Sunday, 2 June 2024

مادران معصومین ایک تعارف ۔۱۔introduction to mothers of the masoomeen .1.

 

آمنہ بنت وہب قریش کی عظیم ترین خاتون تھیں وہ ۲۵ یا ۳۰ سال کی عمر میں جناب عبد اللہ بن عبد المطلبؑ کی زوجیت میں آئیں ، جناب عبد اللہؑ سے ازدواج کے ایک برس بعد  ۱ ؁ عام الفیل میں پیغمبر اکرمؐ کی ولادت با سعادت ہوئی، روایت میں وارد ہوا ہے کہ جناب آمنہ ؑنے زمانہ حمل میں خواب دیکھا کہ اس کا ایک نور آسمان پر چمک رہا ہے اور ان سے کہا جا رہا ہے کہ وہ ان کے فرزند پیغمبرؑ ہوں گے۔

آپ نے ولادت کے وقت بہت تعجب خیز امور کا دیدار کیا، پیغمبرؑ کے اجداد مادری و پدری سب کے سب خدا پرست اور پاک و پاکیزہ تھے شرک و بت پرستی سے کبھی وابستہ نہیں ہوئے جناب آمنہ بھی پاک و پاکیزہ اور موحد خاتون تھیں ۔

جناب آمنہؑ اور عبدؑ اللہ کی ازدواجی زندگی کا زمانہ بہت مختصر تھا کیونکہ جناب عبدؑ اللہ کی وفات پیغمبرؐ کی ولادت با سعادت سے قبل ہو چکی تھی اور جناب آمنہؑ شوہر کے سوگ میں تھیں ۔

جناب آمنہؑ نے اپنے عزیر فرزند کو چند دنوں دودھ پلایا تھا کہ عربوں کی رسم کے مطابق پیغمبرؐ کو جناب حلیمہؒ کی نگہداری میں دیدیا گیا، پانچ سال تک آنحضرتؐ جناب حلیمہؒ کے پاس رہ کر مادر گرامی جناب آمنہؑ کے پاس واپس آگئے، جناب آمنہؑ جو برابر چاہتی تھیں کہ اپنے جوان شوہر کی آخری آرامگاہ کی یثرب (مدینہ) میں زیارت کریں تو فرزند عزیز کی واپسی کے بعد ام ایمنؒ کو ساتھ لے کر یثرب کی جانب روانہ ہوئیں ، اپنے عزیزوں سے ملاقات اور جناب عبدؑ اللہ کی قبر کی زیارت کر کے واپس ہو رہی تھیں کہ مقام ابواؔء میں ان کی وفات ہو گئی۔

(جناب حلیمہ کا تذکرہ پرورش پیغمبرؐ کے ذیل میں کیا جاتا ہے اور ان کے فضائل و خصوصیات کا تذکرہ بھی ہوتا رہتا ہے لیکن انبیاءؑ و مرسلینؑ کی تربیت و پرورش کا الہی طریقہ جو انبیاؑء کے حالات کے ذیل میں بیان ہوا ہے اس سنت الٰہی پر اگر غور کیا جائے۔ (خاص طور پر جناب موسیٰؑ کی پرورش کا ذکر جو قرآن کریم میں ہے۔) تو اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ حلیمہ کا وجود تو ملتا ہے لیکن بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ حلیمہ خود جناب آمنہؑ کا لقب تھا «کَاْنَتْ آمِنَةٌ حَلِيْمَةٌ» ممکن ہے اس لفظ سے استفادہ کرتے ہوئے جناب حلیمہ کو ایک ذات تسلیم کر لیا گیا ہو اور بعد میں دوسرے واقعات اسی پر مرتب کر دئے گئے ہوں ، تحقیق کی ضرورت ہے۔)

ائمۂ معصومینؑ و جناب معصومہؑ کی جدہ ٔماجدہ اور پیغمبر اکرمؐ کی والدہ گرامی مرتبت جناب آمنہؑ ہیں ان کیلئے یہ نام زیب دیتا ہے اوراس میں عظیم خصوصیات پائے جاتے ہیں کیونکہ بزرگ ترین امانت الٰہی اور ہادی بشر کی بے مثل و بے نظیر ماں ہیں وہ تخلیق عالم کے راز کی حامل و محافظ ہیں ایسے فرزند کی ماں ہیں کہ زمانہ کے مسلسل متغیّر ہونے کے باوجود ان کے حیات بخش اور زندگی ساز مکتب کو کروڑوں انسان ہر جگہ تسلیم کر رہے ہیں ان کی نجابت اور خوبی سے انکار ممکن نہیں ہے کیونکہ وہ پیغمبر اکرم ؐکی ماں ہونے کے لائق تھیں تو خدا نے انہیں اس عظیم نعمت سے سرفرازفرمایا۔

مؤرّخین و محدّثین نے بغیر کسی اختلاف کے والدۂ پیغمبر اسلام ؐ کیلئے صرف ایک نام آمنہؑ تحریر کیا ہےوہ وہبؔ بن عبد منافؔ بن زہرہؔ بن کلابؔ بن مرہؔ بن کعبؔ بن لویؔ بن غالبؔ بن فہرؔ کی بیٹی تھیں ۔ آپ کی والدہ کا نام برّہؔ بنت عبد العزّیٰؔ بن عثمانؔ بن عبد الدارؔ بن قصیؔ بن کلابؔ بن مرہؔ ہیں اور برّہؔ کی ماں یعنی جناب آمنہؑ کی نانی امّ حبیب بنت اسدؔ بن عبد العزّیٰ بن قصیؔ بن کلابؔ ہیں ۔([1])

جناب آمنہؑ کا ازدواج جناب عبد اللہؑ بن عبد المطّلبؑ سے ہواجن سے صرف ایک فرزند پیغمبر اکرمؐ کی ولادت با سعادت ہوئی ۔([2])

پیغمبر اکرمؐ کی والدۂ ماجدہ جناب آمنہؑ کا انتقال تیس سال کی عمر میں مقام ابواء (مکّہ) میں ہوا اور وہیں مدفون ہیں ۔([3])

جناب آمنہؑ اپنے ماں باپ کی اکلوتی بیٹی تھیں اس لئے مؤرّخین کے درمیان مشہور ہے کہ پیغمبرؐ کے کوئی ماموں اور خالہ نہ تھیں ۔([4])

یہ وہ بدترین زمانہ تھا جب عربوں کیلئے لڑکی باعث ننگ و عار سمجھی جاتی تھی وہ لڑکیوں کو زندہ در گور کردیا کرتے تھے لیکن جناب آمنہؑ اس زمانہ میں بھی اپنی قوم اورخانوادہ میں مخصوص احترام اور عزّت کی حامل تھیں ۔ ([5])

 جناب آمنہ ؑکی عظمت کتب آسمانی میں :

راوی کا بیان ہے کہ ابو اسحاق کعب بن مانع جو یمن کا رہنے والااور اہل کتاب کے عظیم علماء میں سے تھا،وہ معاویہ کے پاس موجود تھا، راوی کہتا ہے کہ میں نے اس سے پوچھا کہ تم نے پیغمبر ختمیؐ مرتبت کی ولادت کے تذکرہ کو اپنی کتابوں میں کس انداز سے پایا ہے اوراسکے خاندان کی فضیلت کس طرح سےبیان ہوئی ہے؟ کعب نے معاویہ کی جانب رخ کر کے معاویہ کا منشااور نظریہ جاننا چاہا، خداوند عالم نے معاویہ کی زبان پر یہ جملے جاری کر دئے، اے ابو اسحاق جو کچھ تم جانتے ہو اسے بیان کروخدا تم پررحم کرے، کعب نے بیان کیا کہ میں نے بہتر آسمانی کتابوں اور دانیال ؑکےصحیفوں کو پڑھا ہے سب میں پیغمبر ؐ کی ولادت کا تذکرہ ان کے نام کے ساتھ موجود ہے کسی پیغمبر کی ولادت کے موقع پر فرشتے نہیں نازل ہوئےسوائے جناب عیسیٰؑ اور احمدؐ کی ولادت کے، کسی شخص کیلئے بہشتی حجاب نہیں کھینچے گئے سوائے جناب مریمؑ اور آمنہؑ کے، کسی حاملہ عورت پر فرشتہ مقرر نہیں کیا گیا سوائے مادرِ جناب عیسیٰ ؑاور مادرِجناب پیغمبرؐ کے، جناب آمنہؑ کے حمل کی ایک علامت یہ تھی کہ شبِ حمل ایک منادی نے ساتوں آسمان میں ندا کی مژدہ ہو کہ آج کی رات جناب محمدؐکا حمل منعقد ہو گیا زمین میں بھی ایسی ندا دی ، شب ولادت یہی آواز کعبہ سے لوگوں نے سنی، اے خاندان قریش بشیر و نذیر تمہارے لئے آیا جس کیلئے ابدی عزت و عظیم فائدہ ہے، وہ خاتم المرسلینؐ ہے ہماری کتابوں میں بیان ہوا ہے کہ اس کے بعد اس کے خاندان کے لوگ بہترین انسان ہیں اورجب تک ان کی عترت کی ایک فرد بھی باقی رہے گی لوگ عذاب سے امان میں ہوں گے۔([6])

 روایات میں جناب آمنہؑ کا ذکر:

شیعہ روایات کی کتابوں میں خاندان پیغمبر اسلامؐ کے بارے میں نیز مادر پیغمبرؐکے تعلق سے زیادہ روایات پائی جاتی ہیں جو ان کے ایمان اور عقیدۂ وحدانیت کو واضح کرتی ہیں ، شیخ صدوق ؒ نے امالی میں نقل کیا ہے کہ امام صاؑدق نے فرمایا کہ جبریل ؑ پیغمبرؐ کے پاس آئے اور کہا خداوندعالم آپ سے سلام کے بعد کہتا ہے ،میں نے آگ کو آپ کے والد عبد اللہؑ ماں آمنہؑ اوراہل خانہ پر جس نے آپ کی کفالت و سرپرستی کی ہے (جناب ابوطالبؑ) حرام قرار دیا ہے۔([7])

حضرت محمدؐ کا ارشاد ہے کہ خداوندعالم نے مجھ کو بہترین پدر کی پشت (عبد اللہ بن عبد المطّلبؑ) اور بہترین ماں (آمنہ ؑبنت وہب) کے رحم میں قرار دیا تاکہ شرک کی نجاست اور کفرکی رذالت مجھ تک نہ پہونچے۔([8])

علامہ کلینیؒ نے امام صاؑدق کا جامع خطبہ اسی سلسلہ میں نقل کیا ہے اس میں بیان ہوا ہے کہ پیغمبرؐاسلام کی خلقت میں کوئی ناجائز ذریعہ نہیں آیا ان کی ماؤں میں کوئی گندگی نہیں تھی خداوند عالم نے ان کو محفوظ ترین حمل اور امین ترین دامن سے پیغمبری کیلئے منتخب کیا۔([9])

امیر المومنین علیؑ نے فرمایا کہ پیغمبرؐکا ارشادہے کہ خدا نے ہم کو کریم صلبوں اور پاکیزہ رحموں میں قرار دیا ہم میں سے کوئی (نا جائز ذریعہ) سے وجود میں نہیں آیا۔([10])

کتاب اسرار آل محمدؐ میں بیان ہوا ہے کہ رسول اکرمؐنے فرمایا کہ خداوند عالم ہم کو بہترین معادن اصل و طبع اور بہترین کشتزار پدر و مادر سے وجود میں لایا۔([11])

ان مذکورہ روایات اور دوسری دسیوں روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ پیغمبر اکرم ؐ کی مادر گرامی ارحام مطہّر میں سے ہیں جو حمل پیغمبرؐ کے لائق تھیں ان کا مرتبہ اتنا بلند ہے کہ پیغمبر اسلامؐ کی ایک زیارت میں ان پربھی سلام کا ذکر ہے: اَلسَّلَامُ عَلَیْكَ وَعَلَیٰ اُمِّكَ آمِنَة بنت وَھَب۔([12])

علماء شیعہ کی نظر میں جناب آمنہ ؑکی منزلت:

شیخ مفیدؒ نے اوائل المقالات میں نقل کیا ہے کہ پیغمبر ؐ نے فرمایا کہ خداوندعالم نے ہمیشہ مجھ کو پاکیزہ ماؤں کے رحم میں قرار دیا یہاں تک کہ میں اپنی ماں آمنہؑ سے وجود میں آیا ، شیخ مفیدؒ کہتے ہیں کہ ہمارے اصحاب کے درمیان اجماع ہے کہ آمنہؑ بنت وہبؔ توحید پر ایمان رکھتی تھیں اور مومنین کے گروہ میں محشور ہوں گی۔([13])

شیخ صدوقؒ نے بیان فرمایا : ہمارا عقیدہ آباء و اجداد نبیؐ کے بارےمیں یہ ہے کہ جناب آدم ؑ سے لے کر آپ کے والد عبد اللہؑ تک سب مسلمان ہیں جناب ابو طالبؑ مسلمان تھے آمنہؑ بنت وہب بن عبد مناف مادر رسول ؐاکرم بھی مسلمان تھیں ۔([14])

علامہ مجلسی ؒ فرماتے ہیں : علماء امامیہ کا اجماع ہے کہ رسول اکرمؐ کے ماں باپ اور تمام اجداد پیغمبر ؐ حضرت آدمؑ تک مسلمان تھے آپ کا نور کسی مشرک کے صلب و رحم میں قرار نہیں پایا آنحضرتؐ اور ان کے آباء و اجداد و مادران کے نسب کے بارے میں کوئی شبہہ نہیں کیا جا سکتا ہے۔([15])


علامہ مامقانیؒ کہتے ہیں کہ ہمارے مذہب کے ضروریات میں سے یہ ہے کہ نبی اکرمؐ کے والدین سے لے کر اجداد تک کوئی شرک سے ملوث نہیں تھا وہ سب کے سب جناب آدمؑ تک موحّد تھے۔([16])

روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ پیغمبر اکرمؐ جناب عبد اللہؑ اور آمنہؑ کی قبر پر تشریف لائے ان دونوں کو (باعجاز و بحکم خدا) زندہ کیا اور ولایت علیؑ کی گواہی کے بعد واپس لوٹایا۔

علامہ مجلسیؒ کہتے ہیں کہ ان روایات کا ظاہر بتاتا ہےکہ جناب آمنہؑ و عبد اللہؑ شہادتین پر ایمان رکھتے تھے ان کو زندہ کرنا صرف ان کے ایمان کی تکمیل کیلئے ولایت علیؑ کی گواہی کے ذریعہ تھا۔([17])

 جناب آمنہؑ کی منزلت اہلسنت کے نزدیک:

اہلسنت حضرات نے خاندان پیغمبر اسلام ؐ کے ساتھ نا انصافی سے کام لیا ہے اہلسنت کے روایتی منابع میں ایسی روایات موجود ہیں جو خاندان پیغمبرؐ کے مشرک ہونے کو بتاتی ہیں اور انہیں روایات کو سند قرار دیتے ہوئےبعض بزرگ اہلسنت نے خاندان پیغمبرؐ کو مشرک سمجھا ہے۔

کتاب مستدرک الصحیحین میں عبد اللہ بن مسعود کی روایت منقول ہے کہ پیغمبر ؐاسلام قبروں کی جانب گئے ہم بھی ان کے ہمراہ تھے آپ نے ہم کو حکم دیا کہ بیٹھ جاؤ آپ ؐ قبروں کے اوپر چلتے ہوئےایک قبر کے پاس بیٹھ گئے اور زیادہ دیر تک مناجات کی، پیغمبرؐ کے گریہ کی آواز بلند ہوئی ہم بھی رونے لگے پیغمبرؐ ہمارے پاس آئے عمر بن خطاب پیغمبرؐ کے قریب گئے اور عرض کیا پیغمبرؐ آپ کو کس چیز نے رلایاکہ آپ کےگریہ سے ہم بھی رونے لگے۔

پیغمبرؐ اسلام نے فرمایا کہ جس قبر کو تم دیکھ رہے ہو میں اس پر مناجات کر رہا تھاوہ میری والدہ آمنہ ؑبنت وہب کی قبر تھی میں نے اس قبر کی زیارت کی اجازت خداوند عالم سے طلب کی خدا نے اجازت دی میں نے والدہ کیلئے استغفار طلب کرنے کی اجازت چاہی تو اجازت نہیں دی اور یہ آیت نازل ہوئی : مَا کَانَ لِلنَّبِیَّ وَالَّذِینَ آمَنُوا أَن یَستَغفِرُوا لِلمُشرِکِینَ وَلَو کَانُوااُولِی قُربیٰ مِن بَعدِ مَا تَبَیَّنَ لَہُم أَنَّہُم أَصحَابُ الجَحِیمِ۔ ([18])

پیغمبر اور مومنین ، مشرکین کیلئے طلب مغفرت کا حق نہیں رکھتے ہیں .....اسکے بعد پیغمبرؐ نے فرمایاکہ اس کے بعد مجھ پر اسی طرح کی رقت طاری ہو گئی جو ایک فرزند پر والدین کیلئے ہوتی ہے۔ ([19])

ابو ہریرہ سے منقول ہے کہ پیغمبر ؐ نے ماں کی قبر کی زیارت کے موقع پر گریہ کیا اور جو لوگ ان کے قریب تھےانہوں نے بھی گریہ کیا اس وقت رسولؐ نے فرمایامیں نے خداسے اجازت طلب کی کہ ماں کیلئے طلب مغفرت کروں تو اجازت نہیں ملی ، میں نے قبر مادر کی زیارت کی اجازت طلب کی تو اس درخواست کو قبول کیا۔جناب عبد اللہ ؑکے بارے میں بھی ایسی روایات ملتی ہیں ۔([20])

مذکورہ بالا ان روایات کے مقابلہ میں اہلسنت ہی کے منابع میں کثیر روایات موجود ہیں جو یہ بتاتی ہیں کہ خاندان عبد المطلبؑ موحد تھا ان میں جناب عبد اللہ ؑ و آمنہؑ بھی ہیں ۔

۱۔ پیغمبر ؐاسلام نےفرمایا : میں دنیا میں نکاح کے ذریعہ آیا یہ سلسلہ نکاح جناب آدم ؑ تک ہے ، جاہلیت کی گندگی ہم تک نہیں پہونچی۔([21])

۲۔ حضرت علی ؑ نے بیان کیا کہ پیغمبر ؐنے فرمایا: میں نکاح کے طریقہ سے دنیا میں آیا ہوں ،اب تک کوئی گندگی مجھ میں راہ نہیں پا سکی ہے۔([22])

۳۔ابن عباسؓ کا بیان ہے کہ پیغمبر ؐ نے فرمایا: میں دنیا میں نہیں آیا ، مگر اسی نکاح کے طریقہ سے جو اسلام کا طریقۂ نکاح ہے۔([23])

۴۔ ابن سعد سے منقول ہے کہ ابن عباسؓ نے آیۂ وَ تَقَلُّبَكَ فِی السَّاجِدِینَ ([24]) کی تفسیر میں بیان کیا ہیکہ اس آیہ کا مقصود یہ ہے کہ اے پیغمبر ؐ!خداوند عالم نے آپ کو پیغمبروں ؑ کی صلبوں سے دوسرے پیغمبروں ؑ کی صلبوں تک منتقل کیا ہے۔([25])

ان روایات میں زمانۂ جاہلیت کی گندگی جیسے زنا وغیرہ کی پیغمبرؐ کے ماں باپ کے بارے میں نفی کی گئی ہے ۔ دوسری روایت پر توجہ کرتے ہوئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ شرک جو بدترین گندگی ہے وہ بھی پیغمبرؐ کے آباء و امہات میں نہیں آیا۔

جو روایات خاندان پیغمبرؐ کے مشرک ہونے کے بارے میں ہیں ان میں بہت زیادہ اختلاف بھی پایا جاتا ہے۔([26]) پر پانچ روایات اس بارےمیں مختلف متن کے ساتھ اور اس کے برعکس ذکر ہوئی ہے۔

جو روایت ابن مسعود نے نقل کی ہے کہ وہ سورہ توبہ کی آیت ۱۱۳اور۱۱۴ کی شان میں وارد ہوئی اسی طرح کی روایت تفسیر کبیر فخرالدین رازی میں ابن عباس سے منقول ہے کہ جب خدا نے پیغمبرؐ کیلئے فتح عطا کی تو آنحضرتؐ نے اپنے والد اور والدہ کی قبر کا نشان معلوم کیا تاکہ ان سے تجدید عہد کریں ، قبر مادر کی لوگوں نے نشاندہی کی پیغمبرؐ نے چاہا کہ ماں کیلئے طلب مغفرت کریں اس وقت یہ دونوں آیات نازل ہوئیں ۔([27])

کیا پیغمبر ؐ کو یہ معلوم نہ تھا کہ والد کی قبر مدینہ میں اور والدہ کی قبر ابواء میں ہے، اگر معلوم تھا تو مکہ کے لوگوں سے اس کا پتہ کیوں معلوم کر رہے تھے اس لئے ان احادیث پر اعتماد نہیں کیا جا سکتاہے۔

ابو ہریرہ سے منقول روایت کے بارے میں یہی بات کافی ہےکہ ابو ہریرہ کے بارے میں اہلسنت کے بزرگ علماء کے نظریات کو معلوم کرلیا جائے،چنانچہ:

(۱) ذہبی کا بیان ہے کہ جب معاویہ ابوہریرہ کو کچھ عطا کردیتا تھا تو وہ آرام سے بیٹھ جاتا تھا اور جب کچھ نہیں دیتا تھا تو وہ معاویہ کے خلاف تبلیغ کرتا تھا۔([28])

(۲) ابن کثیر کہتا ہے: ہمارے اصحاب (علماء) ابو ہریرہ سے دوری اختیار کرتے تھے کیونکہ ابوہریرہ جو کچھ پیغمبرؐ سے سنتا تھا اسے کعب سے سنی ہوئی باتوں سے مخلوط کردیا کرتاتھا۔([29])

(۳) ابن ابی الحدید معتزلی شافعی کہتا ہے :ابو ہریرہ کی روایات ہمارے بزرگ علماء کے نزدیک قابل قبول نہیں تھی۔([30])


 

(۴) ابو یوسف کا بیان ہے کہ میں نے ابو حنیفہ سے سوال کیا کہ ایک خبر پیغمبرؐ کی جانب منسوب مجھ سے بیان کی گئی ہے جو ہمارے قیاس کے خلاف ہے، میں کیا کروں ؟

ابو حنیفہ نے کہا کہ اگر خبر مؤثق لوگوں کے ذریعہ نقل ہو تو اس پر عمل کریں گے تمام اصحاب مؤثق ہیں سوائے ابو ہریرہ اور انس بن مالک کے ۔([31])

ان مذکورہ علماء اہلسنت کے بیانات کی روشنی میں ابوہریرہ کی روایت پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا ہے۔ آخر میں اس امر کی مکمل وضاحت کیلئے بعض بزرگان اہلسنت نے امامیہ علماء کی طرح خاندان پیغمبر ؐ کی طہارت کا عقیدہ قائم کیا ہے ان میں سے دو افراد کی گفتگو نقل کی جا رہی ہے۔

(۱) امام سبکی کا بیان ہے :وہ نکاح جو نسب پیغمبرؐ کے سلسلہ میں واقع ہوئے ہیں پیغمبرؐ سے لے کر جناب آدمؑ تک تمام صحیح شرائط پر ہوئے ہیں ،وہ انہیں نکاحوں کے طریقہ پر ہیں جو اسلام میں موجود ہیں اس بات پر قلبی اعتقاد رکھنا چاہئے اس سے عدول صحیح نہیں ہے کیونکہ اگر عدول کیا (اس کے خلاف عقیدہ بنایا) تو دنیا اور آخرت میں نقصان اٹھاؤگے۔([32])

(۲) ماوردی کا بیان ہے : اگر نسب پیغمبرؐ سے آگاہ ہونا چاہتے ہو تو جان لو کہ پیغمبر ؐ کریم آباء کی اولاد میں ہیں ان کے اندر رذالت اور پستی کا وجود نہیں تھا بلکہ سب کے سب رہبرتھے اور طہارت کے حامل تھے یہ بھی جان لو کہ طہارت ولادت شرائط نبوت میں ہے۔([33])

حقیقت یہ ہے کہ جن لوگوں نے خاندان پیغمبرؐکےمشرک ہونے کی روایت گھڑی ہیں انہوں نے یہ چاہا ہےکہ اپنے خاندان کے مشرک ہونے کا جبران رسولؐ اکرم کے آباء و امہات کو مشرک قرار دینے سے کر لیں ۔([34])

 جناب عبد اللہؑ و آمنہؑ کا حال:

جناب عبد اللہؑ و آمنہؑ باہم عزیز تھے ایک ہی محلہ میں زندگی بسر کر رہے تھے۔([35])

یہ لوگ بچپن میں ایک دوسرے سے ملاقات بھی کرتے رہتے تھے جناب آمنہؑ جب سن بلوغ کو پہونچیں تو وہ گھر کے اندر رہتی تھیں کوچہ و بازار میں نہیں جاتی تھیں تاکہ نامحرم کی نگاہ ان پر نہ پڑے؛ لیکن خداوندعالم نے یہ مقدر کر رکھا تھا کہ دونوں پاک و پاکیزہ جوان با ایمان عقد ازدواج کے ذریعہ ایک چھت کے نیچے رہ کر معنویت اور توحید کی بنیادوں کو بلند کریں اور وہ دن مقدر سے آبھی گیا۔

 مقدمۂ ازدواج:

کچھ یہودی علماء نے مشاہدہ کر لیا تھا کہ نور محمدؐ جناب عبد اللہؑ کے چہرہ سے نمایاں ہے تو انہوں نے جناب عبد اللہ کے قتل کرنے کا ارادہ کر لیا۔([36])

وہ برابر موقع کی تلاش میں رہتے تھے کہ کسی طرح اپنے ارادہ کو عملی جامہ پنہاویں یہاں تک کہ ایک روز جناب عبد اللہؑ اکیلے شکار کے قصد سے اطراف مکہ کے ایک درّہ میں گئے، یہودی تلواروں کو اپنےلباس میں چھپا ئے ہوئے جناب عبد اللہؑ کا تعاقب کرنے لگے جب وہ عبد اللہ ؑکے قریب پہونچے وہ شکار کو ذبح کررہے تھے تو یہودیوں نے ہر جانب سےمحاصرہ کر لیا عبد اللہؑ نے ان سے کہا کہ میری جان سے تمہاری کیا خواہش ہے؟ میں نے تمہیں کیا نقصان پہونچایا ہے؟

یہودیوں نے ہر جانب سے جناب عبداللہؑ پر حملہ کیا عبداللہؑ نے خود کو ایک پتھر کے پیچھے پہونچایا اور چار یہودیوں کو قتل کیا۔

وہب جناب آمنہ ؑکے پدر بزرگوار یہودیوں کے بزدلانہ حملہ اور جناب عبد اللہؑ کے دفاع کو دیکھ رہے تھے عبد اللہؑ کی مدد کیلئے اٹھے ناگاہ کچھ لوگ آسمان سے زمین پر آئے جو زمین کے لوگوں کے مشابہہ تھے انہوں نےیہودیوں پر حملہ کیا اور انہیں ٹکڑے ٹکڑے کر دیا ، وہب فوراًجناب عبد المطلبؑ کے پاس گئے اور واقعہ بیان کیا جناب عبد المطلبؑ نہایت تیزی سے اپنے دوسرے فرزندوں کے ساتھ عبد اللہؑ کے پاس پہونچے جب انہوں نے جناب عبد اللہؑ کو صحیح و سالم پایا تو انہیں سینہ سے لگا کر بوسہ دیا اور سب کے سب گھر واپس آگئے۔([37])

جناب وہب کی پیشنہاد (تجویز):

جب وہب گھر واپس آئے تو جناب عبد اللہ کی شجاعت کا ذکر اپنی زوجہ سے کیا کہ یہ جوان کتنا خوبصورت ہےاس کے چہرے سے نور ساطع ہے گویا ان کی پیشانی نور افشانی کر رہی ہے۔ اے بیوی جاؤ ان کے والد کے پاس ہماری لڑکی آمنہؑ کی اس جوان سے ہمسری کیلئے گذارش کرو ہو سکتا ہے وہ ہماری بیٹی کو قبول کر لیں تو یہ ہمارے لئے عظیم سعادت اور بڑا فخر ہو گا۔


 

وہب کی زوجہ برّہ کو معلوم تھا کہ مکہ کے بڑے بڑے لوگوں نے خواہش کی ہے کہ جناب عبد اللہؑ ان کے داماد ہو جائیں ، عبد اللہؑ و عبد المطلب ؑنے سب کی درخواستیں رد کر دیں ہیں ، برّہ نے اپنی شوہر سے کہا: وہب!آپ کو معلوم ہے کہ جب عبد اللہؑ مکہ کے نامور اور بزرگ سرداروں کی بیٹیوں کو قبول نہیں کر رہے ہیں تو ہماری بیٹی کو بھی قبول نہ کریں گے۔ وہب کے مسلسل اصرار پر برّہ نے لباس فاخرہ پہنا اور جناب عبد المطلب کے گھر کی جانب روانہ ہوئیں ۔ برّہ جس وقت خانۂ جناب عبد المطلبؑ میں پہونچیں تو عبد المطلبؑ اسی واقعہ کو اپنے عزیزوں سے بیان کر رہے تھے کہ یہودیوں نے جناب عبد اللہ ؑپر حملہ کیا تھا۔

وہب کی زوجہ نے سلام کیا عبد المطلب ؑنے جواب سلام کے بعد وہب کا شکریہ ادا کیا فرمایا کہ تمہارے شوہر کا مجھ پر بڑا حق ہے کیونکہ مجھے خبر دینے کے ذریعہ عبد اللہؑ کو نجات دی اپنے شوہر سے کہہ دینا کہ جوحاجت رکھتے ہوں میں اسے پورا کروں گا،وہب کی زوجہ نے موقع کو غنیمت جانتے ہوئے کہا ہماری خواہش یہ ہے کہ عبد اللہ ؑہمارے داماد ہو جائیں ، عبد المطلب ؑنے جناب عبد اللہؑ کے چہرے پر نگاہ کی کسی طرح کی ناپسندیدگی کی علامت نہیں دیکھی کیونکہ اس سے پہلے جتنے لوگوں نے درخواست کی تھی تو جناب عبد اللہؑ کے چہرے سے ناراضگی کے آثار نمایاں ہوئے تھے۔([38])

جناب عبد اللہؑ اس ازدواج سے راضی ہوگئے انہیں معلوم تھا کہ ان کے صلب میں ایسا نور ہے جس کے حمل کی لیاقت ہر لڑکی میں نہیں پائی جاتی اس لئے پہلے کی تمام درخواستوں کو مسترد کر دیا تھا۔

جناب عبد المطلبؑ نے فرزند سے کہا:فرزند! بخدا مکہ کی لڑکیوں میں آمنہؑ جیسی کوئی لڑکی نہیں ہے کیونکہ صاحب ِعزّت ،شخصیت ِپاکیزہ کی حامل ، عاقل اور دیندار ہے۔([39])

یہ طے پایا کہ جناب عبد اللہ ؑکی والدہ وہب کے گھر جائیں اور آمنہؑ کے دیدار کے ضمن میں خواستگاری کا وقت معین کر لیں ، جب فاطمہ (مادر جناب عبد اللہؑ) وہب کے گھر پہونچیں تو آمنہؑ اور اس کی ماں نے نہایت گرم جوشی سے ان کا استقبال کیا ، جناب فاطمہؑ زوجۂ جناب عبد المطلب ؑنے آمنہؑ سے مختصر سی گفتگو میں سمجھ لیا کہ وہ شخصیت اور کمال کی حامل ہے اور جناب آمنہ ؑکی ماں سے کہا: مجھے آمنہؑ کی درایت عقل و ہوش پر تعجّب ہے، کیسے مجھے اس کی خبر نہ ہوئی؟ جناب فاطمہؑ نےگھر واپس آکر جناب عبد اللہؑ سے کہا: فرزند!یقیناً عرب کی لڑکیوں میں آمنہؑ جیسی کوئی لڑکی نہیں ہے، میں نے اسے پسند کیا خداوندعالم تمہارے اس نور کو آمنہ کے علاوہ کسی اور کو عطا نہیں کرے گا ۔([40])

 رسم خواستگاری:

جناب عبد المطلبؑ جناب عبد اللہؑ اور قوم کے چند لوگوں کے ساتھ آمنہؑ کی خواستگاری کیلئے وہب کے گھرگئے عبد المطلبؑ نے خطبۂ عقد اس طرح پڑھا! ”میں حمد کرتا ہوں اس خدا کی جس نے ہمیں یہ عطا کیا اور ہمیں اپنےگھر کے پڑوس میں قرار دیا ، وہ خدا جس نے ہماری محبت بندوں کے دل میں ڈال دی اور ہمیں تمام امت کے مقابلہ میں شرف سے سرفراز کیا“۔ اس کے بعد وہب سے فرمایا: میرا فرزند تمہاری بیٹی آمنہؑ کی خواستگاری کر رہا ہے معیّن مہر کے ساتھ کیا تم راضی ہو؟ وہب نے کہا کہ میں راضی ہوں میں نے قبول کر لیا ، اس کے بعدجناب عبد المطلبؑ نے موجود لوگوں کو گواہ بنا یا اور چاردن تک ولیمہ کھلایا۔([41])

 ابن ہشام کا بیان ہے کہ عبد المطلبؑ نے جناب آمنہؑ بنت وہب کا انتخاب جناب عبد اللہؑ کیلئےکیا جو قریش کی عورتوں میں نسب میں شریف ترین تھیں اور عروسی وہب کے گھر پر انجام پائی۔([42])

 نورمحمدی کا جناب آمنہؑ تک منتقل ہونا:

جب تک نور جناب عبد اللہؑ کی پیشانی سے جناب آمنہؑ تک منتقل نہیں ہوا تھا ورقہ بن نوفل کی بہن خود کو جناب عبد اللہؑ کیلئے پیش کر رہی تھی وہ کہتی تھی اگر تم مجھ سے جنسی تعلق پیدا کرو تو وہ تمام سو اونٹ جو تمہاری نجات کیلئے قربانی کئے گئے ہیں میں عطا کروں گی، عبد اللہؑ اس کی جانب کوئی توجہ نہیں کرتے تھے جناب آمنہؑ سے رشتہ کے بعد تعلق ہوا اور نور جناب آمنہؑ تک منتقل ہو گیا ، ایک دن بعد جناب عبد اللہؑ جناب آمنہؑ کے گھر سے نکلے راستے میں ورقہ بن نوفل کی بہن کا سامنا ہوگیا لیکن اس نے کوئی توجہ جناب عبداللہؑ کی جانب نہیں کی، جناب عبد اللہؑ نے اس سے پوچھا تم نے گذشتہ کل تک کی خواہش کی تکرار نہیں کی؟اس نے کہا کہ جو نور کل تک تمہارے چہرہ میں تھا وہ اب نہیں ہے اس لئے اب مجھے تمہاری کوئی ضرورت نہیں ہے۔([43])


 

جناب آمنہؑ کا بیان ہے کہ جب نور محمدی جناب عبد اللہؑ سے مجھ تک منتقل ہوا تو میرے چہرہ سے نور ساطع ہوتا تھاجب مکہ کے لوگ اس نور کو دیکھتے تھے تو مجھے اور میرے فرزند کے درخشندہ مستقبل کی مبارک باد دیتے تھے۔([44])

کئی سال سے عرب کے لوگ شدید قحط میں مبتلا تھے جب یہ نور جناب آمنہؑ تک منتقل ہوا تو بارش ہوئی اور لوگ نعمتوں سے مالا مال ہوئے اسی لئے اس سال کا نام سال فتح رکھا گی۔([45])

خداوندعالم نے جناب آمنہؑ کوبارہا بشارت دی، ہوشیار رہو کہ جو گراں بہا بار اپنے رحم میں رکھتی ہویہ انسانوں کا سید و سردار اور راہنما ہے۔([46])

عباس بن عبد المطلبؑ کا بیان ہے کہ جب جناب عبد اللہؑ کی پیدائش ہوئی تو ان کے چہرہ میں نور تھا جو چمک رہا تھا میرے والد نے کہا کہ اس فرزند کا ،مقام و مرتبہ بلند ہوگا یہاں تک کہ خوبصور ت ترین قریش کی لڑکی جناب آمنہؑ سے ان کا ازدواج ہوا تو یہ نور جناب آمنہؑ تک منتقل ہو گیا۔([47])

 

 رحم مادر میں نور محمدیؐ:

سب سے عظیم عطیۂ الٰہی جو جناب آمنہؑ کو ملاوہ یہ کہ خداوندعالم نے انہیں نور محمدی کا حامل اور ان کی پرورش کے لائق بنایا،جناب آمنہؑ کہتی ہیں کہ جب میں باردار ہوئی توحمل کا کوئی اثر اپنے اندر نہیں پایا جو حالات حاملہ عورتوں کے ہوتے ہیں وہ مجھ میں نہ تھے ایک شب خواب میں دیکھا کہ کوئی شخص میرےپاس آیا اور کہا کہ تم بہترین انسان سے حاملہ ہو تو وضع حمل میرے لئے آسان ہو گیا اور مجھے کسی طرح کی کوئی تکلیف نہیں ہوتی۔

یہ بھی بیان ہوا کہ جب جناب آمنہؑ حاملہ تھیں تو خواب میں دیکھا کہ کوئی کہنے والا کہہ رہا ہے کہ تم بہترین انسان سے حاملہ ہوئی ہو۔ ([48])

یہ بھی روایت میں آیا ہےجناب آمنہؑ نے کہا کہ حمل کے چھ ماہ بعد، خواب میں دیکھا کوئی کہہ رہا ہے:اے آمنہؑ !تمہارے اندر بہترین انسان کا حمل ہے۔([49])

یہ بھی بیان ہوا ہے کہ جناب آمنہؑ بنت وہب نے کہا کہ جب میں رسولخداؐ سے باردار ہوئی تو مجھ سے کہا گیا کہ تم اس امت کے سردار سے باردار ہوئی ہو، جب وہ پیدا ہو تو اس سے کہنا اس کو ہر حاسد کے شر سے خدائے واحد کے حوالہ کرتی ہوں ، جب میں حاملہ تھی تو ایک نور مجھ سے جدا ہواجس سے میں نے شہر بصریٰ کے قصروں کو شام میں دیکھا۔([50])


 

 جناب عبد اللہؑ کا سفر:

ازدواج کے چنددنوں کے بعد تاجروں کے قافلہ کی شام کی جانب روانگی کا ڈنکا بجا جناب عبد اللہؑ نےاس قافلہ کے ساتھ جانے کا ارادہ کیاانہوں نے ضعیف باپ اور زوجہ کو خدا حافظ کیا،آمنہؑ اسےبرداشت نہ کر سکیں اور جناب عبد اللہؑ کے پیچھے پیچھے چل پڑیں جناب عبد اللہؑ نے واپس ہو کر دیکھا کہ جناب آمنہؑ کی آنکھوں سے آنسوؤں کے قطرے ٹپک رہے ہیں تو اس تجارتی سفر سے پلٹنے کا ارادہ کیا لیکن قافلہ والوں سے عہد و پیمان کیا تھا وہ ارادہ کو بدلنے سے روک رہا تھا۔

آخری بار انہوں نے جناب آمنہؑ کو خدا حافظ کہا جسم جنابِ عبد اللہؑ شام کی جانب جا رہا تھا لیکن روح جناب آمنہؑ کے قریب تھی جناب آمنہؑ کی تصویرعبد اللہؑ کی نگاہوں کے سامنے آتی جاتی تھی آمنہ ؑرہ گئی تھیں ان کا جانسوز گریہ اور لطیف روح جناب عبد اللہؑ کے ساتھ قافلہ کے ساربان کی نغمہ خوانی پر کان لگائے تھی جناب عبد اللہؑ کے ساتھ گزارے ہوئے شیرین زمانے کی یاد برابر ذہن میں آتی جارہی تھی۔

جناب عبد اللہؑ زوجہ کو تنہا چھوڑ کر چلے گئے اگر چہ یہ بالکل تنہائی نہ تھی بلکہ بچہ شکم میں موجود تھا دن رات گذرتے گئے اور ولادت فرزند کا زمانہ قریب آتا گیا انہیں جناب عبد اللہؑ کی یاد زیادہ آنے لگی اور حسرت فراق میں اضافہ ہوتا گیا اس فراق کی زحمت کو اگر کوئی چیز آسان بنانے والی تھی تو وہ صرف یہ کہ جب جناب عبد اللہؑ سفر سے واپس آئیں گےتو انہیں باپ ہونے کی خوشخبری دیں گی، چند ماہ انتظار کے بعد قافلہ کے وارد ہونے کی خبر مکہ میں ہوئی کچھ لوگ اپنے عزیزوں کے استقبال کیلئےمکہ کے باہر گئے جناب عبد المطلبؑ فرزند کے انتظار میں تھے جناب آمنہؑ گھر کے در پر بیٹھی تھیں اور قافلہ میں نگاہ جناب عبد اللہؑ کو ڈھونڈھ رہی تھی لوگوں سے معلوم کرنے پر پتہ چلا کہ جناب عبد اللہؑ واپسی میں یثرب میں بیمار ہوگئے اور اپنے عزیزوں کے پاس رہ گئے اس خبر سے جناب آمنہؑ پر غم و اندوہ کی کیفیت طاری ہو ئی، جناب عبد المطلبؑ نے اپنے بڑے فرزند حارث کویثرب جانے کاحکم دیا کہ جناب عبد اللہؑ کو اپنے ساتھ لے آئیں ، جب حارث مدینہ پہونچے تو جناب عبد اللہؑ دنیا سے کوچ کر چکے تھے اور انہیں دفن کیا جا چکا تھا حارث نے واپس آکر بھائی کے دنیا سے گزرجانے کی خبر باپ کو دی۔([51])

 جناب عبد اللہؑ نے دنیا چھوڑ دی جناب آمنہؑ اور ان کے فرزند رہ گئے گویا مصلحت خدا یہی تھی کہ جناب عبد اللہؑ دنیا سے چلے جائیں اور یہ فرزند یتیم دنیا میں آئے تاکہ آئندہ یتیموں کی غمگساری کرتا رہے فَأَمَّا الیَتِیۡمَ فَلَا تَقۡہَرۡوہ اگرچہ یتیم تھا لیکن خدا کی پناہ میں تھا أَ لَم یَجِدْكَ یَتِیۡمًا فَآوَیٰ.

 جناب عبد اللہؑ کی عمر:

جناب عبد اللہؑ کی عمر کے بارے میں اختلاف ملتا ہے، مشہور قول کی بنا پر ۲۵ سال کی عمر تھی اور بعض لوگوں نے مدت عمر ۱۷ سال بتایا ہے۔([52])

اسی طرح پدر بزرگوار کی رحلت کے وقت پیغمبرؐ اسلام کی عمر کے بارے میں بھی اختلاف ہے۔

(1)             ان کے حمل کو دو ماہ ابھی ہوئے تھے کہ ان کے والد کی وفات ہو گئی۔

(2)            آنحضرت ؐکی ولادت سے دو ماہ قبل والدبزرگوار کی وفات ہوئی۔

(3)            ولادت آنحضرتؐ کے دو ماہ بعد والد کی وفات ہوئی۔

(4)            ولادت کے سات مہینہ بعد والد کی وفات ہوئی۔

(5)            ولادت آنحضرت ؐکے نوماہ بعد والد کی وفات ہوئی۔

(6)            ولادت آنحضرت ؐکے اٹھارہ ماہ بعد والد کی وفات ہوئی۔

آیتی لکھتے ہیں کہ جناب عبد اللہؑ پدر رسولخداؐ نے پچیس سال کی عمر میں مدینہ میں مشہور گھر دار نابغہ میں وفات پائی اور مشہور قول کی بنا پر ان کی وفات رسولخداؐ .کی ولادت سے پہلے ہوئی۔([53])

یعقوبی کا بیان ہے کہ مؤرّخین کا اجماع ہے کہ جناب عبد اللہؑ کا انتقال پیغمبرؐ کی ولادت کے بعد ہوا ہے۔([54])

 طلوع خورشید مکہ:

حضرت پیغمبر ؐاسلام کی ولادت با سعادت ۱۷ ربیع الاول ۰۰۰۱؁عام الفیل روزجمعہ بوقت طلوع صبح صادق ہوئی آپ کی والدہ جناب آمنہؑ وضع حمل کے بارے میں بیان کرتی ہیں :” مجھ پر چند روز ایسے گزرے تھے کہ میں زحمت میں تھی جس سے معلوم ہو تا تھا کہ زمانۂ وضع حمل آرہا ہے اس دن وقت غروب درد میں کچھ زیا دہ اضافہ ہو گیا میں یکہ و تنہا کمرہ میں پیٹھ کے بل لیٹی ہوئی اور اپنے شوہر کی جوان موت اور اپنی تنہائی کے بارے میں سوچ رہی تھی“۔ ([55])

جناب آمنہ کا بیان ہے: میں دھیرے دھیرے آنسو بہا رہی تھی اس کے ساتھ یہ خیال بھی آرہا تھا کہ اٹھ کر جناب عبد المطلب کی لڑکیوں کو درد ولادت کی خبر دوں ، ناگاہ میرے کانوں میں آواز آئی جس سے میرا دل خوش ہوا چند عورتوں کی آواز سنی جو میرے سرہانے بیٹھی ہیں اور باہم محو گفتگو ہیں ،وہ میرے سلسلہ میں بات کر رہی تھیں ان کی خوش کن اور دلپذیر آواز سے اتنا سکون مل گیا کہ میں اپنا درد بھول گئی میں نے سر اٹھا کر دیکھنا چاہا کہ وہ کونسی عورتیں ہیں جو میرے سرہانے بیٹھی ہیں یہ کہا ں سے آئی ہیں ،میرا ان سے کیا رابطہ ہے؟یہ کتنی خوشرو اور پاکیزہ ہیں کہ درد سے نور کی چمک ہو رہی ہے، مجھے خیال ہوا کہ قریش اور مکہ کی بزرگ عورتیں ہوں گی، مجھے اس پر حیرت تھی کہ کیسے بے خبری کے ساتھ کمرہ میں آگئیں کس نے میری حالت کے بارے میں انہیں بتایا ہے؟([56])

عرب کے دستور کے مطابق میں ان کے احترام میں اٹھی اور نہایت گرم و نرم لہجہ میں کہا میرے ماں باپ آپ پر قربان جائیں آپ کہاں سے آئی ہیں کون لوگ ہیں ؟ جو عورت میرے داہنی جانب بیٹھی تھیں انہوں نے کہا کہ میں مرؑیم مادر عیسیٰؑ ہوں ، دوسری عورت نے کہا کہ میں آسیہ زن فرعون ہوں اور دو مزید جنتی فرشتے تھے میرے گھر میں آئے تھے جو میرے پہلو میں تھے میرا درد ختم ہو گیا ،صبح کو جب میں نے دیکھا تو نہ کوئی چیز تھی نہ آواز، چند لمحہ یہ کیفیت طاری رہی کہ نور روحانی عطا ہوا اس نور ملکوتی فرزند کو اپنے دامن میں پایا جو پیشانی عبادت کیلئے زمین پر رکھے تھا اور غیر معلوم نجویٰ میرے کانوں کو محسوس ہو رہا تھا جب کہ کوئی بولنے والا نہ تھا،نہ نجویٰ کا مطلب سمجھ پارہی تھی، میری خوشی بڑھتی رہی کچھ لمحہ زبان بند رہی پھر زبان کھلی تو میں نے فریاد کی ام عثمان ، ام عثمان (یہ جناب عبد المطلبؑ کی زوجہ کی کنیت ہے) میں اس سے مدد طلب کرنا چاہتی تھی ناگہاں میں نے دیکھا کہ میرا فرزند میری آغوش میں ہے۔([57])

جناب عبد المطّلب کو بشارت:

خداوندعالم کی عظیم امانت جناب آمنہؑ کے ذریعہ دنیا میں آئی،شوہر کے انتقال سے جناب آمنہؑ کا دل جس قدر زخمی ہوا تھا فرزند کی ولادت سے زخم بھر گیا اور امید کی دوسری کرن کا دروازہ بھی کھل گیا دل کو سکون ملا شکر خدا ادا کیا جناب عبد اللہؑ کی جگہ بھر گئی بلکہ نو مولود نے جناب عبد اللہؑ کی حیات کو قیامت تک کیلئےدائمی بنا دیا جناب آمنہؑ نے ایک شخص کو جناب عبد المطلبؑ کے پاس خوشخبری دینے کیلئے بھیجاکہ آپ کا پوتا دنیا میں آگیا ہے۔

عبد المطلبؑ سراسیمہ جناب آمنہؑ کے گھر آئےجناب آمنہؑ نے جوکچھ کرامات و معجزات بارداری اور وضع حمل کے موقع پر اپنی آنکھوں سے دیکھے تھے جناب عبد المطلبؑ سے بیان کیا، جناب عبد المطلبؑ بچہ کو ہاتھ میں لےکر کعبہ کے اندر آئے اور خدا کی بارگاہ میں اس ہدیہ آسمانی کاشکر ادا کیا پھر بچہ کو ماں کے پاس واپس کیا۔([58])

 جناب آمنہؑ کا سفر:

جناب آمنہؑ بچہ کیلئے باپ کی حیثیت بھی رکھتی تھیں اور ماں بھی، فرزند عبد اللہؑ کبھی کبھی ماں سے پوچھتے تھے ، میرے والد کہاں ہیں ؟ جناب آمنہؑ فہیم اور با شعور خاتون ہونے کی بنا پر بچہ کو ایسا جواب دیتی تھیں جس سے وہ مطمئن ہو جاتا تھا۔

جناب آمنہؑ کا لال چھ سال تین ماہ کا ہو گیا تو آمنہؑ نے ارادہ کیا کہ بچہ کے ہمراہ اپنے عزیزوں کے دیدار اور جناب عبد اللہؑ کی قبر کی زیارت کیلئےمدینہ کا سفر اختیارکریں وہ جناب عبد المطلبؑ کے پاس گئیں اور اجازت حاصل کی، جناب آمنہؑ بچہ اور ام ایمن کے ساتھ مدینہ کی جانب روانہ ہوئیں جناب آمنہؑ اپنے عزیزوں کے گھر مدینہ میں گئیں اورجناب عبد اللہؑ کی قبر کے بارے میں معلوم کیا انہوں نے اپنے فرزند کا ہاتھ پکڑا اور قبرجناب عبد اللہؑ کی زیارت کیلئے گئیں ،غم و حزن گلوگیر تھا، گریہ کی آواز بلند نہیں ہو رہی تھی لیکن آنکھوں میں آنسو تھے، عالم حیرانی میں شوہر کی قبر کو دیکھے جا رہی تھیں ، بچہ نے ماں سے سوال کیا :مادر گرامی! یہ کس کی قبر ہے؟جسےآپ اس طرح حیرت سے دیکھ رہی ہیں ، آہ و نالہ کی صدا بلندہوگئی اور آنکھوں سے آنسوؤں کا آبشار جاری ہو گیا اور کہا:فرزند ! یہ تمہارے باپ عبد اللہؑ کی قبر ہے جس نے تجھے دیکھے بغیر دنیا سے کوچ کیا۔

آہ آہ میری آنکھیں کس قدرمشتاق دیدار ہیں ، محمدؐ نے اپنے چھوٹے ہاتھوں کو بلند کیا اور ماں کی آنکھوں سے آنسوؤں کو پونچھا اور کہا: ماں ! صبر کیجئے، جلدی ہی ہم اور آپ انہیں آنکھوں کےساتھ ان سے ملاقات کریں گے۔

یہ سفر پیغمبرؐ کیلئے نہایت دلدوز اور نا قابل فراموش تھا کہ پچاس سال کے بعد ۰۰۱۳؁ بعثت میں آپؐ نے مکہ سے مدینہ ہجرت کی جیسے ہی محلہ بنی نجّار کو دیکھا تو فرمایا کہ یہیں میری مادرگرامی آئی تھیں اور اسی گھر میں جناب عبد اللہؑ کی قبر ہے۔([59])

 جناب آمنہؑ کی پیشن گوئی:

چند دن کے بعدجناب آمنہؑ نے پیغمبر ؐ اور ام ایمن کے ساتھ مکہ کے ارادہ سے مدینہ کو ترک کیا، درمیان راہ مقام ابواء میں بیمار ہوئیں اور مرض نے اتنی شدت اختیار کی کہ چلنے کی طاقت نہ رہی ، پیغمبرؐ اور ام ایمن ان کی تیمارداری کرتے رہے لیکن دن بدن حالت میں کمزوری آتی گئی، جناب آمنہؑ نے اپنے فرزند کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیا ان کے چہرۂ زیبا پر نگاہ کی اور یہ اشعار پڑھے:

اِن صَحَّ مَا اَبصَرتُ فِی المَنَامِ

فَأَنتَ مَبعُوثٌ اِلیٰ الأَنَامِ

تبعَث فِی الحِلِّ وَ الحَرَامِ

مِن عِندِ ذِی الجَلَالِ وَ الاِکرَامِ

تبعَث بِالتَّوحِیدِ وَ الاِسلَامِ

دِینُ أَبِیكَ البِرِّ اِبرَاہَام

فَاللہُ أَنہَاكَ عِنِ الأَصنَامِ

أَن لَا تَوَالَیهَا مَعَ الأَقوَامِ


 

اےفرزند جو کچھ میں نے خواب دیکھا ہے اگر وہ صحیح ہے تو تم تمام مخلوق کی جانب مبعوث ہو گے،تمہیں مبعوث کیا جائے حل و حرم میں (تمہاری نبوت کسی خاص علاقہ کیلئےنہیں ہوگی بلکہ عالمی ہوگی) خداوند ذوالجلال کی جانب سے،تم مبعوث ہو گے توحید اور اسلام کے ساتھ یہی تمہارے پدر بزرگوار ابراہیمؑ کا دین ہے،فرزند !خدا نے تمہیں بت پرستی سے روکا ہے تم دوسروں کے ساتھ بت کے قریب نہ جاؤ۔

جناب آمنہؑ کے ان اشعار سے معلوم ہوتا ہی کہ وہ قادر الکلام شاعر اور دین حنیف ابراہیمؑ کی پیروتھیں ۔

اس کے بعد جناب آمنہ ؑنے کہا:کُلُّ حَیّ مَیَّت وَ کُلُّ جَدِید بَال کُلّ کَثِیر یفنی وَأَنَا مَیِّتَةٌ وَ ذِکرِی بَاقٍ وَ قَد تَرکت خَیراً وَ ولدت طُہراً۔([60])

ہر زندہ کیلئے موت ہے اور ہر جدید کیلئے کہنگی، ہر کثیر فنا ہو گا،میں بھی مرجاؤں گی لیکن میرا ذکر باقی رہے گا کیونکہ میں نے باقی رہنے والا خیر چھوڑا ہے اور پاکیزہ فرزند دنیا میں لائی ہوں ۔

اگر مذکورہ جملوں کو دقت نظر سے دیکھا جائے تو جناب آمنہ کا ایمان ، پیغمبر ؐ اور ان کی بعثت اور معاد پر ثابت ہوتا ہے، انہوں نے جاہلیت کے ماحول میں زندگی گذاری تھی لیکن جناب ابراہیمؑ کے طریقہ پر تھیں کیونکہ انہوں نے اپنے فرزند سے کہا کہ تم طریقۂ ابراہیمی کو طے کر رہے ہو اور ان کے دین کو زندہ کر رہے ہو۔

پیغمبرؐ اور فراق مادر:


پیغمبر ؐاسلام کی عمر مبارک ابھی صرف چھ سال کی تھی مادر گرامی نے معبود حقیقی کی بارگاہ میں کوچ کیا،وفات کے بعد ام ایمن نے پیغمبر ؐاسلام اور کچھ ابواء کے لوگوں کی مدد سے انہیں مقام ابواء میں دفن کیا اورپیغمبر ؐاسلام کو لےکر ام ایمن مکہ آگئیں ۔([61])


 



([1])- المقنعہ، ص:۴۵۹ ، البدایۃو النہایۃ، ج:۱ ، ص:۲۴۹ ، تاریخ یعقوبی، ج: ۲، ص: ۱۰، السّیرۃ الحلبیۃ ، ج: ۱، ص:۳۹ ،السّیرۃ النبویّۃ ، ج: ۱، ص:۷۰، الطّبقات الکبریٰ، ج:۱، ص:۵۹ ، اعلام الوریٰ، ص:۶۔

([2])- السّیرۃ الحلبیۃ، ج: ۱، ص:۵۱۔

([3])- تاریخ یعقوبی، ج: ۲، ص: ۱۰ ، قرب الاسناد ، ص:۲۷۔

([4])- اعلام الوریٰ، ص:۱۴۵۔

([5])- البدایۃو النہایۃ، ج:۱ ، ص:۲۴۹۔

([6])- امالی صدوق و مناقب آل ابیطالبؑ، ج: ۳، ص:۳۴۰۔

([7])- امالی صدوق، ص: ۶۰۶ و اصول کافی ، ج:۱،ص:۴۴۴۔

([8])- دلائل الامامۃ، ص: ۵۹ ،جامع الاخبار، ص:۱۵۔

([9])- اصول کافی ، ج:۲،ص:۴۴۷۔

([10])- کمال الدّین، ج: ۱ ، ص:۳۹۱۔

([11])- اسرار آل محمدؑ ، ص: ۲۳۷۔

([12])- اقبال، ص:۶۰۴۔

([13])- اوائل المقالات، ص:۴۶.

([14])- اعتقادات صدوقؒ، ص:۱۱۰۔

([15])- حیاۃ القلوب، ج:۳ ، ص: ۵۱۔

([16])- ریاحین الشریعۃ،ج: ۲،ص:۳۶۹۔

([17])- حیاۃ القلوب، ج:۳ ، ص: ۹۱۔

([18])- توبہ: ۱۱۳۔

([19])- مستدرک الصحیحین، ج: ۲ ، ص: ۳۳۶۔

([20])- صحیح مسلم ، ج:۳ کتاب الجنائز، باب استیذان النبی ربہ فی الزیارۃ قبر امّہ۔

([21])- الطبقات الکبریٰ، ج: ۱، ص:۶۰۔

([22])- مجمع الزوائد و منبع الفوائد، ج:۸ ، ص: ۲۱۴۔

([23])- حوالۂ بالا و حاشیۂ السیرۃ الحلبیۃ، ج:۱ ، ص:۳۳۔

([24])- شعراء :۲۱۹۔

([25])- الطبقات الکبریٰ، ج: ۱، ص:۲۴۔

([26])- البدایۃ، ج: ۲، ص:۱۸۔

([27])- تفسیر کبیر ، ج:۶ ، ص:۲۱۴۔

([28])- سیر اعلام النبلاء، ج: ۲، ص:۶۱۵۔

([29])- البدایۃ و النہایۃ، ج:۸ ، ص:۱۰۹۔

([30])- شرح نہج البلاغۃابن ابی الحدید، ج: ۴، ص: ۳۶۰۔

([31])- شرح نہج البلاغۃابن ابی الحدید، ج: ۴، ص: ۳۶۰۔

([32])- السیرۃ الحلبیۃ، ج:۴ ، ص:۴۲

([33])- حوالہ صدر۔

([34])- سیری در صحیحین،ص: ۲۱۸۔

([35])- اسد الغابۃ،ج:۱، ص:۱۳۔

([36])- ریاحین الشریعۃ، ص:۲۹۱۔

([37])- ریاحین الشریعۃ، ص:۲۹۳۔

([38])- ریاحین الشریعۃ، ص:۲۹۳۔

([39])- بحار الانوار، ج:۱۵ ، ص:۹۹۔

([40])- بحار الانوارایضاً۔

([41])- اسد الغابۃ، ج:۱، ص:۱۳ و بحار الانوار، ج:۱۵ ، ص:۱۰۳۔

([42])- السیرۃ النبو یۃ، ص: ۱۰۳۔

([43])- السیرۃ النبویۃ،ج:۱،ص:۱۰۳۔

([44])- الانوار فی مولد النبی،ص:۱۲۶ ، اثبات الوصیۃ،ص:۱۹۵۔

([45])- البدایۃ و النہایۃ، ج: ۱، ص: ۲۴۹۔

([46])- اعلام الوریٰ، ص:۵۵۔

([47])- امالی صدوق،ص:۲۶۳۔

([48])- بحار،ج:۱۵، ص:؟۔

([49])- السیرۃ الحلبیۃ،ج:۱،ص:۴۶۔

([50])- السیرۃ النبویۃ،ج:۱،ص:۱۰۴۔

([51])- السیرۃ الحلبیۃ، ج:۱ ، ص:۵۰ ، فروغ ابدیت، ص:۱۱۸۔

([52])- قرب الاسناد، ص:۱۷۔

([53])- تاریخ پیامبر اسلام، ص:۱۹۔

([54])- تاریخ یعقوبی، ج: ۲، ص: ۱۰

([55])- اثبات الوصیۃ، ص:۲۰۶۔

([56])- آمنہ مادر پیامبرؐ، ص:۱۱۹۔

([57])- السیرۃ الحلبیۃ، ج:۱، ص:۶۵، روضۃ الواعظین، ص:۶۸، دیار عاشقان، ج:۲، ص:۶۴۔

([58])- السیرۃ الحلبیۃ،ج:۱ ، ص:۱۰۵،العدد القویۃ رضی الدین، ص: ۱۱۸، امالی شیخ صدوق، ص:۲۸۶۔

([59])- السیرۃ الحلبیۃ،ج:۱، ص:۵۰،تاریخ یعقوبی، ج:۲، ص:۹۰۔

([60])- حاشیۂ سیرۂ حلبیہ،ج:۱، ص:۵۷۔

([61])- تاریخ یعقوبی ، ج:۲، ص: ۱۰ ، تاریخ پیغمبر اسلام ، ص:۲۱۔

#Islamic#Real_islam#Shia#Prophet#Muhammad#lifestyle#hadith#karbala#najaf#ashura#muharram#ااسلامی

#اسلام ناب#الشیعہ#العتبۃ#آداب اسلامی#احادیث#کربلا#نجف#عاشورا#محرم#فلسطین

No comments:

Post a Comment

مادران معصومین ع ایک تعارف۔8۔

  آپ امام موسی کاظمؑ کی والدہ تھیں ، تاریخ سے ان کی ولادت با سعادت کی اطلاع نہیں ملتی ہے۔ آپ کے والد کا نام صاعد بربر یا صالح تھا،...