غذا کہاں سے فراہم ہوئی، ان کی دایہ کون تھی؟ یہ سب صرف خدا جانتا ہے جو کہا جا سکتا ہے وہ صرف اتنا کہ میزبان کریم (خدا) جس نے جناب فاطمہؑ کو بلایا تھا غذا اور ضرورت کی چیزوں کو مہیا کرتا رہا الٰہی کار گزاران ، ماں اور بچہ کی پذیرائی کرتے رہے ۔

جناب ابو طالبؑ کعبہ کے باہر انتظار کرتے رہے کہ خورشید کعبہ اندر سے طلوع کرے تین روز کے بعد کعبہ سے باہر آئیں ، ابو طالبؑ ان کے اور بچہ کے استقبال میں چلے جناب جناب فاطمہؑ کی نگاہ جناب ابو طالبؑ پرپڑی تو کہا: میں نے اپنے سابق کی عظیم خواتین پر برتری پائی کیونکہ آسیہؑ بنت مزاحم پوشیدہ طور پر اس مقام پر خدا کی عبادت کرتی رہیں جس میں خدا عبادت کو پسند نہیں کرتا تھا سوائے مجبوری کی حالت کے۔مریمؑ بنت عمران اپنے فرزندکی ولادت کے موقع پر خشک خرماکے درخت کو حرکت دیتی ہیں تاکہ خرما تناول کریں لیکن میں خانۂ خدا میں داخل ہوئی اور بہشتی میوہ جات اور غذاؤں سے استفادہ کرتی رہی۔([16]){

کعبہ میں حضرت علیؑ کی ولادت کی عظمت علمائے فریقین کے بیانات:

(۱)شیخ مفیدؒ: امیر المومنین علیؑ سنہ ۳۰عام الفیل مکہ معظمہ خانۂ کعبہ کے اندر پیدا ہوئے ان سے پہلے اور ان کے بعد بھی کوئی بچہ کعبہ میں نہیں پیدا ہوا، یہ واقعہ اس لئے ہوا کہ خداوند عالم نے امیر المومنینؑ کو معزز اور محترم قراردیا ہے۔([17])

(۲) ابن صباغ مالکی: حضرت علیؑ کی ولادت ۱۳ رجب سنہ۳۰ عام الفیل میں مکہ معظمہ خانہ کعبہ میں ہوئی ، اس ولادت کی عظمت اتنی بلند ہے کہ اس سے قبل کوئی بچہ خانۂ کعبہ میں نہیں پیدا ہوا، یہ فضیلت خداوند عالم نے حضرت علیؑ کو اور ان کی والدہ گرامی فاطمہؑ سے مخصوص کی تھی۔([18])

(۳)اربلی: حضرت علیؑ .مکہ معظمہ خانۂ کعبہ میں ۱۳؍رجب روز جمعہ پیدا ہوئے دوسرا کوئی خانۂ کعبہ میں ان کے علاوہ پیدا نہیں ہوا ، یہ فضیلت و شرف خداوند عالم نے ان کی بلندی شان کی وجہ سے ان سے مخصوص کی۔([19])

(۴)شیخ عباس قمیؒ: یہ فضیلت امیر المومنین علیؑ کے خصوصیات میں سے ہے کیونکہ سب سے اشرف بقعہ حرم مکہ ہے ، حرم مسجدشریف ترین مقام ہے حضرت علیؑ کے علاوہ دوسرا کوئی اس میں پیدا نہیں ہوا، یہ وہ مولود ہے جودنوں کا سردارروز جمعہ ہے شہر محترم ماہ رجب ہے اس میں سوائے حضرت علیؑ کے کوئی دوسرا دنیا میں نہیں آیا۔([20])

جناب فاطمہؑ بنت اسد ، راویۂ حدیث:

جناب فاطمہؑ بنت اسدراویان حدیث میں تھیں ، آپ نے پیغمبرؐ اسلام سے چھیالیس حدیثوں کی روایت کی ہے ان میں سے بعض احادیث کتب صحاح میں ہیں اور متفق علیہ ہیں ۔([21])

جو احادیث جناب فاطمہؑ بنت اسدسے منقول ہیں ان میں یہ حدیث بھی ہے:

جناب عبد المطلبؑ نے جب اپنے اندر موت کے آثار پائے تو اپنے تمام فرزندوں کو جمع کیا اور ان سے خطاب کیا کہ میرے بعد تم میں سے کون محمدؐ کی کفالت کی ذمہ داری لیتا ہے؟ فرزندان عبد المطلبؑ نےعرض کیا کہ محمدؐ ہم سے زیادہ عالم ہیں ، ان سے کہئے کہ وہ ہم میں سے کسی ایک کو منتخب کر لیں ، عبد المطلبؑ نے اپنے پوتے سے کہا: تمہارے دادا سفر آخرت پر آمادہ ہیں ،تم اپنے کس چچایا پھوپھی کو اپنی کفالت کیلئے اختیار کرتے ہو؟ محمدؐ نے اپنے چچاؤں کو دیکھ کر ابو طالبؑ کا انتخاب کیا، عبد المطلبؑ نے ابو طالبؑ سے کہا:میں تمہاری دیانت و امانتداری سےواقف ہوں اپنے بھتیجے کیلئے مہربان رہو، جیسے میں مہربان تھا،عبد المطلبؑ کے دنیاسے کوچ کرنے کے بعد جناب ابوطالبؑ محمدؐکو ہمارے گھر لائے ، میں انکی خدمت کرتی تھی اور وہ مجھے ماں کہہ کر خطاب کرتے تھے۔([22])

ایک روایت میں یہ ذکرہے کہ حسب وصیت پدر جناب ابوطالبؑ محمدؐ کو اپنے گھر لائے اور فاطمہؑ بنت اسد سے کہا کہ تمہیں معلوم ہے کہ یہ میرے عزیز بھائی کی یادگار ہے،وہ مجھے جان اور مال سےزیادہ عزیز ہے میں تم سے تاکید کرتا ہوں کہ کوئی اسے اذیت نہ دے، اس کی اچھی طرح حفاظت کرو۔

جناب فاطمہؑ نے ہنس کر کہا:میرے فرزند محمدؐکی تاکید مجھ سے کر رہے ہیں ، میں اسے اپنی ذات اورا پنے فرزندوں سے زیادہ چاہتی ہوں ۔([23])

جناب فاطمہؑ بنت اسداور پیغمبرؐ اسلام کے بچپن کا معجزہ:

جناب فاطمہؑ کہتی ہیں کہ میرے گھر میں ایک چھوٹاسادرخت خرما پر مشتمل باغ تھا، ان درختوں میں تازے پھل آئے تھےتقریباًچالیس بچے جو محمدؐ کے ہمسن تھے صبح میں آتے تھے اور جوخرمے زمین پر گرتے تھے اسے اٹھا کرکھا لیتے تھے کبھی باہم خرموں کو ایک دوسرے کے ہاتھوں سے لے لیتے تھے۔

میں نے کبھی یہ نہیں دیکھاکہ جس خرماکی جانب دوسرے بچے گئے ہوں ا س طرف پیغمبرؐ ؐجائیں یا کسی کے ہاتھ سے لے لیں ، میں اور میری کنیز بچوں سے پہلے باغ میں جاتے تھے اور محمدؐ کیلئے چند خرمے جمع کر تے تھے،ایک دن خرماجمع کرنا بھول گئے ، جب محمدؐ آئے تو شرم کی وجہ سے میں نے خود کوسلادیا چہرہ آستین سے چھپا لیا ،محمدؐ باغ میں گئے اور کچھ نہ پایا، کنیز نے ان سے کہا کہ ہم آپ کیلئے خرما جمع کرنا بھول گئے، محمدؐ باغ میں واپس گئے اور ایک درخت کی جانب اشارہ کیا اس درخت کی شاخ نے خرما محمدؐ کے ہاتھ میں رکھ دیا، محمدؐ نے کچھ خرمے کھائے اور اس کے بعد درخت کی شاخ اپنی جگہ پہونچ گئی۔([24])

یہ معجزہ دیکھ کر مجھ پر خوف طاری ہو گیا، میں ابوطالبؑ کے پاس آئی واقعہ بیان کیا جناب ابو طالبؑنے کہا: خاموش رہو، اس معجزہ کو دوسری جگہ نہ بیان کرناہو سکتا ہے یہ جھوٹا خواب ہو، میں نے کہا: بخدا ایسا نہیں ہے بلکہ مجھے یقین ہے کہ میں نے یہ بیداری کی حالت میں دیکھا ہے، میں خدا سے امید کرتی ہوں کہ محمدؐ کے بارے میں میرے اس گمان کو صحیح ثابت کر دے اور اسی طرح ہو کہ ان کی خدمت کے وسیلہ سے پیغمبرؐنے جو مجھے بشارت دی ہے اور میں ان کی کفالت کی وجہ سے نجات حاصل کروں ۔([25])

جناب فاطمہؑ بنت اسد ، سابقین و مہاجرین اسلام میں :

امام صادقؑ کا ارشاد گرامی ہیکہ جس وقت رسولؐ اکرم مبعوث برسالت ہوئے تو جزیرۂ عرب کے بہت کم افراد نے انکی دعوت پر لبیک کہی ےتھی جنہیں سابقین اسلام کہا جاتا ہے، شیخ عباسؒ قمی کہتے ہیں کہ جناب فاطمہؑ بنت اسد سابقین اسلام میں سے ہیں ، انہوں نے دس افراد کے بعد اسلام کو اختیار کیا اسلئے وہ گیارہویں مسلمان تھیں ،پیغمبرؐ ان کا اکرام و احترام کرتے تھے اور ماں کہہ کر خطاب کرتے تھے۔([26])

ابن ابی الحدید معتزلی لکھتےہیں کہ جناب فاطمہؑ گیارہویں فرد تھیں جنہوں نے جناب خدیجہ ؑکے بعد اسلام اختیار کیا وہ پہلی خاتون تھیں جنہوں نے پیغمبرؐ کےہاتھوں پر بیعت کی۔([27])

زبیر کا بیان ہے: فاطمہؑ پیغمبرؐ سے بیعت کرنے والی پہلی خاتون ہیں ،جب سورہ ممتحنہ کی آیہ ۱۲، یَا أَیُّہَاالنَّبِیُّ اِذَا جَاءَكَ المُؤْمِنَاتُ یُبَایِعنَكَ نازل ہوئی اور حکم ہوا کہ عورتیں پیغمبرؐ کی بیعت کریں ، پیغمبر ؐنے عورتوں کو بیعت کی دعوت دی،فاطمہؑ بنت اسد پہلی بیعت کرنے والی خاتون تھیں ۔([28])

پیغمبرؐ اسلام کے مکہ سے مدینہ ہجرت کرنے کے بعد کچھ مسلمانوں نےمکہ چھوڑ دیا اور ہجرت کی زندگی کو جس میں بیحد مشکلات تھیں اسے قبول کرلیاخداوندعالم نے اولین مہاجرین کو اس طرح کی بشارت دی ہے۔

وَالسَّابِقُونَ الأَوَّلُونَ مِنَ المُہَاجِرِیْنَ وَالْأَنْصَارِ الَّذِینَ اتَّبِعُوھُمْ بِاِحسَانٍ رَضِیَ اللہُ عَنہُمْ وَرَضُوْا عَنہُ وَأَعَدَّ لَہُمْ جَنـَّاتٍ تَجرِیْ تَحتِہَا الأَنہَارُ خَالِدِینَ فِیہَا أَبَداًذٰلِكَ الْفَوزُا لْعَظِیمِ۔([29])

مہاجرین اور انصار میں سبقت کرنے والے اور جنہوں نے نیکی کی پیروی کی ہے خدا ان سے راضی ہے اور وہ خدا سے راضی ،خدا نے ان کیلئے بہشت کے باغات فراہم کئے ہیں جن کے نیچے نہریں جاری ہیں او راس میں ہمیشہ رہیں گے،یہ بڑی کامیابی ہے۔

جناب فاطمہؑ بنت اسد مہاجرین سابقین میں ہیں جنہوں نے اپنے فرزند امیرؑ المومنین ؑکے ساتھ مدینہ کی جانب ہجرت کی، امام صادقؑ نے فرمایا فاطمہؑ بنت اسد مادر امیرؑ المومنین پہلی خاتون ہیں جنہوں نے پیغمبرؐکے اتباع میں مکہ سے مدینہ ہجرت کی وہ پیغمبرؐسےبیحدمحبت کرنے والی تھیں ۔([30])

اس بنا پر آیت مذکورہ کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ کہنا بجا ہے کہ خدا ان سے راضی اوروہ خدا سےراضی ہیں ، جنت کے باغات کی نعمتوں سے لطف اندوز ہیں اس میں ہمیشہ رہیں گی، اس معظمہ کیلئے جنت کے وعدہ کا تذکرہ ان کی زیارت میں بھی ہے وَجَعَلَ الجَنَّةَ مَنزِلَكِ وَ مَاوَاكِ اور آپ کا مسکن و ماویٰ جنت کو قرار دیا۔([31])


 

جناب فاطمہؑ بنت اسد ، اقوال بزرگان دین :

(۱)ابن صباغ مالکی: جناب فاطمہؑ بنت اسدنے اسلام قبول کیا ،ہجرت کی، وہ ایمان کی اولین گرویدہ شخصیتوں میں سے ہیں ، پیغمبرؐ کیلئے ماں کی منزل میں تھیں ، جب انہوں نےدنیا سے کوچ کیا، پیغمبرؐ نے اپنے پیراہن میں انہیں کفن دیااور اپنے ہاتھ سے ان کی قبرکی مٹی نکالی ،قبر میں سوئے اور ان کیلئے دعا کی۔([32])

(۲)احمد بن حنبل: جناب فاطمہؑ بنت اسدنے پیغمبرؐ پر ایمان قبول کیا، پیغمبرؐ ان کی زیارت کرتے تھے اور ان کے گھر میں سوتے تھے ،جناب فاطمہؑ جب دنیا سے رخصت ہوگئیں تو پیغمبرؐنے اپنا پیراہن اتار کر اس کاانہیں کفن دیا۔([33])

(۳)شیخ مفیدؒ: فاطمہؑ بنت اسدبن ہاشم ایک مہربان ماں کی طرح پیغمبرؐ کی حفاظت کرتی تھیں اور انہیں نگہداشت میں رکھتی تھیں ، پیغمبرؐ ان کی خدمتوں کی قدر کرتے تھے، فاطمہؑ پہلے گروہ میں پیرو اور مومنہ تھیں ، مہاجرین کے ساتھ مدینہ کی جانب ہجرت کی،جناب فاطمہؑ جب دنیا سے رخصت ہوئیں پیغمبرؐ نے اپنے پیراہن کا کفن دیا ، رسولؐ اکرم اسی وجہ سے ان کا بیحد احترام کرتے تھےاور انہیں اس عظیم فضیلت سے سرفراز کیا تھا کہ ان کامرتبہ اور منزلت خدا وند عالم کی بارگاہ میں مسلم تھا۔([34])

(۴)ابن سعد: فاطمہؑ بنت اسدنے اسلام قبول کیا وہ نیک خاتون تھیں پیغمبرؐ ان سے ملاقات کرتے تھے ان کے گھر میں آرام کرتے تھے۔([35])

(۵)اربلی: فاطمہؑ بنت اسدمادر امیرؑ المومنین، مادر رسولؐ اکرم کی منزل میں تھیں انہوں نے پیغمبرؐ کی اپنے گھر میں پرورش کی وہ ان سابقین میں تھیں جنہوں نے پیغمبر ؐپر ایمان قبول کیا اور مدینہ کی طرف ہجرت کی، پیغمبرؐ نے اپنے پیراہن کاانہیں کفن دیا تاکہ قبر کے کیڑوں سے محفوظ رہیں ، ان کی قبر میں سوئے تاکہ فشار قبر سے محفوظ رہیں ۔ ([36])

(۶)ابن جوزی: فاطمہؑ بنت اسدپہلی خاتون تھیں جنہوں نےپیادہ مکہ سے مدینہ ہجرت کی، انہوں نے پہلے رسولؐ کی بیعت کی ، پہلی ہاشمی خاتون تھیں جن کے بطن سے ہاشمی خلیفہ پیدا ہوا، کوئی دوسرا خلیفہ ایسا نہیں ہے جس کے ماں باپ ہاشمی ہوں سوائے امیرؑالمومنین کے۔([37])

جناب فاطمہؑ بنت اسدکا فشار قبر اور قیامت کے خوف سے گریہ:

مومن کی علامت یہ ہے کہ وہ دنیا سے دل نہیں لگاتا بلکہ ہمیشہ برزخ اور قیامت کی فکر میں رہتا ہے اور کوشش کرتا ہے کہ دینا سے آخرت کیلئےزاد راہ حاصل کرلے۔

حضرت علی ؑکا ارشاد ہے: أکثِرُوا ذِکرَ المَوتِ وَیَومَ خُرُوجِکُم مِن القُبُورِ وَ قِیَامِکُم بَینَ یَدَیِ اللہِ عَزَّ وَ جَلَّ تَہونُ عَلَیکُمُ المَصَائِبُ۔([38])

موت کو ، قبر سے نکالے جانے کواور خدا کی عدالت میں کھڑے ہونے کو زیادہ یاد کرو، تو اس دنیا کے مصائب تمہارے لئےآسان ہو جائیں گے۔

فاطمہؑ بنت اسدمادر امیر المومنینؑ قبر و قیامت کے خوف سے فریاد و گریہ کرتی تھیں ۔

امام صادقؑ کا بیان ہے : جب جناب فاطمہؑ بنت اسدنے یہ سنا کہ پیغمبر ؐنے فرمایا ہے کہ لوگ روز قیامت برہنہ محشور ہوں گے تو روتی رہتی تھیں اور کہتی تھیں : ہائے اس روز کی ذلت، جب پیغمبرؐ سے فشار قبر کے بارے میں سنا تو بلند آواز سے فریاد کر کے کہا : ہائے اس دن کی ناتوانی، رسولؐ اکرم نے ان سے فرمایا :میں خدا سے دعا کروں گا کہ وہ تمہارے لئے کافی ہو اور فشار قبر سے آرام دے۔([39])

جس کا ایمان جتنا زیادہ ہوتا ہے اس کے اندر قبر و قیامت کا خوف زیادہ ہوتا ہے، جناب فاطمہ ؑبنت اسدان ایماندار عورتوں میں سے تھیں جنہیں قبرو قیامت کا شدید ترین خوف رہتا تھا۔

جناب فاطمہؑ بنت اسدکی وصیت:

 جناب فاطمہؑ بنت اسدنے ساٹھ یا پینسٹھ سال نہایت عزت و شان سے زندگی بسر کی اور پیغمبرؐ اسلام اور حضرت علی ؑکی پرورش کی۔

جب بستر بیماری پر فاطمہ ؑبنت اسدتھیں اس کے حالات کے بارے میں امام صادقؑ نےفرمایا: ان فاطمة بنت اسد بن ھاشم اوصیت الیٰ رسول اللہ فقبل وصیتھا، فقالت یا رسول اللہ انی اردت ان اعتق جاریتی ھٰذہ، فقال رسول اللہ ماقدمت من خیر فستجدینه۔ ([40])

فاطمہؑ بنت اسدنے پیغمبرؐ سے وصیت کی ،پیغمبر ؐنے اسے قبول کیا، اس کے بعد فاطمہؑ نے عرض کیا: اے رسولخداؐ میں یہ چاہتی ہوں کہ اس کنیز کو آزاد کردوں ، پیغمبر ؐنے فرمایا:یہ نیک کام ہے جلدی ہی اس نیکی کا بدلہ تمہیں ملے گا۔

یہ منزل ہے جناب فاطمہؑ کی پیغمبرؐ سے محبت کی کہ باوجود حضرت علیؑ کے پیغمبرؐ سے وصیت کی، اس سے یہ بھی معلوم ہو تا ہے کہ فاطمہؑ کا ایمان پیغمبرؐ پر کتنا مستحکم اور راسخ تھا۔

وفات جناب فاطمہؑ بنت اسداور پیغمبرؐ کا گریہ:

جناب فاطمہؑ بنت اسدنے نہایت پر افتخار زندگی گزار دی اور آخر عمر میں بستر بیماری پر رہیں اور دنیا سے کوچ کیا۔

ابن اثیر نے نقل کیا ہے:مادر امیر المومنینؑ نےمدینہ میں دنیا سے رحلت کی جب حضرت علیؑ اور فاطمہؑ کا ازدواج ہو چکا تھا۔([41])

بیماری کے غم انگیز زمانہ میں امیر المومنینؑ ماں کے سرہانے موجود تھے، جب والدۂ گرامی کا انتقال ہوا تو رسولؐ اکرم کے پاس اس کی خبر دینے کیلئے آئے ، ماں کی جدائی کا غم اتنا زیادہ امیر المومنینؑ تھاکہ بلند آواز سے کہا: اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّا اِلَیہِ رَاجِعُون۔

جب رسولؐ اکرم نے حضرت علیؑ کو دیکھا فرمایا: علیؑ کیا ہوا؟ عرض کیا: اے رسولخداؐ مادر گرامی دنیا سے کوچ کر گئیں ، پیغمبر ؐنے فرمایا: بخدا وہ میری ماں بھی تھیں ، پیغمبرؐ نے گریہ کیا اور آواز بلندہو گئی: وَا أُمَّاہُ ۔([42])

عام طور پر عرب کے لوگ لفظ ”وَا“ شدیدمصیبت کے وقت استعمال کرتے ہیں جس سے پتہ چلتا ہے کہ جناب فاطمہؑ کا فراق پیغمبر ؐکیلئے بہت سخت تھا ، آپ جناب فاطمہؑ کے جنازہ کے سرہانے آئے اور فرمایا: ماں ! خدا تم پر رحمت نازل کرے، میری ماں کے بعد آپ میرے لئے مہربان ماں تھیں خود بھوکی رہتی تھیں اور مجھے سیر کرتی تھیں ، خود مجھے لباس پہناتی تھیں ، خود کو اچھی غذا سے محروم رکھ کر مجھے غذا دیتی تھیں ،آپ کا اس عمل سے مقصد یہ تھا کہ خدا راضی ہو اور آخرت میں اس کی جزا حاصل ہو۔([43])

پیغمبرؐ اسلام اور اصحاب نے جناب فاطمہؑ کے جنازہ کی تشییع کی پیغمبرؐ پا پیادہ جنازہ کے پیچھے نہایت سکون سے چلتے رہے اس طرح چلتے ہوئےدیکھ کر لوگوں کو تعجب ہوا اور اس کا سبب معلوم کیا ، پیغمبرؐ نے فرمایا کی میں احتیاط سےقدم اس لئے اٹھا رہا تھا کہ فرشتوں کا جنازہ میں ہجوم تھا جو تشییع جنازہ فاطمہؑ کیلئے آئے تھے۔([44])

پہلی نماز میت:

امام صادقؑ نے بیان فرمایا:جناب فاطمہ ؑبنت اسدکی وفات کے بعد پیغمبرؐ نے تجہیز و تکفین میں شرکت کی، انہوں نےلوگوں سے فرمایا: اِذَا رَأَیتُمُونِی قَد فَعَلتُ شَیئًالَم أَفعَلُہُ قَبلَ ذٰلِكَ فَاسئَلُونِی لَم فَعَلتُہُ۔ ([45])

اگر تم میرا کوئی ایساعمل دیکھو جو میں نے پہلے نہ کیا ہو تو اس کاسبب مجھ سے پوچھ لو،پیغمبرؐ نے دفن فاطمہؑ میں کچھ مخصوص اعمال انجام دیئے جو دوسروں کیلئےجائز نہیں تھے تو لوگوں کو شبہہ نہ ہونے پائے اس لئےفرمایا کہ ایسے اعمال کے بارے میں مجھ سے وضاحت طلب کرلو انہیں مخصوص اعمال میں نماز میت بھی ہے ،اسلام میں نماز میت میں مسلمان کے جنازے پر پانچ تکبیرپڑھی جاتی تھی لیکن پیغمبرؐ نے جناب فاطمہؑ بنت اسد کے جنازہ پر ستر تکبیریں کہیں ،اصحاب نے اس کا سبب پوچھا تو فرمایا کہ میں نے یہ ستر تکبیریں اسلئے کہی ہیں کہ ملائکہ کی ستر صفیں جنازہ فاطمہؑ پر نماز پڑھ رہی تھیں ۔([46])

تشییع جنازہ میں اتنی کثیر تعداد میں ملائکہ کی شرکت سے اس خاتون کی عظمت ، شان اور مرتبہ کا خداوندعالم کی نظر میں اندازہ ہوتا ہے۔([47])

مستدرک الصحیحین میں آیاہے کہ جب پیغمبرؐ نے ستر تکبیریں جنازہ فاطمہ ؑبنت اسد پر کہیں تو عمر نے پیغمبر ؐسے عرض کیا رسولخداؐ : آپ نے اس خاتون کے جنازہ پر ستر تکبیریں کیوں کہیں ،اس سے پہلے آپ نے ایسانہیں کیا ؟پیغمبرؐ نے جواب میں کہا؛ یہ خاتون میری ماں کی منزل میں تھیں ، جبرئیلؑ نے مجھے خدا کی بارگاہ سے خبر دی ہے کہ وہ اہل بہشت سے ہیں خداوندعالم نے ستر ہزار ملائکہ کو حکم دیا تاکہ اس کے جنازہ پر نماز پڑھیں ۔([48])


 

جناب فاطمہؑ بنت اسدکی تدفین:

پیغمبر ؐاسلام نے اسامہ بن زید ،ابو ایوب انصاری ،عمراور ایک غلام کو حکم دیا کہ فاطمہؑ بنت اسد کیلئے قبر کی تیاری کریں جب قبر کھودتے ہوئے لحد کے مقام تک پہونچے تو آنحضرتؐخود قبر میں داخل ہوئے اور باقی حصہ قبر کو اپنے دست مبارک سے کھودا اور مٹی باہر نکالی قبر تیار ہوجانے کے بعد آنحضرؐت نے امیرؑ المومنین کے ہمراہ جسد جناب فاطمہؑ کو قبر میں رکھا اور مراسم تدفین کے ختم ہونےپر آنحضرت ؐنے فاطمہؑ کے سرہانے کھڑے ہوکر فرمایا: فاطمہ میں محمدؐ ہوں انسانوں کاسردار،میں اس پر فخر نہیں کرتا ہوں اگر فرشتے تم سے سوال کریں کہ تمہارا پروردگار کون ہے؟ تو کہہ دینا خداوند یکتا،اس کے بعد کہنامحمدؐ ،میرے پیغمبر ؐ، اسلا م،میرا دین ،قرآن ،میری کتاب ،میرابیٹا علی، میرا امام ہے،اس کے بعد جنازہ فاطمہؑ پر مٹی ڈالی اور زیر لحد سپرد کردیا اس کے بعد داہنے ہاتھ کو بائیں ہاتھ پر رکھ کر تکان دیدیا اور فرمایا بخدا!خدامیرےہاتھ کی آوازکوسنتاہے۔([49])

جناب فاطمہ بنت اسد کی تدفین سے فارغ ہونے کے بعد جب لوگ چلے گئے تو پیغمبرؐ نے ان کے حق میں اس طرح دعا کی: اَللّٰہُمَّ اغفِرلِأُمِّی فَاطِمَةَ بِنت أَسَد وَ لقنھَا حجتھا و وسع علیھا مدخلھا بِحَقِّ نَبِیِّكَ مُحَمَّد وَالأَنبِیَاءِ الَّذِینَ مِن قَبلِی فَانَّكَ أَرحَمُ الرَّاحِمِین۔([50])

خدایا میری ماں کو بخش دے اس کی حجت کو اس پرتلقین کر ،آخرت کے گھر کو وسیع کر، اپنے پیغمبر محمدؐ اور تمام انبیاءؑ کے واسطہ سے تو ارحم الراحمین ہے۔

پیغمبرؐ اسلام نے فاطمہؐ بنت اسد کی تدفین کے بعد فرمایا: قسم ہے اس خدا کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے ،قبل اس کے کہ ان کی قبر سے باہر آئوں میں نے دیکھا کہ دونور ان کے سرہانے ہیں دونورانی چراغ سامنے دوپائینتی اور دو فرشتے ان کی قبر پر موکل ہیں جو روزقیامت تک ان کیلئے طلب مغفرت کریں گے فرشتوں نے افق کوبھردیا اور دربہشت کو کھول دیا بہشتی فرش بچھادئے وہ بہشت کی خوشبو اور آرام میں نعمات جنت سے بہرہ ور ہیں ان کی قبرجنت کےباغوں میں سےایک باغ ہے۔([51])


 

جناب فاطمہؑ بنت اسدکی زیارت:

سیدؒ ابن طاؤس نے کتاب مصباح الزائر میں جناب فاطمہؑ بنت اسد کیلئے مخصوص زیارت ذکر کیا ہے یہ غیر معصوم کی زیارت ہے لیکن علماء کی نظر میں اس زیارت سے جناب فاطمہؑ کی شان اورعظمت کا اندازہ ہوتاہے،زیارت کے الفاظ مفاتیح الجنان وغیرہ میں دیکھے جا سکتے ہیں ترجمہ متن زیارت یہ ہے:

سلام ہو پیغمبرؐ خدا ورسولخداؐ ،سید انبیاء پر،سلام ہو اولین وآخرین کے آقا پر،سلام ہو اس ذات پر جسے خداوند عالم نے دنیا اور دنیا والوں کیلئے رحمت بنا کر بھیجا ،اے رسولؐ آپ پر خدا کی رحمت اور برکت ہو۔

سلام ہو فاطمہؑ ہاشمیہ پر ،سلام ہو، اے صدیقہ مرضیہ خدا،سلام ہو تم پر اے صاحب تقویٰ،سلام ہو تم پر اے صاحب مقام کرا مت ورضا وتسلیم ،سلام ہو تم پر جس نے خاتمؐ الانبیاء کی کفالت کی ،سلام ہو تم پر اےمربی ولی خداکہ امین حق تم سے مخصوص رہا ،سلام ہو تم پر اور تمہاری روح وجسم پر ،سلام ہو تم پر اور تمہارے فرزند علیؑ پر،میں گواہی دیتا ہوں کہ تم نے رسولؐ اور اس کے وصی کی کفالت کو اچھی طرح انجام دیا امانت کو مکمل طور پر ادا کیا، راہ رضائے خدا میں مکمل سعی کی رسولخدا ؐکی حفاظت میں بے انتہا کوشش کی اس حالت میں کہ مقام نبوت سے واقف تھیں رسالت اور اس کی صداقت پرایمان رکھتی تھیں،رسولؐ کے کامل وجود کی نعمت کی بصیرت تھی ان کے امور کی کفالت کی،پیغمبرؐ کیلئے نہایت شفیق ومہربان تھیں ان کی خدمت کی ان کی رضامندی کو ہر چیز پر مقدم کیا،میں گواہی دیتا ہوں کہ تم نےباایمان اور شریف ترین دین اسلام سے متمسک رہتے ہوئے دنیا سے رخت سفر باندھا ،اس حال میں کہ تم خدا سے راضی تھیں ،تم ہر گندگی اور مکروہ امر سے پاک تھیں خداوندعالم بھی تم سے راضی تھا تمہیں خوش کیا اور بہشت کو تمہاری منزل قراردیا۔

خدایا درود بھیج محمدؐ وآلؑ محمد پر مجھے زیارت فاطمہ ؑبنت اسد سے فائدہ پہونچا ان کی محبت میں پائدار اور ثابت قدم فرما مجھے ان کے اور ان کی اولاد کے ساتھ محشور فرما ان کی ذریت میں اماموں ؑ کی شفاعت سے محروم نہ فرما ان کی دوستی کی توفیق عطاکر۔

خدایا اس زیارت کو میری آخری زیارت نہ قرار دے،بلکہ جب تک زندہ ہوں زیارت نصیب کر،جب میری جان نکل جائے تو روزقیامت مجھے ان کے زمرہ میں قرار دے مجھے ان کی شفاعت میں داخل فرما،اپنی بے انتہا بخشش اور رحمت سے ،اے ارحم راحمین۔

خدایا اس بزرگوار کی منزلت اور مقام کے حق کاواسطہ مجھے میرے والدین اور تمام مومنین و مومنات کو بخش دے ہمیں دنیا میں ثواب اور نیکی اور آخرت میں اجر اور مکمل حسنہ عطا فرما اپنے کرم اور رحمت سے ہمیں آتش دوزخ کے عذاب سے محفوظ فرما۔([52])



([1])- بحار الانوار، ج:۸، ص:۵۳ تا ۵۵۔

([2])- کشف الغمۃ، ج:۱، ص:۶۴، احتجاج، ج:۲، ص: ۳۷۳، جلاء العیون،ص:۲۸۔

([3])- شرح نہج البلاغۃ ابن ابی الحدید معتزلی شافعی،ج:۱،ص:۴۔

([4])- بحار الانوار، ج:۲۲، ص:۳۶۱۔

([5])- اسد الغابۃ، ج:۴، ص: ۵۱۷۔

([6])- فصول المہمۃ،ص:۳۱۔

([7])- بحار الانوار ،ج :۵ ۳ ،ص: ۸ ۹ ۔

([8])- فاطمہؑ بنت اسد ،ص: ۳۱۔

([9])- نور الابصار ،ص:۷۶ ، اثبات الوصیۃ، ص:۲۴۶۔

([10])- دلائل الامامۃ، ص:۵۹، بحار الانوار، ج:۱۵، ص:۷۔

([11])- علل الشرائع،ص: ۲۹، فصول المہمۃ، ص:۳۰ ، ارشاد القلوب ، ج:۲،ص:۲۱۱، اعلام الوریٰ،ص:۱۵۳

([12])- کشف الغمۃ،ج:۱،ص:۶۰۔

([13])- ریاحین الشریعۃ، ج:۳، ص:۶۔

([14])- بحار الانوار،ج:۳۵،ص:۱۲۰۔

([15])- علا ل الشرائع،ص:۱۳۰، امالی ،ص: ۷۰۶،بشارۃ المصطفیٰ،ص:۷۔

([16])- امالی صدوق، ص:۱۳۲، کشف الغمہ، ج:۱، ص:۶۰، بحار الانوار،ج:۳۵، ص:۸، زندگانی فاطمہؑ بنت اسد، ص:۶۵۔

([17])- ارشاد مفید، ص: ۸۔

([18])- الفصول المہمۃ،ص:۳۰۔

([19])- کشف الغمۃ،ص:۳۰۔

([20])- منتہیٰ الآمال، ج:۱،ص:۲۷۶۔

([21])- اعلام النساء ،ج:۲،ص:۱۳۷۔

([22])- تاریخ یعقوبی، ج:۲، ص:۷، الخرائج و الجرائح، ص:۱۱۰، بحار الانوار، ج:۳۵، ص:۸۳۔

([23])- بحار الانوار، ج:۱۵، ص:۳۸۳، مناقب آل ابیطالبؑ،ج:۲، ص:۲۱۰۔

([24])- العدد القویۃ ،ص:۱۲۷، بحارالانوار،ج:۳۵،ص:۸۳۔

([25])- الخرائج و اجرائح، ص: ۱۱۰، اثبات الوصیۃ، ص: ۲۴۴۔

([26])- سفینۃ البحار،ج:۷،ص:مادہ فطمۃ۔

([27])- شرح نہج البلاغۃابن ابی الحدیدشافعی،ج:۱،ص:۵۔

([28])- کشف الغمۃ، ج:۱، ص:۸۹، بحار الانوار، ج:۳۶، ص:۱۲۴۔

([29])- توبہ: ۱۰۰۔

([30])- اصول کافی،ج:۲،ص:۴۶۶۔

([31])- مفاتیح الجنان اردو، مترجم خیرآبادی:۵۹۹۔

([32])- الفصول المہمۃ،ص:۳۱۔

([33])- مسائل الامام احمد،ص:۲۲۸۔

([34])- ارشاد مفید،ص:۸۔

([35])- الطبقات الکبریٰ، ج:۸، ص:۲۲۲۔

([36])- کشف الغمۃ،ج:۱،ص:۵۹۔

([37])- حاشیہ فصول المہمۃ،ص:۳۱

([38])- سفینۃ البحار،ج:۸،ص:۱۱۹۔

([39])- اصول کافی، ج:۲، ص:۴۶۶۔

([40])- دعائم الاسلام ،ج:۲، ص:۳۶۱، وسائل الشیعۃ، ج:۱۹،ص:۳۷۴۔

([41])- اسد الغابۃ،ج:۵،ص:۴۱۷۔

([42])- بحار الانوار ،ج:۳۵،ص:۵۱۔

([43])- امالی ،ص:۳۱۴، بشارۃ المصطفیٰ،ص:۲۴۱۔

([44])- بصائر الدرجات،ص:۲۸۷، بحار الانوار ،ج:۳۵،ص:۱۸۔

([45])- اصول کافی ،ج:۲،ص: ۴۶۷، بحار الانوار ،ج:۶،ص :۲۴۱۔

([46])- اصول کافی،ج:۳،ص: ۴۶۷۔

([47])- بحار الانوار،ج: ۳۵، ص: ۷۰۔

([48])- مستدرک الصحیحین،ج:۳،ص:۱۰۸۔

([49])- امالی صدوق،ص:۳۱۴،الفصول المہمۃ،ص:۱۳۱،کشف الیقین،ص: ۱۹۳۔

([50])- بحار الانوار، ج:۳۵، ص:۱۷۹، الفصول المہمۃ ،ص: ۳۱، مقتل الحسینؑ، ص:۶۵۔

([51])- امالی صدوقؒ،ص: ۳۱۵،مقتل الحسینؑ،ص:۶۲،الخرائح والجرائح،ص:۷۱۔

([52])- مفاتیح الجنان اردو، مترجم خیرآبادی، ص:۵۹۸۔

 

 

 

#islam#quraan#imamat#ideology#iran#ghadeer#khum#prophet#muhammad#karbala#saqeefa#zahra#eid#jashn#maula#hadith#rawi#ahlesunnat#takfiri#wahabiyat#yahusain#aashura#azadari#mahfil#majlis#

#اسلام#قرآن#امامت#غدیر#خم#حدیث#راوی#عقاید#محمد#عاشورا#کربلا#سقیفہ#خلافت#ملوکیت#عمر#ابو بکر#عثمان#علی#صحابی#صحابیات#تاجپوشی##islam#اسلامی تعلیمات#Islamic#اسلامیات#educatin#اسلام#karbalastatus#nadeemsarwar  #nohastatus  #imamraza#imamhussain#imamali #shia #yaali #yahussain #yaalimadad #labbaikyahussain #islam #najaf #imammahdi #iran #imam #yazainab #imamhassan #yaabbas #allah #imamezamana #ahlulbayt #azadar #azadari #imamaliquotes #imammehdi #muharram #shianeali #yazehra #hussaini #imamnaqi #shaam#labbaikyaabbas #imammusakazim #imamtaqi #mashad #madina #yahassan #yafatima #yazahra #shiamuslim #quran #imamhassanaskari #bibizainab #imamjaffar #ahlebait #imambaqar #hussain #life #prophetmohammed #sakina #iraq #quote #hazrathali #moharram #zainulabedeen #promoteazadari #bibifathima #ahylubaythmbibizainab #iraqkarbala #abbasalamdar#karbala #nohastatus #farsinoha #5tani #imamali #karbala #imamhussain #shia #yaali #najaf #yahussain #islam #imam #allah #yaalimadad #muharram #yaabbas #ali #azadari #labbaikyahussain #ahlulbayt #quran #hussain #azadar #iran #imamaliquotes #iraq #ahlebait #yazainab #imammahdi #hussaini #imammehdi #imamreza #muslim#hazratali #shianeali #imamhassan #e #prophetmuhammad #madina #shiatweets #muhammad #molaali #mashad #aliunwaliullah #islamicquotes #as #imamhasan #love #yazahra #arbaeen #abbasalamdar #imamalisayings #moharram #shiamuslim #yafatima #pakistan #khwaja #promoteazadari #maulaali #quotes #karbalaa #yazehra #fatima#imamali #quotes #islam #iran #muslim #pakistan #allah #quran #ramadan #iraq #islamicquotes #namaz #ali #muhammad #madina #karbala #shia #prophetmuhammad #yahussain #hussain #najafalihaq #labbaikyaabbas #kufa #muharram #imamaliquotes #yahassan #yahussain #ahlebait #molaali #najaf#hussaini #manqabat #karbala #labbaikyahussain #alishanawar #nadeemsarwar #mesumabbas #farhanaliwaris #bainulharamain #imamali#imamhussain #kaneez #shrine #karbalawrites #najaf #shia #azadar #azadari #alimola #azadariworld#hussainimadia #mylifekarbala #mirhassanmir #yahussain #yazahra #shianeali #hussaini_azadar #arbaeen #imammehdi #shia_youth#yaali #yaalimadad #yazehra #yafatema #labbaik_ya_husain #امام_علی #امام_حسین2⃣5⃣रमजान #متباركين #ابا_الفضل_العباس #الامام_الحسين_عليه_السلام#يازهراء #باب_الحوائج #الامام_الكاظم #كربلاء_المقدسة #كربلاء_الحسين #امام_حسين_عليه_السلام #وفاء_للحسين #بين_الحرمين #ابا_الفضل #حبيب_بن_مظاهر_الاسدي

#العتبة_الحسينية_المقدسة #كربلا_معلى #حبيب_بن_مظاهر #الامام_المهدي #ya_ali_madad92never #art #ahlulbayt #yamahdi #iraq #muharram#zainab #karbala #zainimam #love #allah #shia #imamali #ahlulbayt #justiceforzainab #asifa #justiceforasifa #najaf #imamhussain #quran #yaabbas #yahussain #ali #muharram #islam #yaali #hussain #yaalimadad #muslim #labbaikyaabbas #imammahdi #official #azadar #sayedazainab #e #imamhasan#muharram1441 #yaabbas #yafatima#fatima #allah #karbala #ali #hussain #jesus #najaf #f #imam #e #catholic #tima #imamali #virgenmaria #portugal #o #quran #muhammad #imamhussain #maria #nossasenhoradefatima #a #pray #yaali #salamyahussain #mashad #khwaja #shia #madina #iraq #worldazaadari #welovekarbala #کربلا #امام_زمان #امام_حسین #حضرت_ابوالفضل #محرم#نجف #سامرا #امیرالمؤمنین #امام_حسن #فاطمہ_زهرا #حضرت_زینب #بقیع #

#سلام‌عزیز‌خدا #خدا #بین_الحرمین #حرم #زیارت #عشق #مذهبی #مشهد #کربلاء #شهید#شهدا #کربلاء_المقدسة #شیعه #اربعین #چادری #حجاب #حجابات #رهبر #رهبری #syria #الشيعة #تهران #ويبقى_الحسين #لبيك_يا_حسين #ايران #اصفهان #عاشوراء #باسم_الكربلائي #العراق#

 

 

No comments:

Post a Comment

مادران معصومین ع ایک تعارف۔8۔

  آپ امام موسی کاظمؑ کی والدہ تھیں ، تاریخ سے ان کی ولادت با سعادت کی اطلاع نہیں ملتی ہے۔ آپ کے والد کا نام صاعد بربر یا صالح تھا،...