جناب فاطمہؑ زہرا پیغمبر اکرؐم اور جناب خدؑیجہ کی بیٹی، امام علی بن ابیطالبؑ کی شریکۂ حیات اور امام حسنؑ و امام حسینؑ (جناب زینبؑ ام کلثوم) کی مادر گرامی ہیں ۔
دین اسلام میں جناب فاطمہ زہرؑا کا مقام و مرتبہ بہت بلند ہے، متعدد خصوصیات میں امتیازی شان و عظمت کی ملکہ ہیں ۔خود آپ بھی معصومہ ہیں اور آپ کی نسل سے ۱۲؍ امام بھی معصوم ہیں ۔ قرآن کریم کے سورے اور آیتیں جیسے سورہ کوثر، سورہ انسان (دہر) آیت تطہیر، آیت مودت ان کے اور ان کے شوہر اور فرزندوں کے سلسلہ میں نازل ہوئی ہیں ۔ ان سے دوستی اور دشمنی پیغمبرؐ سے دوستی اور دشمنی کی منزل میں ہے، پیغمبرؐ نے فرمایا ہے کہ فاطمہؑ عالمین کی عورتوں کی سردار ہیں ۔
جناب فاطمہؑ زہرا کا عقد سنہ ۲ یا ۳ ہجری میں امام علیؑ سے ہوا، قرآن مجید کی آیتوں کی روشنی میں جناب فاطمہؑ زہرا،حضرت علیؑ اوران کے دونوں فرزند امام حسنؑ و امام حسینؑ پیغمبرؐ کے اہلبیتؑ میں ہیں جن پر پیغمبرؐ کی بے شمار عنایات رہیں ۔
جناب فاطمہؑ زہرا نے پیغمبر اسلامؐ کی وفات کے بعد حضرت علیؑ کے حق خلافت کے تعلق سے جو اللہ کی جانب سےمعین تھا، سختی کے ساتھ دفاع کیا عمر بن خطاب نے جناب فاطمہؑ زہرا کے گھر پر حملہ کیا ابو بکر کی خلافت کی ہواداری میں اور (گھر آگ لگائی دروازہ کو دھکہ دے کر جناب فاطمہؑ زہرا پرگرایا اور اس کے صدمہ اور زخم سے شہادت ہوئی۔)
جناب فاطمہؑ زہرامقام ومنزلت عصمت پر فائز تھیں دومعصوم اماموں امام حسنؑ وامام حسینؑ کی مادر گرامی ہیں ان کے فضائل ومناقب بہت زیادہ ہیں جو فطری استعداد اور بیحد جدوجہد کے ساتھ حاصل کئے ہیں اور ان کے ذریعہ قرب الٰہی اور روحانیت کے زینوں کو یکے بعد دیگرے طے کیا ہے۔
فاطمہؑ اپنے پدر بزرگواررسولؐ اکرم کی مونس وباوفامددگارتھیں اسی وجہ سے پیغمبرؐ نے انہیں ”أُمُّ أبِیھا“کے لقب سے یادکیا ہے۔
ان کے فضائل کو قلم نقل کرنے سے عاجز ہے یہ فضیلت عظیم ترین ہے کہ خداوندعالم نے انبیائےؑ ماسبق کی نسلوں کو انہیں کی صلب سے قراردیا لیکن آخری پیغمبرؐ کی نسل کو صلب علیؑ سے بذریعہ فرزندان جناب فاطمہؑ زہرا قراردیا۔
جناب فاطمہؑ زہرا نے اپنی آغوش میں ایسےفرزندوں کو تربیت دی ہے جن کی شجاعت اور بہادری کو دشمنان دین کے مقابلہ میں کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتاہے مختصر ترین مگر جامع ترین زندگی میں حیات انسانی کے گوناگوں گوشوں کو تابندہ رکھا۔
جناب فاطمہؑ زہرا ایک شوہر کی بہترین شریکہ حیات،بچوں کی بہترین مربی ماں اور عظیم ترین باپ کی اکلوتی عظیم ترین بیٹی تھیں ، تربیت اولادمیں وہ اپنی مثال آپ تھیں، انہوں نے اپنی ذاتی زندگی میں تمامتر تشریفات سے خودداری کی اور کم سے کم ضرورت زندگی کو پسند کیا یہاں تک کہ جب جنگ کا مال غنیمت جمع ہوا اور مسلمانوں کی مالی حیثیت میں بہبودی پیدا ہوئی تب بھی بقدر کفاف پر زندگی بسر کرتی رہیں ۔
ایک مسلمان عورت کو مکتب جناب فاطمہؑ زہرا سے سبق حاصل کرنا چاہئے کہ انہوں نے کس طرح مہر ومحبت،ایثار ومعنویت کی شمع روشن کی،جناب فاطمہؑ کاکردار نمونہ قراردے کر عفت وایمان کے اسلحہ سے آراستہ ہونا چاہئے اور جو امن وصلاح کی شمع فروزاں زہراؑ کے ہاتھوں روشن ہوئی اس سے فساد وبد امنی کے اندھیروں کو دور کرنا چاہئے۔
ولادت با سعادت:
مکہ معظمہ کے اس نورانی مکان میں آپ کی ولادت باسعادت ہوئی جو محل نزول وحی تھا اس مکان کو روحانیت اور مخصوص تقدس حاصل تھا ،جناب فاطمہؑ زہرا پیغمبرؐ اسلام اور جناب خدیجہؑ کی اکلوتی بیٹی تھیں انہیں پیغمبرؐ اسلام کی دوسری اولادکے مقابلہ میں عظمت اور اہمیت حاصل تھی اسی وجہ سے خود پیغمبرؐ اسلام بھی دوسرے فرزندوں کے مقابلہ میں جناب فاطمہؑ زہرا سے زیادہ محبت کرتے تھے۔([1])
آپ کی ولادت ۲۰ جمادی الثانیہ کو ہوئی اس تاریخ میں اختلاف نہیں ہے لیکن سال ولادت کے بارے میں چند اختلافات پائے جاتے ہیں :
(۱)بہت سے علماء شیعہ جیسے کلینیؒ،ابن جریر طبری،طبرسیؒ،مجلسیؒ،ابن شہر آشوب، سید محسن امین ؒنے نقل کیا ہےکہ جناب فاطمہؑ زہرا کی ولادت 000۵ بعثت میں ہوئی۔([2])
(۲) کچھ علماء جیسے شیخ مفیدؒ نے حدائق الریاض میں اور شیخ طوسیؒ نے مصباح المتہجد میں لکھا ہے: آپ کی ولادت 000۲ بعثت میں ہوئی۔([3])
(۳)اہلسنت کے کچھ مورخین اور محدثین جیسے طبری،ابوالفرج اصفہانی ،احمد ابن حنبل نے لکھا ہے کہ آپ کی ولادت بعثت سے پانچ سال قبل ہوئی۔([4])
(۴)کچھ علماء اہلسنت نے جناب فاطمہؑ زہرا کی ولادت۔ 00۱0۰ بعثت میں لکھی ہے جب آپ کی عمر اکتالیس سال تھی ۔([5])
نام ،کنیت، لقب:
جناب فاطمہؑ زہرا کے نام زیادہ ہیں ان میں سے بعض کو خداوندعالم نے معین کیا ہے اور بعض خداوندعالم کے برگزیدہ افراد نے۔
امام صادقؑ کا ارشاد گرامی ہے: فاطمہؑ زہرا کے خداوند عالم کی بارگاہ میں نو نام ہیں ؛فاطمہ،صدیقہ،مبارکہ،طاہرہ،زکیہ، راضیہ،مرضیہ،محدّثہ،زہرا،ان کا نام فاطمہؑ اس لئے قرار پایا کہ وہ تمام تر برائیوں سے دور تھیں ، اگر حضرت علیؑ نہ ہو تےتوان کا کوئی ہمسر نہ تھا۔([6])
علامہ مجلسیؒ نے امام صادق ؑکی اس حدیث کی تشریح اس طرح کی ہے: صدیقہ یعنی معصومہ، مبارکہ یعنی علم، فضل،کمالات،معجزات اور اولاد کرام میں صاحب برکت ، طاہرہ یعنی نقائص سے پاکیزہ، زکیہ یعنی کمالات وخیرات کو بڑھانے والی، راضیہ یعنی خداوندعالم کے فیصلہ پر راضی، مرضیہ یعنی خداودوستان خدا کی پسندیدہ، محدثہ یعنی فرشتوں سے بات کرنے والی،زہرایعنی صوری ومعنوی نور سے نورانی۔([7])
محدثین ومورخین نے مندرجہ ذیل کنیت جناب فاطمہؑ زہرا کیلئے بیان کی ہیں : ام الائمہ،ام ابیہا،ام الحسن،ام الحسین،ام المحسن۔([8])
جناب فاطمہؑ زہرا کے مشہور القاب یہ بیان ہوئےہیں : حصان، حورا، عذرا، منصورہ، نوریہ، بتول،علیمہ،حکیمہ،نقیہ،حلیمہ،تقیہ،سیدہ،مضطہدۃ الشہیدۃ، مونسۃ، خدیجۃ الکبریٰ۔([9])
ہر کنیت اور لقب جناب زہرؑا کی عظمت کو نمایاں کرتی ہیں ۔
بچپن اور نوجوانی کا زمانہ:
جناب فاطمہؑ زہرا نے اپنی زندگی کا آغاز ایسے دور میں کیا جب دشمنان اسلام کا پیغمبرؐ اکرم پر مختلف طرح کا فشار اور تہدیدتھی اور ان کے دوست بھی مختلف انداز کے بحران اور شکنجوں سے دوچار تھے۔ ([10])
جناب فاطمہؑ زہرا نے تین سال تک بچپن میں شعب ابو طالبؑ میں خاندان و یاوران پدر بزرگوار کے محاصرہ کو دیکھا، ایک روز جب بھوک سے بے حال ہورہی تھیں چہرہ کا رنگ اڑاہوا تھا، پدر بزرگوار کے پاس آئیں اورکہا :بابا ہم بھوکے ہیں ، رسولخدا ؐنے اپنا دست مبارک آپ کے سینہ پر رکھا اور سر کو آسمان کی جانب بلند کیا اور کہا: اے بھوکوں کو سیر کرنے والے خدا، اے پست انسانوں کو ذلیل کرنے والے، میری فاطمہؑ کو بھوکا نہ رکھ۔
عمران بن حصین کا بیان ہے کہ میں نے دیکھا فوراً جناب فاطمہ ؑکے چہرہ کی زردی ختم ہوگئی اور رخسارہ گلگوں ہو گیا۔
الغرض قریش کا بدترین محاصرہ اورشعب کا تلخ دور ختم ہوا،پیغمبرؐ اور ان کے اصحاب اپنے گھرواپس آئے اس وقت جناب فاطمہ ؑزہرا کی عمر پانچ سال تھی اور وہ فطری آزادی کی سانس لینا چاہتی تھیں لیکن خوشی کے یہ دن زیادہ نہ رہے اور مادر گرامی دنیا سے کوچ کر گئیں ۔([11])
جناب خدیجہؑ کی رحلت کے بعد، ماں کے چھوٹ جانے کا غم تو جناب فاطمہؑ کو تھا ہی اس کےساتھ روزانہ یہ دیکھتی تھیں کہ مشرکین مکہ کی جانب سے تلخ و ناگوار حوادث پیغمبرؐ پر وارد ہو رہے ہیں ، ایک روز جناب فاطمہؑ زہرا نے دیکھا کہ مشرکین مسجد الحرام میں بیٹھے ہیں اور پیغمبر ؐکے قتل کی تدبیر سوچ رہے ہیں وہ روتی آنکھوں کے ساتھ گھر واپس ہوئیں اور باپ کو دشمنوں کی سازش سے باخبر کیا۔([12])
ابن مسعود کا بیان ہے کہ ایک روز رسول ِخداؑ مسجد الحرام کے ایک گوشےمیں نماز میں مشغول تھے، ابو جہل اور اس کے ساتھی آنحضرؐت کو دیکھ رہے تھے ان میں سے ایک شخص اٹھا اور اونٹ کی اوجھڑی آنحضرتؐ کےشانہ پر اس وقت ڈال دیا جب آپ سجدہ میں تھے ، دوسرے یہ دیکھ تمسخر کرنے لگے، میں اس منظر کو دیکھ رہا تھا لیکن آگے بڑھنے کی ہمت نہ ہوئی کہ اس اوجھڑی کو اتاردوں ،اس واقعہ کی اطلاع جناب فاطمہؑ کو ملی ، وہ مسجد الحرام آئیں اور اوجھڑی کو شانہ پر سے اتارااور توہین کرنے والوں کی سرزنش کی۔([13])
ازدواج:
مؤرخین کے بیانات سال ازدواج جناب فاطمہؑ زہرا کے بارے میں مختلف ہیں ، بعض لوگوں نے رجب 0۱00 ھ میں لکھا ہے۔([14])
بعض نے ذی الحجہ00 0۲ ھ لکھا ہے۔ ([15])
علامہ سید محسن امینؒ نے اس سلسلہ میں لکھا ہے کہ بعض علماء نے ازدواج فاطمہؑ کو سنہ ۲ ہجری اور بعض نےسنہ ۳؍ ہجری میں قرار دیا ہے ، اگر ہم ولادت جناب فاطمہؑ زہرا کوسنہ ۴؍بعثت میں قرار دیں تو وہ آٹھ سال مکہ میں پدر بزرگوار کے ہمراہ زندگی بسر کرتی رہیں رسولخداؐ.کی ہجرت کے بعد فاطمہؑ بھی مدینہ گئیں ،مدینہ میں قیام کو ایک سال نہیں گزرا تھا کہ حضرت علیؑ سے فاطمہؑ کا ازدواج ہوا۔([16])
جب جناب فاطمہؑ سن رشد اور ازدواج کو پہونچ گئیں تو ان کے کمالات و فضائل اور آنحضرتؐ کی نگاہ میں رتبہ کی بنا پر بعض اصحاب رسولؐ جناب فاطمہ ؑزہراسے خواستگاری کیلئے آئے لیکن پیغمبرؐ نے ان کی خواستگاری کو قبول نہیں کیا ، ایک روز عبد الرحمٰن بن عوف جناب فاطمہ ؑ ؑکی خواستگاری کیلئے آیا اور کہا : اے رسولِ خداؐ اگر فاطمہؑ کو میرے عقد میں دیدو تو میں زیادہ مال اس کیلئے صرف کرنے کیلئے آمادہ ہوں اور زیادہ مہر اس کیلئے قراردوں گا، پیغمبرؐ کو اس بات سے تعجب ہوا اور فرمایا کہ تم یہ چاہتےہو کہ پیسوں سے اس ازدواج کوہم پرلاددو۔([17])
انس کا بیان ہے کہ حضرت علیؑ سے قبل ابو بکر و عمر پیغمبرؐ کے پاس جناب فاطمہؑ کی خواستگاری کیلئے گئے لیکن آنحضرتؐ نے منفی جواب دیا اور کہا کہ میں حکم الٰہی کے انتظار میں ہوں ۔ ([18])
ابو بکر و عمر اور سعد بن معاذ حضرت علی ؑکے پاس گئےان سے کہا کہ پیغمبرؐ کے پاس جائیں اور زہراکی خواستگاری کریں حضرت علی ؑنےفرمایا:یہ میری آرزوہے۔([19])
امیرؑ المومنین نے بیان کیا ہیکہ میرا جناب فاطمہؑ زہرا سے عقد کا ارادہ تھا لیکن شرم و حیا دامنگیر تھی کہ کیوں کر پیغمبرؐ سے اس بات کو بیان کروں ، شب و روز میں اس فکر میں رہتا تھا یہاں تک کہ ایک روز خدمت رسولؐ اکرم میں حاضر ہوا،رسولؐ اللہ نے پوچھا : اے علیؑ !کیا تمہیں ازدواج کا قصد ہے ؟میں نے کہا رسولِ خداؐ زیادہ جانتے ہیں میں سوچ رہا تھا کہ وہ یہ چاہتے ہیں کہ قریش کی لڑکیوں میں سے کوئی ایک مجھ سے عرض کرے ،میرےدل میں خیال تھاکہ فاطمہؑ سےرشتہ کروں ،میں رسولخداؐ کے پاس سے نکلا، ناگاہ رسولخداؐ کا فرستادہ آیا اور اس نے کہا کہ پیغمبر ؐکی بات سنو، میں جلدی آنحضرتؐ کے پاس گیا ، آپ ام سلمہ کے حجرہ میں تھے ، جب آپ نے دیکھا تو خوش ہوئے اور اس طرح ہنسے کہ دندان مبارک نظر آنے لگے اور فرمایا کہ علیؑ .کو خوشخبری دیدوکہ خدا نے اسکی کفایت کردی جو میں اپنے دل میں تیری ازدواج کیلئے رکھتا تھا، ابھی جبریلؑ امین نازل ہوئے ہیں اور خبردی ہے کہ خداوند عالم نے فاطمہؑ کو حضرت علیؑ کے ازدواج میں دیدیا ہے۔([20])
مہر:
پیغمبرؐ اسلام نے حضرت علیؑ سے پوچھا: تمہارے پاس کچھ مال ہےجو فاطمہؑ زہرا کا مہر قرار پائے؟حضرت علیؑ نے کہا: میرے ماں باپ آپ پر قربان جائیں ، میرے پاس صرف ایک تلوار ، زرہ، اور اونٹ ہے،پیغمبرؐ نے فرمایا کہ تلوار اور اونٹ جہاد اور کام کیلئے ضروری ہے، تمہاری زرہ کو مہر قرار دیتا ہوں ،حضرت علی ؑنے حکم پیغمبر ؐسے زرہ کو بیچ دیا مہر کی قیمت پانچسو درہم تھی ، مہر کے طور پر پیغمبرؐ کے حوالہ کر دیا۔([21])
یہی رقم مہر سنت کہلائی جومسلمانوں کے درمیان رائج ہے، زیادہ تر پیغمبرؐ کی ازواج کا مہر اس سے زیادہ نہیں تھا،اس میں بنیاد مہر جناب فاطمہؑ زہراتھی۔([22])
اس سلسلہ میں ابن ابی الحدید معتزلی شاافعی کا بیان ہے: عمر اپنے زمانۂ خلافت میں عورتوں کا مہر جناب فاطمہؑ کے مہر سے زیادہ قرار دینے سے روکتےتھے۔([23])
جہیز:
جناب امیرؑ المومنین اور فاطمہؑ زہرا کی ازدواجی زندگی کا آغاز سادہ رواسم اور ضروری لوازم خانگی سے ہوا، مکان مٹی کا تھا آپ کو آنحضرتؐ نے جو سامان جہیز دیا تھا وہ یہ تھا:
۱۔ ایک پیراہن۔ ۲۔ ایک مقنعہ۔۳۔ ایک قطیفہ مشکی۔ ۴۔ لکڑی کا تخت اور کھجور کی چھال کا گدا۔ ۵۔ دو کتان مصری کی توشک، ایک اون سے بھری دوسری لیف خرما سے پر تھی۔ ۶۔ چار تکئے، دو اون کی او ردوکیف خرما کی۔ ۷۔ ایک پردہ۔ ۸۔ ایک روانداز سیاہ چنبر۔۹۔ ایک آسیاب دستی (چکی)۔۱۰۔ ایک پانی کی مشک۔ ۱۱۔ دودھ کیلئےلکڑی کا پیالہ۔۱۲۔ کپڑا دھونے کیلئے ایک بڑا طشت۔۱۳۔ سفالی کوزہ پانی کی حفاظت کیلئے۔ ۱۴۔ لوٹا۔۱۵۔ ایک چٹائی۔ ۱۶۔ رخت آویز۔۱۷۔ چرم گوسفند کا دسترخوان ۔
آپ کا سامان جہیز پیغمبر ؐاسلام کے حکم سے بعض اصحاب کے ذریعہ خریدا گیا تھا جس کی قیمت ۶۳ درہم تھی پیغمبر نے باقی پیسے جناب بلال کو اس لئے دیئے تاکہ وہ جناب فاطمہؑ کیلئے عطر اور خوشبو خریدیں کچھ ام ایمن کو دیا تاکہ ضروری سامان کو وہ خریدیں اور کچھ ام سلمہ کے حوالہ کیاکہ وہ اس کی حفاظت کریں ۔([24])
سامان جہیز پیغمبرؐ کی خدمت میں لایا گیا آپ نے اسے دیکھا اور فرمایا: أَللّٰہُمَّ بُورَكَ لِأَھلِ بَیتِ جل آنِیتَهُم مِنَ الخزفِ ۔([25])
خدایا اس جہیز کو اہل خانہ کیلئے مبارک قراردے جس کے اکثر ظروف مٹی کے ہیں ۔
عروسی:
سامان جہیز کی خریداری کو تقریبا ایک مہینہ گزررہا تھا حضرت علیؑ اگرچہ زیادہ تر وقت پیغمبرؐ کی خدمت میں رہتے تھے لیکن شرم وحیا کی وجہ سے عروسی کے بارے میں گفتگو نہیں کرتے تھے ایک روز ان کے بھائی عقیل نے کہا کہ تم اپنی زوجہ کو گھر کیوں نہیں لاتے ہو تاکہ تمہاری عروسی سے ہماری آنکھ روشن ہو،یہ بات پیغمبرؐ کو معلوم ہوئی حضرت علیؑ کو بلا کر پوچھا کہ عروسی کیلئے آمادہ ہیں حضرت علیؑ نے مثبت جواب دیا۔([26])
یکم ذی الحجہ یا ۶ ذی الحجہ سنہ ۲؍ہجری کو حکم پیغمبر ؐسے مراسم ازدواج حضرت علیؑ وزہراؑ ادا ہوئے پیغمبرؐ نے حکم دیا ولیمہ کرنے کا ،انصار میں سے ایک شخص بنام سعد نے ایک گوسفند ولیمہ کیلئے ہدیہ کیا کچھ انصار آٹالائے کچھ تیل اور خرما وغیرہ بازار سے خریدا گیا پیغمبرؐ کی نگرانی میں کھانا تیار ہوا زیادہ لوگوں نےپیغمبرؐ کی برکت سے کھانا کھایا اور کچھ کھانا فقیروں کیلئے بھیجا گیا۔ ([27])
پیغمبرؐ اسلام نے اپنی ازواج اور دختران عبدؑ المطلب کو حکم دیا کہ جناب فاطمہؑ کو تیار کریں ان کی عروسی میں تکبیر کہیں ،حمد خدابجالائیں اور کوئی ایسی بات زبان پر نہ لائیں جس میں خدا کی رضامندی نہ ہو۔([28])
پیغمبرؐ کی ازواج اور دختران عبدؑ المطلب نے جناب فاطمہؑ کو تیار کیا اونٹ پر سوار کیا اونٹ کی مہار سلمانؑ کے ہاتھ میں تھی مقداد اور کچھ بنی ہاشم کے لوگ اونٹ کے داہنے بائیں تھے انتہائی تزک واحتشام سے حضرت فاطمہؑ کو حضرت علیؑ کے در دولت پر لے گئے جبریلؑ و میکائیلؑ ۷۰؍ ہزار فرشتوں کے ساتھ اس جشن عروسی میں شریک تھے ابتدا میں جبریلؑ نے تکبیر کہی پھر باقی ملائکہ نے کہی پیغمبرؑ نے بھی اللہ اکبر کہا اس وقت سے تکبیر کہنا عروسی میں رسم بن گئی۔([29])
شب عر وسی یاد خدا:
ازدواجی زندگی کا آغاز اور شب عروسی ہر مرد وزن کیلئے نہایت شیریں ہوتی ہے بہت سے افراد ان شیریں لمحات کو گناہ سے آلودہ کرلیتے ہیں اور خلاف شریعت اعمال کی نت نئی توجیہ کرتے رہتے ہیں حضرت علیؑ اور جناب فاطمہؑ کی عروسی ان لوگوں کیلئے نمونہ عمل ہے جو مشترک زندگی کو گناہ سےآلودہ ہونے سے بچانا چاہتے ہیں ۔
حضرت علیؑ نے شب عروسی جناب فاطمہؑ کو نگراں اور گریاں دیکھاتوآپ نے پوچھا کیوں غمزدہ ہیں جواب دیا کہ اپنے حال وکردار کے بارے میں سوچ رہی ہوں عمر کے اختتام اور قبر کی یاد میں ہوں آج میں پدر بزرگوار کے گھر سے آپ کے گھر آئی ہوں اس کے بعد اس جگہ سے قبر وقیامت کی طرف جاؤں گی آپ کو خدا کی قسم دیتی ہوں آؤ تاکہ نماز پڑھیں اور مل کرخدا کی عبادت کریں : تفکرت فی حالی وامری عند ذھاب عمری ونزولی فی قبری فانشدك اللہ ان قمت الیٰ الصلاة فنعبد اللہ تعالیٰ هٰذہ اللیلة۔ ([30])
اگر سعادتمندی کے خواہاں ہیں اور خود کو اسلام کا سچا پیرو مانتے ہیں تو ہمیں حضرت علیؑ اور جناب فاطمہؑ کی ازدواجی مشترک زندگی کو نمونہ قرار دیناچاہئے اور کوشش کرنا چاہئے کہ ہم تمام مراحل حیات میں سادہ زندگی گزاریں ، غلط قسم کے اسراف اور ان تمام لوازمات سے دست بردار ہوجائیں جو جوانوں کے ازدواج کی راہ میں روکاوٹ بنتی ہیں جو زندگیوں کو غلط راہ پر لگادیتی ہیں جس کے اثرات پورے سماج اور معاشرے میں بدترین نظر آتے ہیں ۔
حضرت علیؑ کا مکان:
حضرت علیؑ وفاطمہؑ مشترک زندگی کے آغاز میں اپنا ذاتی مکان نہیں رکھتے تھے ہجرت کے بعد سے حضرت علیؑ ایک انصار کے مکان میں رہتے تھے ازدواج کے بعد بھی اسی گھر میں جو رسولؐ اللہ کے مکان سے دور تھا رہتے رہے ایک روز پیغمبرؐ اسلام جناب فاطمہؑ کے گھر آئے اور کہا میں چاہتا ہوں کہ تمہارے لئے اپنےمکان سے قریب مکان مہیا کردوں جناب فاطمہؑ نے عرض کیا کہ حارثہ ابن نعمان کا مکان جو آپ کے پڑوس میں ہے زیادہ مناسب ہے آنحضرت ؐنے فرمایا کہ میں از روئے حیا حارثہ سے کچھ نہیں کہہ سکتا کیونکہ اس سے پہلے کئی مکانات ان سے مہاجرین کیلئے لے چکا ہوں جب حارثہ کو اس بات کا پتہ چلا تو وہ خود آنحضرتؐ کی خدمت میں آئے اور عرض کیا کہ یا رسول ؐاللہ یہ گھر آپ کا ہے جو کچھ بھی میرا مال آپ لے لیں وہ مجھے زیادہ پسندیدہ ہےپیغمبرؐ نے فرمایا تم صحیح کہتےہواس گفتگو کے بعد حارثہ نے اپنی رضا مندی سے اپنا مکان جو محلہ بنی نجار میں پیغمبرؐ کے پڑوس میں تھا آنحضرتؐ کو دیدیا اور پیغمبرؐ نے اس مکان کووقتی طورپر حضرت علی ؑاور جناب فاطمہؑ کو دیایہاں تک کہ ایک حجرہ پیغمبر ؐکے حجرہ کےپہلومیں ان کیلئےبنایاگیا۔ ([31])
جناب فاطمہؑ کی زندگی حضرت علیؑ کے ہمراہ نہایت سادہ تھی حضرت علیؑ اس سلسلہ میں فرماتے ہیں کہ جب میں نے جناب فاطمہؑ سے ازدواج کیا تو سوائے گوسفند کی کھال کے میرے پاس کچھ نہ تھا رات میں اس پر سوتا تھا اور دن میں اسی پر میرا اونٹ چارہ کھاتا تھا۔([32])
امام محمد باقر ؑ کا بھی ارشاد ہے : جب حضرت علیؑ وجناب فاطمہؑ کا ازدواج ہوا تو ان کے پاس ایک گوسفند کی کھال تھی جب چاہتے اس پر سوتے ان کا تکیہ بھی کھال کا تھا جس کے اندر کھجور کی چھال بھری ہوئی تھی۔([33])
تقسیم وظائف:
حضرت علیؑ اور جناب فاطمہؑ کی ازدواجی مشترک زندگی میں سب سےزیادہ اہمیت ایک دوسرے کے حقوق اور فرائض کی ادائیگی کا لحاظ و پاس تھایہ دونوں مقدس وجود سب سے بہتر جانتے تھے کہ مشترک زندگی میں ایک مخصوص مسؤلیت اور حقوق ہیں جن کا مرد و زن کو خیال رکھنا چاہئے، پیغمبر ؐاسلام ایک روز بعد ازدواج حضرت علی ؑو فاطمہؑ ان کے گھر تشریف لائے اور فرمایا :اے علیؑ ، اے فاطمہؑ ! میں نے تمہارے گھر کے کاموں میں تقسیم کار کردیا ہے گھر کے اندر کے کام حضرت فاطمہؑ اور گھر کے باہر کے کام حضرت علیؑ انجام دیں ، زہراؑ نے عرض کیا : خداکے علاوہ کوئی نہیں جانتا ہے کہ میں اس تقسیم وظائف سےکس قدر خوش ہوں ۔([34])
جناب فاطمہؑ زہراکی خانہ داری:
ایک روز رسولخدا ؐجناب امیرؑ المومنین و فاطمہؑ کے گھر تشریف لائے اور دیکھا کہ دونوں دستی چکی سے گیہوں پیس رہے ہیں ،پیغمبرؐ نے فرمایاتم میں سے کس کو مدد کی خواہش ہے ؟ علیؑ نے عرض کیا یا رسولؐ اللہ ! فاطمہؑ خستہ ہیں انہیں مدد کی ضرورت ہے، پیغمبر ؐنے فرمایا: زہراؑ! تم ہٹ جاؤ اور پیغمبرؐ زہرا ؑکی جگہ پر بیٹھ گئےاور آٹا پیسنےمیں حضرت علیؑ کی مدد کی۔([35])
امام صادقؑ تقسیم وظائف امیرؑ المومنین اور فاطمہؑ کو اس طرح بیان کرتے ہیں : ایندھن فراہم کرنا، پانی لانا، جاروب کشی حضرت علی ؑکے ذمہ تھا اور چکی چلانا، آٹا گوندھنا ،روٹی پکانا حضرت زہرا ؑکے ذمہ تھا۔([36])
زہری کا بیان ہے کہ فاطمہؑ دختر رسولخداؐ نے اتنی چکی چلائی تھی کہ ہاتھ میں چھالے پڑ گئے تھے اس وجہ سے کھال کا ایک ٹکڑا چکی کے دستہ پرباندھے ہوئے تھی، ہاتھ سے اس کو پکڑتی تھیں اور چکی چلاتی تھیں ۔([37])
امام صادقؑ کا ارشاد ہےکہ ایک روز پیغمبرؐ اسلام جناب فاطمہؑ کے گھر تشریف لائے اور انہوں نے دیکھا کہ اونٹ کے بال سے بنا ہوا کپڑا پہنے ہوئے ہیں اور اپنے ہاتھ سے چکی چلا رہی ہیں اور فرزند کو دودھ پلا رہی ہیں یہ دیکھ کر پیغمبر ؐکی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے، فرمایا؛ میری بیٹی آج دنیا کی سختیوں کو آخرت کی شیرینی حاصل کرنے کیلئے برداشت کر لو، فاطمہؑ نے عرض کی: یا رسول ؐاللہ میں خدا کی نعمتوں پر حمد کرتی ہوں اس کی کرامتوں پرشکربجالاتی ہوں ۔([38])
سلمان بیان کرتے ہیں کہ میں ایک روز جناب فاطمہؑ کے در دولت پر حاضر ہوا دیکھا کہ چکی چل رہی ہے چکی کا دستہ خون سے آلودہے، حسینؑ دوسرے کمرے میں بے قرار ہیں ، میں نے فاطمہ ؑسے کہا: اے بنت رسولخداؐ آپ کے ہاتھ چکی چلانے سے زخمی ہو گئے ہیں ،جب کہ فضہؑ موجود ہیں جناب فاطمہؑ نے فرمایا کہ گھر کا کام ایک روز میرے ذمہ ہے اور ایک روز فضہؑ کے ذمہ۔ آج میری باری ہے، میں نے کہا کہ آپ کا آزاد شدہ غلام ہوں آپ اجازت دیں تو میں چکی چلاؤں یا یہ کہ حسینؑ کو سکون دوں ، جناب فاطمہؑ نےفرمایا میں حسینؑ کو سکون دینے کیلئے زیادہ مناسب ہوں ،تم چکی چلاؤ،سلمان کہتے ہیں کہ جب میں نے تھوڑا جو پیسا تو نماز کیلئے اذان و اقامت کی آواز بلند ہو گئی، میں نماز کیلئے مسجد چلا گیا، نماز ختم ہونے کے بعد واقعہ امیرؑ المومنین سے بیان کیا ،آپ محزون و مغموم مسجد سے نکلے اور چند لمحہ کے بعد ہنستے ہوئے واپس ہوئے، پیغمبر ؐنے انکی ہنسی کا سبب معلوم کیا ، انہوں نے کہا میں جناب فاطمہؑ کے پاس گیا تھا تو میں نے دیکھا کہ وہ سو رہی ہیں ، حسینؑ انکے سینہ پر آرام کر رہے ہیں ، چکی خود بخود چل رہی ہے، پیغمبر ؐنے مسکراتے ہوئے فرمایا : علیؑ! کیا تم نہیں جانتے کہ خداوندعالم کے فرشتے زمین میں ہیں جوتاقیامت آلؑ محمدکی خدمت کرتے ہیں ۔ ([39])
جب حضرت علیؑ جہاد کیلئے چلے جاتے تھے تو تمام کاموں کی ذمہ داری جناب فاطمہؑ کے کاندھے پر ہوتی تھی، بنت پیغمبرؐ تکلیف برداشت کرتی تھیں کہ ان کے شریک حیات علیؑ ؑنے بنی سعد کے ایک شخص سے فرمایا :میرا واقعہ چھوڑومیں تم سے جناب فاطمہؑ کے بارے میں بیان کرتا ہوں ، انہوں نے اپنے کاندھے پر اتنی مشک آب اٹھائی ہے کہ ان کے بازو پراس کا اثر باقی رہ گیا ہےاور اتنی چکی چلائی ہے کہ ہاتھوں میں گھٹا پڑ گیا ہےاور اتنی بار آگ روشن کی ہے کہ آگ کی گرمی سے ان کےلباس کا رنگ اڑ گیا ہے۔([40])
امیر المومنین حضرت علیؑ اور جناب فاطمہؑ زہرا کی زندگی خاص طور پر ان افراد کیلئے جو جھوٹی شخصیت میں گرفتار ہیں اور کام کرنے کو کسر شان سمجھتے ہیں بہت عظیم درس ہے جس کے ذریعہ اپنی زندگی کو بہتر بنا سکتاہے۔
جناب فاطمہؑ زہراکا ایثار:
حضرت علیؑ اور جناب فاطمہؑ زہراکی ازدواجی مشترکہ حیات نو میں طاقت فرسافشار سایہ فگن تھا، ان کی زندگی تنگدستی میں بسر ہو رہی تھی شب و روز میں سیر ہو کر کھانے کیلئے غذا موجود نہیں رہتی تھی جناب فاطمہؑ زہرا نے تمام مشکلوں کوتحت الشعاع میں ڈال دیا سخت ترین حالات میں جناب فاطمہؑ زہرا نے اپنے شوہرحضرت علیؑ سے کبھی ایسا کوئی سوال نہیں کیا جوان کیلئے زحمت میں گرفتار ہونے کا سبب بن جائے۔
ایک روز صبح کے وقت حضرت علیؑ نے فرمایا:فاطمہؑ !کیا کچھ کھانا موجود ہے کہ میں اپنی بھوک کو دور کر سکوں جناب فاطمہؑ زہرا نے کہا : نہیں !اس خدا کی قسم جس نے میرے پدر کو نبیؑ اور آپ کوامام بنایا ہے، دوروز سے گھر میں کفایت بھر غذانہیں ہے کہ میں اسے آپ کو اور اپنے بچوں حسنؑ و حسینؑ کو دوں ،میں نے خود بھی غذانہیں کھائی ہے، حضرت علیؑ نے نہایت افسوس سے فرمایا: فاطمہؑ!آپ نے مجھے کیوں نہیں بتایا میں غذا کا انتظام کرتا ، فاطمہؑ نے کہا : یَا أَبَاالحَسَنِ اِنِّی لَأَستَحی مِن اِلٰہِی أَن أُکَلّف نَفسَكَ مَالَا تقدر عَلَیہِ۔اے ابو الحسنؑ مجھے شرم آئی کہ میں آپ کو اس چیز کی تکلیف دوں جس کی آپ قدرت نہیں رکھتے ہیں ۔([41])
شوہر کی نظر میں احترام:
سقیفہ بنی ساعدہ کے تلخ و سخت ترین دلگدازواقعہ کے بعد اور اہلبیتؑ پر ظلم و ستم کے بعد جو کچھ حالات جناب فاطمہؑ زہرا پر گزرے ناقابل بیان ہیں ، سقیفہ کے سردار لوگوں کی عمومی رائے کو حاصل کرنے کی فکر میں رہے تاکہ کسی طرح حضرت زہراؑکی دلجوئی کریں ،انہوں نے بارہا حضرت معصومہ ؑسے ملاقات کی خواہش کی لیکن آپ نے ملاقات کی اجازت نہیں دی۔
ابوبکر و عمر امیر المومنینؑ کے سامنے آئے اور ان کے توسط سے بنت پیغمبرؐ سے ملاقات کی اجازت طلب کی حضرت علیؑ نے جناب فاطمہؑ زہرا سے کہا کہ ابوبکر و عمر پس در کھڑے ہو کر ملاقات کی اجازت چاہ رہے ہیں ،حضرت زہرؑانے قبول نہیں کیا ، حضرت علیؑ نے فرمایا کہ میں نے ان سے وعدہ کر لیا ہے، دختر رسولؐ نے فرمایا: اَلبَیتُ بَیتُكَ،وَالحُرَّةُزَوجَتُكَ فَافعَل مَاتَشَاء گھر آپ کا ہے ،میں آپ کی زوجہ ہوں آپ جو چاہیں کریں ۔([42])
جناب فاطمہؑ نے طے کر لیا تھا کہ کسی طرح بھی غاصبین ولایت کو ملاقات کی اجازت نہ دیں گی انہوں نے اتنے مصائب ان افراد کی جانب سے اٹھائے تھے کہ جس کے دیکھنے کی طاقت نہ تھی لیکن جب انہوں نے یہ دیکھ لیا کہ حضرت علیؑ نے ان لوگوں سے وعدہ کر لیا ہے تو حضرت علیؑ کی پیروی کرتےہوئے ملاقات کی اجازت دی،امیر اؑلمومنین نے ابوبکر و عمر کو گھر میں بلایا۔
ابن عباسؑ کا بیان ہے کہ جب وہ دونوں حضرات گھر میں داخل ہونا چاہتے تھے تو امامؑ نے جناب فاطمہؑ سے فرمایااپنا دوپٹہ چہرہ پر ڈال لو،، انہوں نے ایسا ہی کیا ، یہ دونوں گھر میں آئے اور عرض کیا : دختر رسولؐ آپ ہم سے راضی ہو جائیےتاکہ خدا آپ سے راضی ہو، جناب فاطمہؑ نے فرمایا کہ کونسا جذبہ تمہارے اندر اس کام کیلئے پیدا ہوا ہے،انہوں نے کہا کہ ہم نے آپ کے ساتھ برا سلوک کیا ، معافی اور بخشش کی امید لے کر آئے ہیں ، جناب فاطمہ ؑنے فرمایا : اگر تم لوگ سچ کہہ رہے ہو تو میرے سوالوں کا جواب دو، اگر جواب صحیح دو گے تو میں سمجھوں گی کہ تم صحیح کہہ رہے ہو اور تمہارے آنے کی نیت ٹھیک ہے۔
انہوں نے کہاآپ پوچھئے،جناب فاطمہؑ زہرا نے پوچھا:تمہیں خدائے یکتا کی قسم ہے کیا تم نےمیرے والدؐبزرگوارسےسناہے: فَاطِمَةُ بِضعَةٌ مِنِّی یُؤذِینِی مَاآذَاهَا وَ یَغضِبنِی مَا أَغضَبَهَا۔ فاطمہؑ میرا ٹکڑا ہے جس نے اسے اذیت دی، اس نے مجھے ستایا، جس نے اسے خشمگین کیا، اس نے مجھے ناراض کیا۔
انہوں نے کہا : ہاں ! ہم نے سنا ہے ،جناب فاطمہؑ زہرا نے اپنا ہاتھ آسمان کی جانب بلند کیا اور کہا : خدا یا ! ان دونوں نے مجھے ستایا ہے ، پھر ان ددنوں سے کہا کہ میں کبھی تم سے راضی نہ ہوں گی۔
ابو بکر شدت سے رونے لگے اور کہتے تھے ، کاش میری ماں نے مجھے جنم نہ دیا ہوتا ، عمر نے طعنہ دیتے ہوئے کہا: مجھے اس شخص پر تعجب ہے کیسے تم کو لوگوں نے حکومت کیلئے منتخب کیا ہے کہ تم ایک عورت کے غضب سے نالہ کر رہے ہو۔([43])
پیغمبر ؐ کا فرمان:
ایک روز پیغمبرؐ اسلام جناب فاطمہؑ زہرا کے گھر تشریف لائے تو آپ نے دیکھا کہ آپ جو پیسنے میں مشغول ہیں اس وقت آپ کے شکم مبارک میں بچہ تھا، گھر کے کاموں میں آپ کو زحمت ہوتی تھی ،جناب فاطمہؑ زہرا نے ایک خدمت گذار کا باپ سے تقاضا کیا ۔
پیغمبر ؐنے جناب فاطمہ ؑسے فرمایا: جو عورت اپنے ہاتھ سے آٹا پیسے تو خدا وند عالم گندم کے ہر دانہ کے برابر نیکی عطاکرتا ہے اور اس کے گناہ کومعاف کرتا ہے۔
قسم ہے اس خدا کی جس نے مجھے بشارت دینے کیلئے مبعوث کیا ، اگر تم دنیا سے کوچ کر جاؤ اور تمہارے شوہرتم سے راضی نہ ہو ں تو میں تمہارے جنازہ پر نماز جنازہ نہیں پڑھوں گا۔
خوش نصیب ہے وہ عورت جس کا شوہر اس سے راضی ہو ، چاہے وہ ایک لحظہ کیلئے ہو۔
جو عورت شوہر کی فرماں برداری میں مرجاتی ہے اس کیلئے جنت واجب ہے ، جو عورت اپنے شوہر کیلئے اُف کہتی ہے خداوندعالم اوراس کےفرشتے اس پر لعنت کرتے ہیں ، جو عورت اپنا لباس پہن کر بغیر اپنے شوہر کی اجازت کے گھر سے باہر جاتی ہے جب تک وہ لوٹ کر نہیں آتی ہے ہر خشک وتر اس پر لعنت کرتے ہیں ۔([44])
فاطمہؑ زہراشوہر کی رضامندی کیلئے ہر زحمت برداشت کرتی تھیں یہاں تک زندگی کے آخری لمحات میں اپنے شوہر سے کہا؛ اے ابن عمؑ ! آپ نے مجھ کو دروغ گو اور خیانت کار نہیں پایا اور آپ کو معلوم ہے کہ پوری زندگی میں کوئی نافرمانی نہیں کی ہے ، تو مجھ سے راضی ہیں ۔
حضرت علیؑ نے فرمایا: خدا کی پناہ ! آپ عظیم خاتون ، واقف کار، پرہیزگار خوف خدا والی ہیں ،میں آپ کو اس سے کہیں زیادہ برتر سمجھتا ہوں کہ آپ کو سرزنش کروں یا نافرمانی سے ناراض ہوں ۔([45])
بچپن اور عبادت:
حضرت علیؑ نے فرمایا: کانت فاطمة لا تدع احدامن اهلها ینام تلك اللیلة و قد ادبهم لقلة الطعام و تتاهب لها من النهار و تقول ،محروم من حرم خیرها.
جناب فاطمہؑ زہرا کا طریقہ یہ تھا کہ وہ شب قدر میں اہل خانہ میں کسی کو سوتا ہوا نہیں رہنے دیتی تھیں ، انہیں کم کھانا دیتی تھیں اور ایک روز پہلےشب قدر میں جاگنے کیلئے آمادہ کرتی تھیں اور فرماتی تھیں وہ شخص محروم ہے جو اس شب کی برکتوں سے محروم رہ جائے۔ ([46])
تربیتی الفاظ کا انتخاب :
ماں باپ کی ابتدائی تعلیمات اولاد کی فکرو شخصیت سازی میں اہم نقوش رکھتی ہیں، اس لئے والدین کو بیحد غور و فکر کے ذریعہ بچوں کی تعلیم کی جانب توجہ کرنا چاہئے تاکہ اولاد ان تعلیمات سے معارف الٰہیہ کو حاصل کر سکے۔
اس سلسلہ میں جناب فاطمہؑ زہرا نےاپنے خورد سال فرزند امام حسنؑ کو آرام و سکون دینے کیلئے جو طریقہ اختیار کیا ہے وہ ماؤں کیلئے نمونہ عمل ہے ، روایات میں اس لوری کا تذکرہ ہے، فاطمہؑ زہرابچہ کو اپنی آغوش میں لے کر اس طرح کہتی تھیں ۔
اِشبه أَبَاكَ یَــا حَـــسَنُ وَ خَلَّعَ عَنِ الحَقِّ الرّسَنَ
وَ اعـبُـد اِلٰهاً ذُو الـمِنَنِ وَ لَا تُــوَالِ ذَا الاِحَـنِ([47])
شعر کے ہر مصرعہ کی علاحدہ وضاحت کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے:
۱۔ اِشبه أَبَاكَ یَا حَسَنُ : اے حسنؑ اپنے پدر بزرگوار حضرت علیؑ کی طرح ہو جاؤ۔
اس مصرع میں حضرت زہراؑ اپنے فرزندکو پہچنواتی ہیں کہ حضرت علیؑ بہترین نمونہ زندگی انسانیت کیلئے تھے، گویا زہرا ؑاپنے فرزند سے کہہ رہی تھیں کہ ہر انسان کو زندگی میں نمونہ کی ضرورت ہوتی ہے ،تمہارے والد بہترین نمونہ ہیں کیونکہ تمام انسانی کمالات و فضائل کا مظہر اور اوصاف انسانیت کے کامل ترین مصداق ہیں ۔
۲۔ وَ خَلَّعَ عَنِ الحَقِّ الرَّسَنَ : وہ ریسمان ستم جو ظالموں نے حق کی گردن میں ڈالدی ہے، اسے نکال دو اور حق کو خفیف ہونے اور جان دینے سے چھٹکارا دیدو۔
اس مصرع میں جناب فاطمہ ؑنے انسان کی اجتماعی ذمہ داری کی جانب اشارہ کیا ہے، فرزند کو حق طلبی اور دوسروں کے حقوق کے احیاء کی جانب دعوت دی اور ظالموں سے مقابلہ کیلئےتشویق کی ہے ، جیسےکہ حضرت علیؑ نے اپنے فرزند امام حسنؑ سے وصیت میں فرمایا کسی پر ظلم نہ ہو جبکہ تم ظلم کوروکنے پر قدرت رکھتے ہو۔([48])
۳۔ وَ اعبُد اِلٰہاً ذُو المِنَنِ : فرزند نعمت و احسان والے خدا کی عبادت کرو۔
اس مصرع میں دو بنیادی نکتوں کی جانب جناب فاطمہؑ زہرا نے اشارہ فرمایا ہے۔
٭ توحید باری تعالیٰ! یعنی خداوندعالم کی بندگی کرنا اور یہ یقین رکھنا کہ بس وہی عبادت کے لائق ہے، اس کے علاوہ کسی میں عبادت کی اہلیت نہیں ہے۔ جو عبادت خدا ہم بندوں سے چاہتا ہے۔
ألم اعہد الیکم یا بنی آدم أن لا تعبدوا الشیطان انہ لکم عدو مبین و أن اعبدونی ہٰذا صراط مستقیم
اے فرزند آدم ! کیا میں نے تم سے یہ عہد نہیں لیا کہ شیطان کی عبادت نہ کرنا وہ تمہارا کھلا ہوا دشمن ہے ، میری عبادت کرو یہ صراط مستقیم ہے۔
٭٭ منعم خداوندعالم کے اوصاف میں سے ہے ، آپ نے اپنے فرزند سے فرمایا : خدا کی عبادت کرو جو نعمت دینے والا ، احسان کرنے والا ہے اور ولی نعمت کے شکر گزار ہو جاؤ۔
۴۔ وَ لَا تُوَالِ ذَا الاِحَنِ : اے فرزند ، بد خواہ اور کینہ توز لوگوں سے دوستی نہ کرو۔
اس مصرع میں ایک دوسرے تربیتی نکتہ کی جانب اشارہ کیاہےکہ کس قسم کےافراد کی دوستی سے پرہیز کرنا چاہئے۔
برا دوست انسان کو بے راہ کردیتا ہے ، قرآن کریم نے ایسے دوستوں کو سبب ندامت بتایا ہے۔ یَا وَیلَتَا لَیتَنِی لَم أَتَّخِذ فُلَاناً خَلِیلاً .کاش میں نے فلاں شخص کو دوست نہ بنایا ہوتا۔
فرزندوں کی اجتماعی تربیت:
امام حسنؑ بیان فرماتے ہیں : میں نے مادر گرامی کو شب جمعہ محراب عبادت میں کھڑے ہوئے دیکھا وہ تمام رات رکوع و سجود میں مشغول رہیں اور میں سن رہا تھا کہ مومن مرد و عورت کیلئےزیادہ دعا کرتی تھیں خود اپنے لئے دعا نہیں کرتی تھیں ، میں نے کہا : مادر گرامی! کیوں آپ اس طرح اپنے لئے دعا نہیں کرتی ہیں جس طرح آپ دوسروں کیلئے دعا کرتی ہیں (دوسروں کیلئے نام بنام دعا کرتی ہیں اپنے لئے نہیں کرتیں )جناب فاطمہؑ زہرانے فرمایا:پہلے ہمسایہ پھر گھر والے۔([49])
امام موسیٰ بن جعفرؑ کا ارشاد گرامی ہے:جب جناب فاطمہؑ دعا کرتی تھیں تو مومن مردو عورت کیلئے دعا کرتی تھیں اپنے لئے دعا نہیں کرتی تھیں ، ان سے پوچھا گیا کہ ایسا کیوں ہے؟ فرمایا: پہلے پڑوسی پھر گھر۔ ([50])
حجاب (پردہ) اور اس کی عظمت:
معاشرہ کی حفاظت ، ترقی اور عمدگی کا ایک مؤثر ترین ذریعہ عفت کا تحفظ کرنا ہے اسلامی تعلیمات کے زیر سایہ بے عفتی اور کھلی آزادی معاشرہ کے ارکان اور خانوادہ کوتشتّت اور افتراق میں گرفتار کردیتی ہے ، اسی وجہ سے خداوند عالم نے عورتوں کو پردہ کا حکم دیا ہے: اے پیغمبر ایماندار عورتوں سے کہہ دو اپنی آنکھوں کو ہوس آلود نگاہوں سے بچائیں ، اپنے دامن کی حفاظت کریں ، اپنی زینت کو نمایاں مقدار کے علاوہ ظاہر نہ کریں ، اپنے ڈوپٹہ کے کناروں کو سینہ پر ڈال لیں ۔([51])
امیر المومنین حضرت علیؑ کا ارشاد ہے: ایک روز جناب فاطمہؑ رسولؐ اللہ کے حضور میں بیٹھی تھیں کہ ایک نا بیناشخص نے حاضرہونے کی اجازت طلب کی جناب فاطمہ ؑاس کمرہ سے نکل کر گھر کے اندر چلی گئیں ، مہمان کے رخصت ہونے کے بعد پیغمبر ؐنے جناب فاطمہؑ سے پوچھا : اس نابینا شخص سے خود کو کیوں چھپالیا جبکہ وہ تم کو دیکھ نہیں سکتا تھا ، جناب فاطمہؑ نے کہا کہ وہ مجھے نہیں دیکھتا لیکن میں اسے دیکھ سکتی تھی علاوہ اس کے اگرچہ وہ نابینا تھالیکن میری خوشبو سونگھ سکتا تھا، پیغمبرؐ نے فرمایا: میں گواہی دیتا ہوں کہ تم میرا حصہ ہو۔([52])
انفاق میں اخلاص:
دختر پیغمبرؐ اسلام حجاب کے بارے میں اس درجہ حساس تھیں کہ وہ اپنے انتقال کے بعد بھی اس کیلئے راضی نہیں تھیں کہ کوئی شخص ان کے جسم کے حجم کودیکھے چنانچہ اسماء بنت عمیس کا بیان ہے کہ جناب فاطمہؑ زہرا نے اپنی حیات کے آخری دنوں میں مجھ سے فرمایا: میرے لئے یہ بات ناپسندیدہ ہے کہ عورتوں کے جنازہ کی تشییع کے موقع پر عورت کے بدن کا حجم مردوں کیلئے ظاہر ہو ، اسماء کہتی ہیں کہ میں نے ان سے کہا کہ میں نے سرزمین حبش میں دیکھا ہے کہ لوگ اپنی میتوں کیلئے تابوت بناتے ہیں ،جس سے جسم کا حجم چھپ جاتا ہے ۔اگر آپ حکم دیں تو اس کا نمونہ میں تیار کروں ، اسماء نے تابوت بنایا ، جب جناب فاطمہؑ زہرانے اسے دیکھا تو خوش ہوئیں اور مسکرائیں ۔ اسماء کہتی ہیں جناب پیغمبر ؐاسلام کے وصال کے بعد پہلی بار جناب فاطمہؑ زہرامسکرائی تھیں ، آپ نے اسماء سے فرمایا اس طرح کا تابوت میرے لئے بناؤ اور میرا جسم اسی میں چھپا دینا ، خداوند عالم آتش جہنم سے نجات عطا کرے۔([53])
حجاب عورت کیلئے بہترین چیز ہے حضرت علی ؑنے بیان کیا ہے کہ میں پیغمبر ؐکی خدمت میں تھا آپ نےفرمایا کہ تم لوگ یہ بتاؤ کہ عورت کیلئے بہترین چیز کیا ہے؟ سب نے الگ الگ جواب دیئے میں فاطمہؑ زہراکے پاس آیا اور کہا کہ پیغمبرؐ نے مجھ سے اس بارے میں سوال کیا، کوئی صحیح جواب نہیں دے سکا ہے، جناب فاطمہؑ زہرا نے کہا کہ میں اس کا جواب جانتی ہوں ، عورتوں کیلئے بہترین چیز یہ ہے کہ مرد اسے نہ دیکھ سکیں اور عورت مردوں کو نہ دیکھ سکے ، میں نے واپس آ کر پیغمبر ؐسے عرض کیا کہ اے رسولخداؐ ! مجھ سے آپ نے سوال کیا تھا کہ عورتوں کیلئے بہترین چیز کیاہے؟ عورتوں کیلئےبہترین چیزیہ ہے کہ وہ مردوں کو نہ دیکھیں اور مردعورتوں کو نہ دیکھ سکیں ، پیغمبر ؑنے فرمایا یہ تم کو کس نے بتایا ہے؟ میں نے کہا کہ فاطمہ ؑزہرا نے ،پیغمبر ؐ نے فرمایا کہ فاطمہؑ میرا حصہ ہے۔([54])
اس بیان فاطمہؑ زہراکا مطلب یہ نہیں ہے کہ عورت گھرکے گوشہ میں قید ہو کر بیٹھ جائےبلکہ وہ یہ چاہتی ہیں کہ مرد و عورت کا شیطانی میل جول نہ ہونےپائے، عورتوں کو معاشرہ میں کوشش کرتے رہنا چاہئےکہ اپنی شخصیت اور کرامت کی حفاظت کریں ، نامحرموں سے غیر ضروری اختلاط سےپرہیزکریں ۔
احکام کی تعلیم:
دختر رسولِ خدا ؐجناب فاطمہؑ زہرا وہ پہلی معلمہ ہیں جنہوں نے مدینہ کی مسلمان عورتوں کو تعلیم دی مدینہ کی خواتین احکام،اخلاق وعقائد اسلامی معلوم کرنے کیلئے آپ کے پاس آتی تھیں ، ایک روز مدینہ کی ایک خاتون نے آکر کہا کہ میری بوڑھی ماں نے مجھے بھیجا تا کہ نماز کے سلسلہ میں آپ سے معلوم کروں ،آپ نے اس کے دس سوالوں کے جوابات دئے، اس خاتون نے کہا کہ اے بنت رسولؐ میں اس سے زیادہ آپ کوزحمت نہیں دوں گی، جناب فاطمہؑ زہرا نے فرمایا:پھر میرے پاس سوال معلوم کرنے کیلئے آنا ،تم جتنا بھی سوال کروگی مجھے کوئی تکلیف نہیں ہوگی ،اگر کسی دن کسی کواجیر بنائیں کہ بھاری بوجھ کو چھت پر لے جائے اس کیلئے سو ہزار طلائی دینار مزدوری ملے گی تو کیا اس کیلئے یہ دشوار گزار امر ہوگا؟ اس عورت نےکہا: نہیں !جناب فاطمہؑ زہرا نے فرمایا کہ جتنے سوالات کے جوابات دیتی ہوں تو زمین و عرش کے درمیان فاصلہ سے بھی زیادہ موتی مونگے بدلہ میں ملتےہیں ۔([55])
عبادت جناب فاطمہؑ زہرا:
پیغمبرؐ اسلام کی بیٹی کی عبادت خشک اور بے روح نہیں تھی بلکہ اس میں مکمل خضوع و خشوع پایا جاتا ہے جسے انہوں نے اپنے پدر بزرگوار کی محراب عبادت میں دیکھا تھا آپ نے پدر بزرگوار سے سیکھا تھا کہ کس طرح کی عبادت انسان کی سعادتمندی اور روحانی کمال کا سبب ہوتی ہےوہ مکتب وحی الٰہی کی تربیت یافتہ تھیں انہیں معلوم تھا کہ وہ عبادت جو سبب نجات ہے وہ خضوع و خشوع کے ساتھ ہوتی ہے۔
ان کی عبادت ، تہجد اور شب زندہ داری کے بارے میں حسن بصری کہتے ہیں کہ امت میں عبادت کے لحاظ سے جناب فاطمہؑ زہرا سے برتر کوئی نہیں تھا وہ اس قدر زیادہ نماز میں قیام کرتی تھیں کہ ان کے قدموں پر ورم آگیا تھا۔([56])
ابن عباس کا بیان ہے کہ پیغمبرؐ نے فرمایا کہ میری بیٹی حوراء انسیہ ہے ، جب محراب عبادت میں اپنے پروردگار کی بارگاہ میں قیام کرتی تھیں تو ان کا نور آسمان کی جانب جاتا تھاجیسے ستاروں کا نور زمین پر چمکتا ہے ، خدا وندعالم نے فرشتوں سے فرمایا: فرشتو! دیکھومیری کنیز فاطمہؑ ، کنیزوں کی سردار ہیں وہ جب میرے سامنے کھڑی ہوتی ہیں تو ان کا دل خوف سے لرزتا ہے دل عبادت میں لگا رہتا تھا گواہ رہو کہ اس کے شیعوں کو آتش جہنم سے میں نےنجات دی ہے۔([57])
انفاق میں اخلاص:
امام حسن ؑو امام حسینؑ بیمار ہوئے رسولخداؐ ان کی عیادت کیلئے جناب فاطمہؑ زہرا کے گھرتشریف لائے اور حضرت علیؑ و زہراؑ سے فرمایا کہ ان دونوں بچوں کی شفا کیلئےنذر مان لو تو مناسب ہےحضرت علیؑ و فاطمہؑ نے نذر مان لی کہ جب بچے صحت یاب ہوں گے تو تین دن سب روزے رکھیں گے ،خدا نے ان کی نذر کو قبول کیا اور امام صحت یاب ہوگئے، انہوں نے تین دن روزے رکھے ، روزہ داروں میں امام حسنؑ و امام حسینؑ ، جناب فضہؑ تھے ۔ پہلے دن افطار کے وقت ایک مسکین نے دق الباب کیا اور مدد چاہی حضرت علیؑ نےاپنے حصہ کی روٹی دیدی اس کے بعد سب نے اپنے اپنے حصہ کی روٹی اسے دیدی اور پانی سے افطار کر لیا، دوسرے روز وقت افطار ایک یتیم نے سوال کیا سب نے اپنی روٹی دیدی اور پانی سے افطار کر لیا،تیسرے روز وقت افطار اسیر نے سوال کیا سب نے اپنی روٹیاں دیدیں اور پانی سے افطار کر لیا۔([58])
انفاق کرنے میں خلوص عمل کی بنا پر آیات الٰہی (سورہ دہر) کا نزول ہوا جس میں ارشاد ہوا:
وہ لوگ اپنی نذر کو پوری کرتے ہیں اور اس روز قیامت سے ڈرتے ہیں جس کا شر پھیلا ہوا ہے اور اپنی غذا کو محبت خدا کے باوصف مسکین ، یتیم اور اسیر کو دیدیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم تمہیں خدا کی خاطر کھلا رہے ہیں اسکا کوئی بدلہ نہیں چاہتےہیں ۔([59])
جہاد جناب فاطمہؑ زہرا:
شیخ مفیدؒ بیان کرتے ہیں کہ جنگ احد تمام تر حالات کے ساتھ ختم ہوچکی تھی، جناب فاطمہؑزہرااپنے پدر بزرگوار کے استقبال کیلئے گئیں حضرت علی ؑاس حال میں ان کے پاس آئے کہ ان کا ہاتھ بازو تک مشرکین کے خون سے بھرا ہوا تھا، ذوالفقار حضرت زہرؑا کودی اور کہاکہ یہ تلوارلو اور جس نے آج میری مدد کی دشمنوں کو شکست دی اور مقتولین کے خون کو اس سے صاف کردو،پیغمبرؐ نے فرمایا:ہاں ! فاطمہ ؑاسے لے لو کہ تمہارے شوہر نے بخوبی ذمہ داری کو پورا کیا اور خداوند عالم نے ان کی تلوار سے قریش کے سرداروں کو نیست و نابود کر دیا۔([60])
پیغمبر کے صحابی سہلؔ بن سعد کہتے ہیں کہ جنگ احد میں پیغمبرؐ اسلام کے جسم مبارک پر بھی زخم لگے تھےرخسارمبارک زخمی ہوا، دندان مبارک اور ٹوپی بھی مجروح ہوئی، جناب فاطمہؑ زہراآنحضرتؐ کے سر اور چہرہ سے خون صاف کررہی تھیں اور حضرت علیؑ پانی ڈال رہے تھے لیکن جب یہ دیکھ لیا کہ زیادہ پانی ڈالنا زخم کے زیادہ ہونے کا سبب ہوگا تو چٹائی کا ایک ٹکڑا جلایااور اسے زخم پر لگادیا یہاں تک کہ خون بند ہوا گیا۔([61])
جنگ خندق میں جب مدینہ دشمن کے محاصرہ میں تھا تو ہر شخص اپنی قدرت و طاقت بھر شہر کا دفاع کر رہا تھا، سلمان فارسی کی تجویز پرمرد خندق کھودنے میں مشغول تھے اور عورتیں میدان جنگ کے پیچھے مجاہدین کیلئے آب و غذا مہیا کر رہی تھیں ، دختر پیغمبر اسلام روٹی پکانے کے ساتھ مجاہدین کی دیگر ضرورتوں کو مہیا کر رہی تھیں ۔
انس کا بیان ہے کہ جناب فاطمہؑ زہرانے ایک دن کئی روٹیاں پکائیں انہیں لے کر میدان جنگ کے اگلے حصہ پر لے گئیں اور پدر بزرگوار سے کہا: قُرصٌ خَبَزتُهُ لَم تَطِب نَفسِی حَتّیٰ آتَیتُكَ بِهٰذِہِ الکِسرَةِ ۔
ایک روٹی میں نے پکائی تھی لیکن دل نے پسند نہیں کیا کہ اسے میں آپ تک پہونچانے سےپہلے کھا لوں ۔
پیغمبرؐ نے فرمایا تین دن کے بعد یہ پہلی غذا ہے جو تمہارے باپ دہن میں ڈال رہے ہیں ، دینا کے بھوکے آخرت میں سیر ہوں گے لوگوں میں سب سے زیادہ مبغوض خدا کے نزدیک وہ شخص ہے جس کا معدہ کثرت خورانی سے پر ہو کوئی بندہ اس غذا کو جس کے کھانے کا میلان رکھتا ہو ترک نہیں کرتاہے،مگریہ کہ بہشت میں اسے اس کیلئے ایک درجہ عطا ہوتا ہے۔([62])
نقل حدیث:
شیخ طبرسی اور اربلی: سوید بن غفلہ اور عبد اللہ بن حسن سے نقل کرتے ہیں کہ جب فاطمہؑ زہرا بستر بیماری پر تھیں تو انصار و مہاجرین کی کچھ عورتیں عیادت کیلئے آئیں اور کہا بنت رسول ؐآپ کیسی ہیں ؟
جناب فاطمہؑ زہرا نے حمد باری تعالی اور پیغمبرؐپر درود کے بعد ان کے مردوں کی بیوفائی کی شکایت اور معاشرہ کی آئندہ حالت کو اس طرح بیان کیا:اپنی جان کی قسم کھا کر کہتی ہوں ، انہوں نے فتنہ کا بیج بودیاہے اب انتظار کریں کہ اس کا نتیجہ سامنے آئے اس کے بعد اونٹنی کے پستان سے دودھ کے بجائے خون دوہیں گے اور قتل کرنے والازہر امورمیں گھس جائے گا ، یہ وہ مقام ہے کہ باطل کے راستہ پر چلنے والے نقصان کرنے والے ہیں اور آئندہ کے مسلمانوں کی جان لیں گے کہ صدر اسلام کے مسلمانوں کے اعمال کا انجام کیا ہوا ہے، اس کے بعد اپنے دلوں کو آشوب کے ظاہر ہونے سے مطمئن کر لو، تمہارے لئے بشارت ہوکھینچی ہوئی تلواروں ، حملوں ، پے در پے ہجوم مسلمانوں کے اجتماعی امور کی پریشان حالی ، ظالموں کے ستم کی ،وہ لوگ تمہارے حقوق کو کم جمع کریں گے اور تمہارے جمع کئے ہوئے کو آہنی تلواروں سے ختم کریں گے، تمہارے لئے حسرت و اندوہ ہے ،تمہارے مقاصد کہاں انجام پائیں گے، افسوس کہ حقیقت بین نگاہ نہیں رکھتے ہو ہمارے پاس بھی طاقت نہیں ہے اور میری قوت نہیں ہے کہ جس کام سے تمہیں کراہت ہے اسے میں صحیح کر سکوں ۔([63])
مقام امامؑ:
محمودبن لبید کا بیان ہے پیغمبرؐ اسلام کی رحلت کے بعد جناب فاطمہ زؑہرامقام احد میں قبر جناب حمزہؑ کے پاس گئیں اور میں نے انہیں عزادار اور گریہ کناں دیکھا میں نے موقع غنیمت سمجھ کر ان سے پوچھا کہ کیا حضرت علیؑ کی امامت پرپیغمبرؐ کی حدیث سےدلیل پیش کی جا سکتی ہےحضرت زہراؑنے جواب میں فرمایا: تعجب ہے کیا تم لوگوں نے روز غدیر خم کو بھلا دیا ہے، میں نے سناہے کہ پیغمبرؐ اسلام نے فرمایا کہ علیؑ بہترین شخص ہیں جنہیں میں تمہارے درمیان اپنا جانشین بناتا ہوں : حضرت علیؑ میرے بعد امام و خلیفہ ہیں اس طرح ان کے دونوں فرزند حسنؑ و حسینؑ اور نو امام اولاد حسینؑ میں سے امام ہیں ، اگر تم ان کی اطاعت کرو گے تو وہ تمہاری ہدایت کریں گےاوراگر ان کی مخالفت کرو گے تو روز قیامت تک تفرقہ اور اختلاف کی بلا تمہارے درمیان حاکم رہے گی، میں نے پوچھا: معظمہ ! ایسے میں حضرت علیؑ نےکیوں خاموشی اختیار کی اور اپنا حق نہیں لیا؟ جناب فاطمہؑ زہرانے جواب دیا : رسولخدا ؐنے فرمایا ہے کہ امام کی مثال کعبہ کی ہےلوگوں کو اس کے گرد طواف کرنا چاہئے، کعبہ لوگوں کے گرد چکر نہیں لگاتا ہے۔([64])
اہمیت نماز:
جناب فاطمہؑ زہرامعصومہ ہونے کے ساتھ صاحب روایت ہیں یعنی ان کی حدیث پیروی کرنے والوں کے عمل کے تعلق سے حجت ہے انہوں نے اپنے پدر بزرگوار کی باتوں کی بھی روایت کی ہے، افسوس یہ ہے کہ صرف تھوڑی سی حدیثیں جناب معصومہؑ کی ہمیں مل سکی ہیں انہیں احادیث میں ایک یہ حدیث ہے جسے سید بن طاؤسؒ نے فلاح السائل میں نقل کیا ہے۔
جناب فاطمہؑ زہرانے پدر بزرگوار سے سوال کیا کہ مردوزن میں سے جو بھی نماز کی اہمیت نہ سمجھے اور اسے ہلکا قرار دے اس کی سزا کیا ہے؟ آنحضرت نے جواب میں فرمایا:
اےفاطمہؑ! جو بھی نماز کو سبک سمجھے خداوندعالم اسے ۱۵؍قسم کی بلاؤں میں مبتلا کرتا ہے۔ ان میں سے ۶؍دنیا میں ، ۳؍وقت احتضار ، ۳؍قبر میں ، ۳ ؍روزقیامت، جب وہ قبر سے اٹھایا جائے گا۔
٭ وہ ۶؍بلائیں جو دنیا میں ہوں گی:
۱۔ خدا وند عالم ا س کی عمر کی برکت چھین لے گا۔
۲۔ روزی کی برکت لے لیگا۔
۳۔ نیک لوگوں کے چہرہ کو اس سے لےلیگا۔
۴۔ کسی عمل خیر کا اجر نہیں ملے گا۔
۵۔ دعا بارگاہ اجابت تک نہیں جائے گی۔
۶۔ نیک لوگوں کی دعا سے فائدہ نہ حاصل کرے گا۔
٭ احتضار کے وقت کی ۳ ؍بلائیں :
۱۔ذلت کے ساتھ موت ہوگی ۔
۲۔بھوکا مرے گا۔
۳۔پیاسا مرے گا اسے جتنا بھی پانی پلائیں پیاس نہیں بجھے گی۔
٭قبر کی ۳ ؍ بلائیں :
۱۔خداوند عالم ایک فرشتہ کو معین کرے گا جو اس پر قبر میں عذاب کرےگا۔
۲۔فشار قبر میں گرفتار ہوگا۔
۳۔اس کی قبر تاریک ہوگی ۔
٭۳ ؍قبر سے اٹھائے جانے کے وقت کی بلائیں :
۱۔خداوندعالم ایک فرشتہ کو حکم دے گا کہ اسے سب کے سامنے چہرہ کے بل زمین پر کھینچے۔
۲۔اس کاحساب بیحد سخت اور شدید ہوگا۔
۳۔خدا اس کی طرف نگاہ رحمت نہ ڈالے گا، اسے دردناک عذاب ملے گا۔([65])
مذکورہ عذاب ان لوگوں کیلئے جو نماز کی اہمیت نہیں سمجھتے ہیں اور ان لوگوں کا عذاب تو بیحد سخت ہے جو نماز نہیں پڑھتے ہیں ،جناب فاطمہؑ زہرا کےعرفانی اور ملکوتی حالات کے بارے میں وارد ہوا ہے: کَانَت فَاطِمَةُ تنهج فِی صَلَاتِهَا مِن خَوفِ اللہِ تَعَالی جناب فاطمہؑ وقت نماز خوف خدا سے اس طرح سانس لیتی تھیں کہ آوازگلوگیرہوجاتی تھی۔([66])
فضائل جناب فاطمہؑ زہرا:
جناب فاطمہؑ زہرا کے بیشمار فضائل ہیں ان میں سے کچھ فضائل کو خداوندعالم نے قرآن کریم میں شمار کیا ہےاور ان کے بارے میں آیتیں نازل کی ہیں جیسے سورہ کوثر، سورہ احزاب، آیہ تطہیر ، سورہ آل عمران،آیۂ مباہلہ ، سورۂ شوریٰ کی آیت:۲۳ وغیرہ، زیادہ تفصیل معلوم کرنے کیلئے تفسیر کبیر، ج:۳۲، ص:۱۲۴، تفسیر کشاف، ج:۸، ص:۸۵، تفسیر برہان، ج:۴، ص:۱۹۷ اورمجمع البیان، ج:۵، ص:۵۴ کا مطالعہ کیا جاسکتا ہے۔
نیزپیغمبرؐ اسلام نے بھی جناب فاطمہؑ زہرا کے بہت سے فضائل بیان کئے ہیں ، ان میں سے دو حدیثیں مختصر طور سے بیان کی جارہی ہیں ۔
رسولخدا ؐنےجناب سلمان سے فرمایا:
سلمان، جو شخص میری بیٹی فاطمہؑ زہرا کو دوست رکھے گا وہ جنت میں میرے ساتھ ہوگا اور جو اسے ناراض کرے گا ا س کا ٹھکانا جہنم ہے۔ سلمان! محبت جناب فاطمہؑ سو مقامات پر فائدہ مند ہے، ان میں سے آسان ترین مقامات موت کا وقت، قبر کے اندر ، روز محشر، پل صراط، حساب روز قیامت ہے، جس سے میری بیٹی راضی ہوگی میں اس سے راضی ہوں اور جس سے میں خوش ہوں گا اس سے خدا خوش ہوگا ، جس پر جناب فاطمہؑ نا راض ہوں گی میں اس سے ناراض ہوں گا اور جس پر میرا غضب ہوگا اس پر خدا کا بھی غضب ہوگا۔ سلمان!وائے ہواس پر جس پر وہ اور اس کاشوہر ستم کرے ، وائے ہو اس پر جو فرزندوں اور شیعوں پر ظلم کرے ۔
ایک روز رسولخداؐ، علیؑ ، فاطمہؑ، حسنؑ و حسینؑ کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے آپ نے فرمایا : خدا تو جانتا ہے کہ یہ میرے اہلبیتؑ ہیں اور مجھے سب سے زیادہ عزیز ہیں ، تو ان کے دوستوں کو دوست اور دشمنوں کو دشمن رکھ، گویا میں دیکھ رہا ہوں اپنی بیٹی فاطمہؑ کو کہ وہ روز قیامت ایک نورانی سواری پر سوار ہوں گی،ان کےداہنی جانب ستر ہزار فرشتے اور بائیں جانب ستر ہزار اور سامنے اور پیچھے بھی ستر ہزار فرشتے چلتے ہوں گے اور وہ میری امت کی عورتوں کی جنت کی جانب رہنمائی کرتی ہوں گی، جو عورت شب و روز میں نمازپنجگانہ ادا کرے ،ماہ رمضان کے روزہ رکھے ، خانہ کعبہ کا حج کرے ، مال کی زکات دے، شوہر کی اطاعت کرے، اس کے ساتھ میرے بعد حضرت علیؑ کی پیرو ہو ، وہ میری بیٹی کی شفاعت سے جنت میں جائے گی، فاطمہ ؑدنیا کی عورتوں کی سردار ہیں : آنحضرتؐ سے پوچھا گیا: یا رسول ؐاللہ :کیا وہ اپنے زمانہ کی عورتوں کی سردار ہیں ؟ آپ نےفرمایا : مریمؑ بنت عمران اپنے زمانہ کی عورتوں کی سردار تھیں لیکن میری بیٹی فاطمہؑ روز تخلیق سے قیامت تک کی تمام عورتوں کی سردار ہیں ، وہ جب محراب عبادت میں کھڑی ہوتی ہیں ، سترہزار مقرب فرشتے اسے سلام کرتے ہیں اور جوندا مریمؑ کو دی تھی وہ دیتے ہیں : اِنَّ اللہَ اصطَفَاكِ۔۔۔۔۔ألخ اور کہتے ہیں : فاطمہؑ !در حقیقت خدا نے تمہیں منتخب کیا، پاک قرار دیا اور تمام عالم کی عورتوں کےمقابلہ میں چن لیا، اس کے بعد آنحضرتؐ نے حضرت علیؑ سے فرمایا: فاطمہ میراحصہ ہے،آنکھوں کانوراورمیوۂ دل ہے۔ ([67])
([2])- اصول کافی، ج:۲، ص:۲۴۷، دلائل الامامۃ، ص:۱۰، اعلام الوریٰ، ص:۱۴۷، مناقب، ج:۳، ص:۴۰۵، اعیان الشیعہ، ج:۱، ص:۳۰۶۔
([67])- امالی،ص؛۴۸۶،فرائد السمطین،ج:۲،ص:۶۸،مقتل الحسین،ص:۱۰۰۔
#islam#quraan#imamat#ideology#iran#ghadeer#khum#prophet#muhammad#karbala#saqeefa#zahra#eid#jashn#maula#hadith#rawi#ahlesunnat#takfiri#wahabiyat#yahusain#aashura#azadari#mahfil#majlis#
#اسلام#قرآن#امامت#غدیر#خم#حدیث#راوی#عقاید#محمد#عاشورا#کربلا#سقیفہ#خلافت#ملوکیت#عمر#ابو بکر#عثمان#علی#صحابی#صحابیات#تاجپوشی##islam#اسلامی تعلیمات#Islamic#اسلامیات#educatin#اسلام#karbalastatus#nadeemsarwar #nohastatus #imamraza#imamhussain#imamali #shia #yaali #yahussain #yaalimadad #labbaikyahussain #islam #najaf #imammahdi #iran #imam #yazainab #imamhassan #yaabbas #allah #imamezamana #ahlulbayt #azadar #azadari #imamaliquotes #imammehdi #muharram #shianeali #yazehra #hussaini #imamnaqi #shaam#labbaikyaabbas #imammusakazim #imamtaqi #mashad #madina #yahassan #yafatima #yazahra #shiamuslim #quran #imamhassanaskari #bibizainab #imamjaffar #ahlebait #imambaqar #hussain #life #prophetmohammed #sakina #iraq #quote #hazrathali #moharram #zainulabedeen #promoteazadari #bibifathima #ahylubaythmbibizainab #iraqkarbala #abbasalamdar#karbala #nohastatus #farsinoha #5tani #imamali #karbala #imamhussain #shia #yaali #najaf #yahussain #islam #imam #allah #yaalimadad #muharram #yaabbas #ali #azadari #labbaikyahussain #ahlulbayt #quran #hussain #azadar #iran #imamaliquotes #iraq #ahlebait #yazainab #imammahdi #hussaini #imammehdi #imamreza #muslim#hazratali #shianeali #imamhassan #e #prophetmuhammad #madina #shiatweets #muhammad #molaali #mashad #aliunwaliullah #islamicquotes #as #imamhasan #love #yazahra #arbaeen #abbasalamdar #imamalisayings #moharram #shiamuslim #yafatima #pakistan #khwaja #promoteazadari #maulaali #quotes #karbalaa #yazehra #fatima#imamali #quotes #islam #iran #muslim #pakistan #allah #quran #ramadan #iraq #islamicquotes #namaz #ali #muhammad #madina #karbala #shia #prophetmuhammad #yahussain #hussain #najafalihaq #labbaikyaabbas #kufa #muharram #imamaliquotes #yahassan #yahussain #ahlebait #molaali #najaf#hussaini #manqabat #karbala #labbaikyahussain #alishanawar #nadeemsarwar #mesumabbas #farhanaliwaris #bainulharamain #imamali#imamhussain #kaneez #shrine #karbalawrites #najaf #shia #azadar #azadari #alimola #azadariworld#hussainimadia #mylifekarbala #mirhassanmir #yahussain #yazahra #shianeali #hussaini_azadar #arbaeen #imammehdi #shia_youth#yaali #yaalimadad #yazehra #yafatema #labbaik_ya_husain✋ #امام_علی #امام_حسین2⃣5⃣रमजान #متباركين #ابا_الفضل_العباس #الامام_الحسين_عليه_السلام#يازهراء #باب_الحوائج #الامام_الكاظم #كربلاء_المقدسة #كربلاء_الحسين #امام_حسين_عليه_السلام #وفاء_للحسين #بين_الحرمين #ابا_الفضل #حبيب_بن_مظاهر_الاسدي
#العتبة_الحسينية_المقدسة #كربلا_معلى #حبيب_بن_مظاهر #الامام_المهدي #ya_ali_madad92never #art #ahlulbayt #yamahdi #iraq #muharram#zainab #karbala #zainimam #love #allah #shia #imamali #ahlulbayt #justiceforzainab #asifa #justiceforasifa #najaf #imamhussain #quran #yaabbas #yahussain #ali #muharram #islam #yaali #hussain #yaalimadad #muslim #labbaikyaabbas #imammahdi #official #azadar #sayedazainab #e #imamhasan#muharram1441 #yaabbas #yafatima#fatima #allah #karbala #ali #hussain #jesus #najaf #f #imam #e #catholic #tima #imamali #virgenmaria #portugal #o #quran #muhammad #imamhussain #maria #nossasenhoradefatima #a #pray #yaali #salamyahussain #mashad #khwaja #shia #madina #iraq #worldazaadari #welovekarbala #کربلا #امام_زمان #امام_حسین #حضرت_ابوالفضل #محرم#نجف #سامرا #امیرالمؤمنین #امام_حسن #فاطمہ_زهرا #حضرت_زینب #بقیع #
#سلامعزیزخدا #خدا #بین_الحرمین #حرم #زیارت #عشق #مذهبی #مشهد #کربلاء #شهید#شهدا #کربلاء_المقدسة #شیعه #اربعین #چادری #حجاب #حجابات #رهبر #رهبری #syria #الشيعة #تهران #ويبقى_الحسين #لبيك_يا_حسين #ايران #اصفهان #عاشوراء #باسم_الكربلائي #العراق#