آداب ازدواج
۱۔ہم مرتبہ کا انتخاب کیا جائے(کفو)۔ ۲۔شوہر و زوجہ کا انتخاب مرد و زن خود کریں ، والدین کی رضایت(رضامندی)کا مکمل خیال رکھیں۔۳۔اپنے شریک حیات کو طرفین دیکھ سکتے ہیں مندرجہ ذیل شرائط کے ساتھ: الف:بغیر لذت کے نظر کرے۔ ب: شادی دیکھنے پر موقوف ہو۔ ج: شادی کیلئے موانع نہ ہوں۔ ۴۔منگنی اور عقد سے پہلے شرعی حدود میں رہ کر ایک دوسرے بات سے چیت کر سکتے ہیں۔۵۔گلی کوچوں میں پھرنے والے لڑکے لڑکیوں سے شادی نہ کی جائےیا ٹیلی فون پر بھی شادی کرنے سے پرہیز کریں۔ ۶۔شادی قبل ضروری چھان بین اور تحقیق ضرور کی جائے خواہ وہ آشناہی کیوں نہ ہو۔۷۔دلسوزی یا کسی اور وجہ سے کبھی بھی شادی نہ کی جائے کہ ایسی شادیاں پائیدار نہیں ہوتی ہیں۔ ۸۔باکرہ لڑکی کا انتخاب کیا جائے کہ حافظہ اچھا ، محبت پائیدار، دہن خوشبوتر ، رحم خشک تر اور شیردان پر از شیر ہوتا ہے۔۹۔لڑکی کے انتخاب میں ان صفات کا خیال رکھا جائے: گندم گون، فراخ چشم ، آنکھیں سیاہ، سر بزرگ، میانہ بلند، گردن خوشبودار، تلوے گوشت سے بھرے ہوں اور بال بڑے اور لمبے ہوں۔ ۱۰۔خوبصورتی ہونی چاہئے لیکن خوبصورتی کو بنیاد نہیں قرار دینا چاہئےبلکہ تقویٰ کو بنیاد قرار دے ۔ ۱۱ ۔شوہر کے خاندان اور رشتہ دار کو مدنظر رکھے ۔ ۱۲۔عقیم(بانجھ) گندگی، لجاجت پسنداور بد دہن عورتوں سے ازدواج سے پرہیز کرے۔۱۳۔اپنے شریک سفر کے مال و دولت پر نظر نہ رکھے کہ یہ سعادت و نیک بختی کے سبب نہیں ہیں۔۱۴۔مہر عورت کا حق ہے ، مہر کم سے کم قرار دی جائے۔ ۱۵۔جب شادی کا ارادہ ہو تو دو رکعت نماز پڑھے اور خدا سے امداد طلب کرے کیونکہ عورت ایک قلادہ ہے۔۱۶۔اجنبی نگاہوں سے ہمسر کا تحفظ ضروری ہے۔۱۷۔ازدواج کے بعد زادو ولد میں میں تاخیر نہ کرےتاکہ محبت و الفت میں زاد و ولد کے ذریعہ مزید استحکام پیدا ہوسکے۔ ۱۸۔اپنے ہمسر کے اہل خانہ کی جسمانی سلامتی کا خیال رکھے۔۱۹۔زوجہ تین سال یا زیادہ سے زیادہ سات سال عمر کے اعتبار سے چھوٹی ہو۔ ۲۰۔زوجہ کے دین و ایمان کو مد نظر رکھے۔ ۲۱۔شادی کے وقت زندگی کے اخراجات کا خوف نہ پیدا ہو۔۲۲۔شادی سے روزی میں اضافہ اور زندگی شاداب ہوتی ہے۔۲۳۔منگنی کیلئے جمعہ کا دن بہتر ین ہے۔۲۴۔خوش اخلاق فرد سے شادی کرو۔۲۵۔روح ربانی کی انسان کو اتنی ہی ضرورت ہوتی ہے جتنی اولاد کو ماں کی، جسم انسانی کو زندہ رہنے کیلئےآب و ہوا کی ضرورت ہوتی ہے، روح انسانی الٰہی ہدایت کی محتاج و ضرورتمندہے، سکون دل وہ زرخیز زمین ہے جس میں تمناؤں اور آرزوؤںکےبیج پودہ کی شکل اختیار کرتے ہیں،ذکر الٰہی کی زمین پر اپنے احتیاجات کی بذر پاشی کرو تاکہ نیکیاں نمودار ہوں، اللہ اس بندہ کے ساتھ ہے جو اسکے ذکر اور یاد کو اپنے ہمراہ رکھتا ہے، اللہ پر توکل کرو، جتنا خدا سے رابطہ مستحکم ہوگا سکون واطمینان ززندگی میں بڑھتا جائے گا اور جتنا خدا سے رابطہ کمزور ہو گاخوف و اضطراب کی تاریکیاں تمہیں گھیر لیں گی، یاد خدا ہونا یعنی خود اپنی نصرت کرنا ہے۔۲۶۔جب تمہارے احساسات مجروح ہو رہے ہوں تو حلم و بردباری کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑو کیونکہ ہر فرد صرف اس بات پر نظر گڑائے ہوتی ہے کہ دوسرا کیا کر رہا ہے؟۲۷۔خاندانی اختلافات میں انصاف پسند ہونا چاہئےکوئی بھی ازدواجی زندگی اختلافات سے پاک نہیں ہوتی ہے اور اختلافات مشکل ساز بھی نہیں ہوتے ہیں، طرفین کا انداز آپسی اختلافات سبب ہوتا ہے ، لڑائی جھگڑے سے بچنے کیلئے مناسب ہے ہفتہ میں ایک معین وقت میں زن و شوہر بیٹھ کر خوشگوار ماحول میں آزادانہ بحث و مباحثہ کریں اور اتفاق رائے سے اپنے لئے خوشگواری کی راہیں تلاش کریں۔ ۲۸۔ایک دوسرے کی باتوں کو غور سے سنیں اور ایک دوسرے کو آزادانہ اپنی بات بیان کرنے کا موقع دیں پھر جو کچھ بیان کیا جائے اسکو بغیر کسی قسم کے اظہار نظرکے بیان کرے کہ تمہارے کہنا کا مطلب میں نے یہ سمجھا ہےکیونکہ افراد عمومی طور پر اس بات کے متمنی نہیں ہوتےہیں کہ ہماری موافقت کی جائے بلکہ انکی تمنا یہ ہوتی ہے کہ میری بات مقابل خوب اچھی طرح سے سمجھ لے۔ ۲۹۔واقع بین بنوکہ یہ خاندان میں صلح و صفا کو پروان چڑھاتی ہے، ماضی کو بھلا کر مستقبل کے لمحات کو خوشگوار بنانے کیلئے پر امید ہوکر جد و جہد کریں اور مردہ حیات میں تازہ روح پھونکنے کی حتی المقدور کوشش کریں،شوہرہمیشہ اسکی بات کی توقع نہ رکھے ، زوجہ اپنی اصلاح خود کرے اور اپنے اندر تبدیلی پیدا کرےبلکہ خود بھی اقدام کریں اور زوجہ کو موقع اور فرصت مہیا کرائے۔۳۰۔بیہودہ مسائل و اختلاف کی بنیاد پر طلاق کا اقدام نہ کریںکہ خدا کے نزدیک طلاق بدترین عمل ہےاور اس سے کسی مشکل کاحل ممکن نہیں ہے۔ ۳۱۔فقر یاکسی دوسری وجہ سے سقط جنین کا اقدام نہ کرےکہ یہ عظیم ترین گناہ ہےساقط شدہ بچے روز قیامت تمہارے دامن گیر ہوں گےکہ ہمیں کس جرم میں قتل کیا گیا ہے۔۳۲۔شادی سے قبل غور و فکر ، تحقیق و جستجو ، جانکاری حاصل کر لو، دید و بازدید(میل جول ا ور ملاقات) انجام دی جائے اور استخارہ بھی کر لیا جائے۔۳۳۔جسمانی و روحانی اعتبار سے صحیح و سالم ہو ۔۳۴۔لڑکے لڑکی کے حوالہ سے مشورہ کرنے میں خدا کو نظر میں رکھ کر تمام اچھائیوں اور برائیوں کو بیان کر دیا جائے تاکہ عند اللہ بازپرس نہ ہو۔۳۵۔اگر شادی سے پہلے صیغہ محرمیت پڑھنا چاہتا ہے تو اسکی مدت کو طولانی نہ کرے کہ یہ عمل حد درجہ خطرناک ہے۔۳۶۔زوجہ کی محبت و الفت والدین سے دوری اور بے توجہی نیز انکی بے احترامی کا سبب نہ قرار پائےنہ اپنی زوجہ کو والدین پر اور نہ ہی والدین کو زوجہ پر قربان کر دیا جائے۔
No comments:
Post a Comment